پائندخان خروٹی
کسی بھی خطے کی تازہ ترین صورتحال کا معقول تجزیہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انٹرنیشنل، ریجنل اور نیشنل صورتحال کے درمیان پائے جانے والے اتفاقات اور اختلافات کو بخوبی سمجھا اور جانچا جائے۔ خطے کے مکمل تناظر کو نظر میں رکھے بغیر کسی ایک ریجن یا نیشنل مسئلہ کا درست تجزیہ ممکن نہیں۔ کیونکہ قیادت یا کرنٹ آفئیرز کے ماہر کا غلط تجزیہ سے غلط نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ اس ضمن میں براعظم ایشیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے غریب ممالک اس وقت عالمی قوتوں کی چپقلش اور مسابقت کی وجہ سے گنجلک عالمی غلبے کا سامنا کر رہے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی سربراہی میں قائم ہونے والا عالمی استحصالی نظام پہلی مرتبہ امریکن پالیسیز اور پل پل بدلتی دنیا کے عوام کے اختلاف کی سے زوال پذیری کا شکار ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی نئی قوتوں کا اُبھار بھی ایک اہم عنصر بن چکا ہے۔ ایک جانب چائنا، روس اور متعدد دیگر ممالک جو نئی اُبھرنے والی قوتوں کے نمائندہ سمجھا جاتے ہیں۔ مفاد خلق کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ انٹرنیشنل ہیجمنی کے موجودہ نظام کو تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ مفادات اور تعمیر و ترقی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہئیے۔
خطے میں رونما ہونے والی سیاسی و معاشی تبدیلیوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ پورے خطے میں امریکہ کی مسلسل کمزور ہوتی ہوئی حالت کے بعد امریکہ ڈائریکٹ جنگ کرنے کی بجائے بلاواسطہ پراکسی وار کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ پر بضد ہے۔ امریکی حکمرانوں اور اس کے اتحادیوں کو خطے میں بالخصوص چائنا اور روس کے مزید مستحکم ہوتے ہوئے تعلقات کسی صورت بھی قبول نہیں ہیں اور وہ خطے کو غیرضروری جنگ میں دھکیلنے کیلئے کسی بھی ملک، سیاسی تنظیم یا مذہبی گروہ کو بطور آلہ کار استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ہماری پرامن صورتحال کو سبوتاژ کرنے کیلئے ڈالرز کی بارش کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔
یہ خطرہ واضح ہوتا جارہا ہے یہ پورے خطہ کو ایک بار پھر بڑی جنگی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکن اپنی کڑی شرائط منظور کروانے کیلئے کسی بھی ملک یا ممالک کو معاشی اور سیاسی طور پر کئی خطرات سے دو چار کر سکتا ہے۔ لیکن دنیا کے ملٹی پولر ہونے کے تو اپنے فوائد بھی ہیں۔ سردست جنوبی ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں کیلئے نئے آپشنز بڑھ چکے ہیں۔ آج بھی خطے کے ممالک اور صدیوں سے یہاں آباد اقوام بند گلی میں نہیں ہیں بلکہ ان کیلئے سردست تین آپشنز موجود ہیں۔ ۔
پہلا یہ کہ امریکہ کی بالادستی کو کھل کر تسلیم کریں اور وسائل کی راہ نکالیں۔ ۔ دوسرا یہ کہ چائنا اور روس کی طرف رجوع کریں اور ان کی مدد سے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور انفراسٹرکچر کی ترقی کو یقینی بنائیں۔ ۔ تیسرا یہ کہ اگر ہم دونوں میں سے کسی فریق کی طرف نہ جانا چاہیے تو ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی بھی جنگ کا حصہ بنے سے انکار کریں اور اپنی سرزمین کو براہ راست جنگی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے دیں تاکہ ملک اور خطے کے عوام کو بیک وقت محفوظ بنایا جا سکیں۔
ذہن نشین رہے کہ کوئی بھی جنگ مفت نہیں لڑی جاسکتی اور اکثر اوقات جنگ کی اپنی مخصوص قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ جنگ کا آغاز کرنے والا اس کا اختتام گنوا دیتا ہے۔ اس کی مناسبت سے ولادیمیر لینن نے بجا فرمایا ہے کہ دوسری قوموں کو غلام بنانے والی قوم خود کو بھی ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔
♣