پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے لیکن کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا اور نامور صحافی اب اُس شدت سے مہنگائی کے مسئلے کو نہیں اٹھا رہے، جس طرح یہ مسئلہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اٹھایا جاتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اب مہنگائی کی بجائےعمران خان کی آڈیو ویڈیوز پر مزے لے لے کر گفتگو ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت کے ابتدائی آٹھ مہینوں کے دوران پٹرول، آٹا، گھی، دال، گوشت اور سبزیوں سمیت کئی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں، جو کمی کی ہے، وہ عوامی میں رائے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی موجودہ حکومت نے تین ایئرپورٹس کو بھی آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے کئی ملازمین کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جبکہ حکومت نجکاری کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتی ہے، جس سے ہزاروں مزدوروں کا روزگار متاثر ہو سکتا ہے۔
موجودہ حکومت پر یہ بھی تنقید آتی ہے کہ اس نے عوام پر کی کئی طرح کے ٹیکسز لگا دیے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف غریب آدمی مشکلات کا شکار ہے بلکہ اب متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے بھی گزارا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
نیشنل پارٹی پنجاب کے سینیئر نائب صدر ملک نذیر اعوان کا کہنا ہے کہ میڈیا کا کام عوامی مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں لگتا ہے کہ ”میڈیا بک چکا‘‘ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے بات کر رہی ہیں لیکن میڈیا اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوا ہے۔ جب دو بڑے میڈیا گروپس کے لوگ خود حکومت میں شامل ہو جائیں گے تو حکومت پر پھر میڈیا تنقید کیسے کرے گا اور عوام کو کیسے پتا چلے گا کہ میڈیا ان کے مسائل اجاگر کر رہا ہے‘‘۔
موجودہ حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ ایک طرف عوام کو سادگی کا درس دے رہی ہے اور دوسری طرف کابینہ کے حجم میں مستقل اضافہ کر رہی ہے لیکن میڈیا کی مبینہ طور پر اس حکومت سے قربت ہے تو وہ حکومت کی ”عوام دشمن پالیسیوں‘‘ پر تنقید نہیں کر رہا ہے۔
یہ تنقید صرف سیاست دانوں کی ہی طرف سے نہیں آ رہی بلکہ خود صحافتی برادری میں بھی کئی افراد اس کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ نے عوامی مسائل پر بالکل خاموشی اختیار کر لی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں عام آدمی کے لئے بہت ساری معاشی مشکلات پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود مین سٹریم میڈیا اس پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔ چھ گھنٹے سے زیادہ مشتمل ٹاک شوز عموماً ایسی باتیں کرتے ہیں، جن کا عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جبکہ خبروں میں بھی مہنگائی کو بہت کم کوریج ملتی ہے‘‘۔
فوزیہ شاہد کا خیال ہے کہ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کچھ نامور صحافیوں کو نوازا جاتا ہے اور وہ مسائل پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، ”ماضی میں صدیق الفاروق اور عرفان صدیقی سمیت کئی صحافیوں نے سیاسی طور پر کسی ایک جماعت کی حمایت کی، جس سے میڈیا پر منفی اثر پڑا اور عوام میں اس کا تاثر اچھا نہیں گیا۔‘‘۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں بہت سارے صحافی مختلف اوقات میں حکومت وقت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور سرکاری عہدہ بھی قبول کر لیتے ہیں، جس کی وجہ عوام میں اس سارے عمل کا بہت منفی تاثر جاتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومتوں کی طرف میڈیا کا رویہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ اس طرح کے عمل سے صحافت اور صحافتی برادری کو بہت نقصان ہوتا ہے، ”میرے خیال میں کسی بھی صحافی کو حکومتی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب وہ حکومتی عہدہ قبول کرتا ہے اور میڈیا کی طرف سے حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید نہیں ہوتی، تو پھر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کیوں کہ صحافیوں نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس لیے وہ سودے بازی کر بیٹھے ہیں۔ صحافیوں کو صرف صحافت کرنا چاہیے اور حکومتی ایوانوں سے دور رہنا چاہیے‘‘۔
dw.com/urdu & web desk