پائندخان خروٹی
فلسفہ اور نظریہ کے درمیان ربط اور فرق کو جاننا اور اس کا درست تعین کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ضرور ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ گتھی سجھائی نہ جا سکے۔ فلسفہ دراصل کائنات، سماج اور انسانوں کے درمیان ربط اور رشتے کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے کیلئے بنیادی علم کا درجہ رکھتا ہے۔ فلسفے کا سارا نظام کاز اینڈ ایفیکٹ کی بنیاد پر قائم ہے جبکہ فلسفے کے مطالعے کے دوران زندگی کے اُمور و معاملات کو جاننے اور سمجھنے کیلئے نظریہ کا سہارا لینا لازمی ہے۔ علم اور فلسفہ کی ترقی اور سماجی ارتقاء کے مختلف مراحل میں انسان مختلف نظریات کو اختیار اور رد کرتا ہے۔ آج بھی کائنات، سماج اور انسان کی ترقی میں نظریہ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔تاہم یہ ضرور ہے کہ سائنسی ترقی اور خاصکر ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد نظریہ کے عمل دخل میں واضح فرق آیا ہے۔
آئیڈیالوجی پر عقیدہ کے اثرات کم ہونے اور سائنس کے اثرات بڑھ جانے سے آئیڈیالوجی دھیرے دھیرے تھیوری کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ اکثر مشرقی زبانوں میں آئیڈیالوجی اور تھیوری کیلئے نظریہ کی اصطلاح ہی استعمال کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خطے کے اہل فکر و قلم گلوبل اور لوکل مسائل میں رشتے تلاش کرنے اور اس کی بنیاد پر ایک ہمہ گیر علمی اور سیاسی فکر کو فروغ دینے میں ناکام ہیں۔ انٹرنیشنلسٹ مقامی معروضی حقائق اور خاصکر محروم اور محکوم اقوام کی اُمنگوں کو سمجھنے اور اُن کی جنگ کو اپنی جنگ نہیں قرار دیتے۔ اسی طرح دوسری جانب قومی سطح پر کام کرنے والے اپنی حدود کو بڑھانے اور عالمی اور خطے کے زمینی حقائق کو سمجھنے سے معذور ہیں۔ گویا مذکورہ دونوں عناصر یعنی نیشنلسٹ اور انٹرنیشنلسٹ اپنے اپنے خول سے باہر نکلنے اور وسعت کو قبول کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
اس کے مقابلے میں پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند کردار بہت واضح اور سائنٹفک نظر آتا ہے۔ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وہ مقامی سیاسی مسائل کو نظرانداز کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ انہوں نے عالمی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ محکوم اور مغلوب اقوام کی آزادی کی جدوجہد کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ حقیقتاً یہ صنوبر کاکاجی کی باغ و بہار شخصیت ہی ہے جس نے اس پورے خطے میں پہلی بار قومی اور طبقاتی جدوجہد کے درمیان جدلیاتی رشتہ کو پوری طرح سمجھا اور دونوں مزاحمتی تحریکوں کو مربوط کر کے انسان کے ہاتھ انسان کے استحصال س نجات کی راہ روشن کی۔
قومی تحریک آزادی میں طبقاتی جدوجہد کو شامل نہ کرنے کے نتائج بالخصوص سرزمین عربیہ اور برصغیر پاک و ہند میں ہمارے سامنے ہیں۔ برصغیر کے عوام نے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بظاہر آزادی حاصل کرنے کے باوجود جدید نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنے رہنے پر مجبور ہیں۔ تینوں ممالک نے عالمی استعمار سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن استعمار سے نجات حاصل کرنے کا تاریخی فریضہ انجام دینا ابھی بھی باقی ہے۔ کاکا جی صنوبرحسین مومند نے برصغیر پاک و ہند کی مکمل آزادی کیلئے دو طرفہ مسلح جدوجہد کی تجویز دی تھی۔ ان کا یقین تھا کہ بیک وقت برطانوی سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کے خلاف مسلح جنگ ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ایک خاص وقت میں غیر ملکی غلامی سے نجات کی جدوجہد کو ترجیح ضرور دی۔ جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ صنوبر کاکاجی موجود دو بڑے تضادات کا سائنسی انداز میں جائزہ لینے اور درست نتیجہ اخذ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد کو اُس وقت میں اولیت دی۔
گویا قومی آزادی کے طبقاتی جدوجہد جاری رکھنا ضروری ہے۔ کاکاجی صنوبرحسین مومند کی عملی جدوجہد اور اس کا سیاسی فلسفہ منفرد حیثیت کا حامل ہے جس سے خاص طور پر حصول آزادی کے بعد بھی استفادہ کیا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی نے اس پر سنجیدہ کام نہیں کیا۔ آج بھی ہندوستان میں ذات پات پر مبنی نظام کا خاتمہ اور دیگر ممالک میں محکوم اقوام کی برابری کو یقینی بنانے کا راز صنوبری فلسفہ میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں جب میں نے خطے کی سیاسی تحریکوں، آزادی کی جدوجہد اور طبقاتی کشمکش کے مطالعے کے ساتھ ساتھ صنوبر کاکاجی کے تعلیمات اور عملی جدوجہد کا مشاہدہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ انھیں نہ صرف یاد رکھیں بلکہ نظریات کو آگے بڑھانے اور خاص کر انہیں نئی نسل میں متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔
پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے سیاسی رہنماء خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی سوانح عمری میں صنوبر کاکاجی اور لینن پرائز یافتہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو (کشمیری) کی متاثرکن تقاریر کا باقاعدہ حوالہ دیا گیا ہے جو آل انڈیا پولیٹکل پارٹیز کانفرنس منعقدہ لاہور میں کی گئیں تھیں۔ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی مذکورہ خودنوشت اور اس میں صنوبر کاکاجی کے تذکرہ کا حوالہ سابق سینیٹر عبدالرحیم مندوخيل نے سہ روزہ خان شہید عالمی سیمینار منعقدہ پایہ تخت کابل میں دیا تھا جس سے مجھے ان عظیم رہنماؤں کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی اور مزید علم و معلومات پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
اس سلسلے میری عرصہ دراز سے خواہش اور کوشش رہی ہے کہ میں بذات خود فلاسفر یا تھیوریسٹ بن جاؤں۔ جب بھی میں اس خواہش کا اظہار اپنے قریبی دوست و احباب سے کرتا ہوں تو اکثر ان کی جانب سے طنزیہ باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بعض تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ خواب کی ہمیشہ تعبیر اُلٹی ہوتی لیکن میرے اندر کا صنوبر ہار نہیں مانتا اور ہمیشہ سیف وقلم کے علمبردار خوشحال خان خٹک کے شاہین (تصورِ ننگیالے) کی طرح اُونچی اُڑان بھرنے کو تیار رہتا ہے مگر پشتونخوا وطن کا یہ شاہین کھبی تھکتا نہیں ہے۔ اس اُمید کے ساتھ کہ ایک نہ ایک دن مجھے کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔
میں آج بھی اپنے سفر پر پوری اب تاب کے ساتھ گامزن ہوں۔ ویسے بھی صنوبر تو موسم بدلنے کے ساتھ کب بدلتا ہے، صنوبر تو سدا بہار ہوتا ہے۔ بس میرا تو ہر ایک کو یہی جواب ہوتا ہے کہ خواب تو خواب ہے، خواب کی سیدھی یا اُلٹی تعبیر کا فیصلہ میری شعوری جدوجہد سے مشروط ہے۔ لہٰذا فیصلہ نہ کرنے سے فیصلہ کرنا بہتر ہے۔ میری یہ انتھک کاوش میری آخری سانس تک جاری رہے گی۔ ہمارے پورے خطے کی اکثر اقوام میں یہ مسئلہ ہے کہ ہم اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
اگرچہ مادری زبان تخلیق اور تفہیم کا معتبر وسیلہ ہے مگر پوسٹ کالونیل اسٹڈیز کے پرچارک اور مذہبی عناصر اس پر خاموش ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم خواب اور سوچ اپنی مادری زبان میں ترتیب دیتے ہیں، اظہار اردو زبان میں کرنے پر مجبور ہیں جبکہ جدید علوم وفنون سے انگلش زبان میں ہی استفادہ کرتے رہتے ہیں جو خطے میں فلاسفر، نظریہ دان اور حقیقی خلقی دانشور پیدا نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
بہرحال مجھ میں نظریہ دان اور فلاسفر بننے کی تحریک، تحریکِ آزادی کے ناقابل فراموش ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند سے ملی ہے۔ واقعتاً صنوبر کاکاجی کا سیاسی مفکورہ مجھے ہر دم پُردم رکھتا ہے۔ بالفاظ دیگر فکری طور پر مجھے متحرک رکھنے کا بڑا سرچشمہ صنوبر کاکاجی کا “صنوبری فلسفہ” ہے۔ اس وضاحت کے بعد ہمارے لیے صنوبری فلسفہ کو سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی پیدا ہو چکی ہے۔ اس خطے میں عام طور پر نیشنلسٹ اور مارکسسٹ سوچ واپروچ رکھنے والوں میں ایک دوسرے سے فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ قومی سیاست کرنے والے انٹرنیشنلزم کے تناظر معاملات کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ بین الاقوامیت کے پرچارک قومی مسائل کو نظر انداز کرنا اپنی نظری پختگی کی ضرورت سمجھتے ہیں۔
قومی اور طبقاتی تضادات کی نشاندہی کرنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آ جاتا ہے کہ یہاں نظر اور نظریہ دونوں کا درست ادراک حاصل کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ تشخیص کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کا مناسب علاج صنوبر کاکاجی کی عینک سے ہی ممکن ہے جس میں بیک درست سمت اور فکری رہنمائی موجود ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ عینک مروج اور روایتی تمام عینک سے مختلف ہے۔ مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ کچھ لوگوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے جبکہ دیگر لوگوں کو نزدیک کی چیزیں نظر نہیں آتی۔ جدید سائنس نے دور اور نزدیک کی اشیاء واضح دیکھنے کیلئے ایک ہی عینک میں دور اور قریب کی اشیاء کو دیکھنے کی گنجائش موجود ہے۔
اب تو میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ عینک کی غیرضروری وزن اُٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور آنکھ میں ہی لینز لگا دئیے جاتے ہیں۔ جدید سائنس نے ایک ہی عینک سے دور اور قریب کی نظر بحال کر دی جبکہ صنوبر کاکاجی کی “سیاسی عینک” نظر کے ساتھ ساتھ نظریہ کو دیکھنے اور عمل کرنے کی رہنمائی بھی فراہم کی۔ گویا اس طرح دو پہلوؤں کے درمیان وحدانیت پیدا کر دی۔ اس عینک سے ہر ذی شعور انسان یکساں مستفید ہو سکتا ہے۔ قوم پرست بین الاقوامی تناظر اختیار کر سکتے ہیں اور بین الاقوامیت پسند پھر ریجنل اور نیشنل مسائل سے رشتہ استوار کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ مفاد خلق مبنی سیاسی فلسفہ ریاست کے تمام ستونوں پر دسترس حاصل کرنے اور انھیں چلانے میں مدد و رہنمائی دیتا ہے۔ صنوبری فلسفہ میں پابندی کے ساتھ آزادی کا پہلو بھی موجود ہے۔ یعنی قومی اور طبقاتی تضادات میں ٹائم اینڈ سپیس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ ہر معاشرہ اپنے معروضی حالات کے مطابق خود کر سکتا ہے کہ تضادات میں سے کس تضاد کو کس وقت میں اولیت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ قومی اور طبقاتی سوال کو حالات کے مطابق آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ اہل علم ودانش خاص طور سے نوجوان عرصہ دراز سے بند دریچوں کو کھلیں۔ تقلید و تکرار سے جان چھڑاتے ہوئے اپنی تاریخ کے حقیقی ہیروز سے آگاہی حاصل کریں اور کاکا صنوبر حسين مومند جیسی باغ و بہار شخصیات کی علمی، سیاسی اور عملی جدوجہد سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہوں کا تعین کریں تاکہ لمحہ بہ لمحہ رقم ہوتی تاریخ میں آپ خود شریک بھی ہوں اور اسے آگے بڑھانے میں حصہ دار بنیں۔
♣