بیرسٹر حمید باشانی
جدید میڈیا ہمارے زمانے کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ اس میں ہر طرح کا روایتی اور غیر روایتی میڈیا شامل ہے۔ پاکستان پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے دور سے گزر کر اب سوشل میڈیا کے پیچیدہ دور میں داخل ہو رہا ہے۔ ہر طرف معلومات کی فرا وانی ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان میں اگر کوشش بھی کی جائے تو زندگی کے اہم شعبہ جات کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار میسر نہیں ہوتے۔ اس طرح کی خدمات پیش کرنے والے سرکاری محکموں، اداروں اور نجی ذرائع کے پاس کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہوتی ہے، جو ان اعداد و شمار کے ‘اپ ڈیٹ” نہ ہونے کا جوا ز پیش کرتےرہتے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں چند سال پرانے اعداد و شمار یا عالمی اداروں کی معلومات پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔
مگر پاکستان میں ایک ایسی نفسیات ساخت تشکیل پا چکی ہے، جس کی موجودگی میں بہت لوگ عالمی اداروں کی رپورٹس اور اعداد شمار پر اعتبار نہیں کرتے۔ حالاں کہ دنیا بھر میں یہی ادارے معلومات اور اعدا دو شمار کے لیے بہت ہی معتبر تصور کیے جاتے ہیں، اور عام طور مقامی حکومتیں اور میڈیا اپنی بات میں اعتبار پیدا کرنے کے لیے ان عالمی اداروں کے اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کمی، بھوک اور اس سے جڑے دیگر مسائل پر تحقیق کرنے کے لیے ہمیں یا تو چند سال پرانے اعداد و شمار کو بنیاد بنانا پڑتا ہے یا پھر عالمی اداروں مثال کے طور پر یونیسف اور عالمی بینک وغیرہ کے تازہ ترین اعداد و شمار دیکھنے پڑتے ہیں۔
آج کل بھوک، خوراک کی کمی اور اس سے جڑے مسائل کے لیے عام طور پر فوڈ سیکورٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اور اس حساب سے ملکوں کی عالمی رینکنگ کی جاتی ہے۔ اس میں “گلوبل ہنگر انڈکس” کی رینکنگ کو کافی اعتبار حاصل ہے۔ اس انڈکس کے مطابق 119 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر106ہے۔ اس طرح پاکستان کو ان ممالک کی صف میں شامل کیا گیا، جن میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کم خوراکی کا شکا ر ہے۔ کم خوراکی کے علاوہ اس میں غزائیت کی کمی آئرن، کیلشیم اور وٹامنز کی کمی، صاف پانی کی عدم دستیابی اور اس طرح کے دوسرے عوامل شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان میں غذائیت سے بھر پور اشیا یعنی گوشت مچھلی، دودھ سبز یوں اور پھلوں کا استعمال ترقی یافتہ دنیا کی نسبت چھ سے دس گنا کم ہوتا ہے۔پاکستان کے محکمہ صحت اور یونیسیف کی طرف سے خوراک کے حوالے سے 2018کے سروے سے بہت ہی حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق پاکستان ضروری اور بنیادی خوراک کی پیداوار کے سلسلے میں خود کفیل ہے۔ دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، چاول پیدا کرنے والے ممالک میں اس کا دسواں نمبر ہے۔ شوگر کین میں یہ پانچویں نمبر پر آتا ہے، اور دودھ کی پیداوار میں یہ چوتھے نمبر پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک کی چھتیس اعشاریہ نو فیصد آبادی خوراک کی سنگین کمی کا شکار ہے۔
خوراک میں کمی کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً پچاس فیصد بچے” سٹنٹڈ” ہوتے ہیں، یعنی اپنی عمر کے اعتبار سے ان کے قد چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ اس خوراک کی کمی کا صرف یہ نقصان ہی نہیں ہے کہ بچوں کے قد چھوٹے رہ جاتے ہیں، یا ان کا وزن کم ہوتا ہے، بلکہ اس کے پاکستان کی مجموعی معاشی صورت حال پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کم خوراکی کی وجہ سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوتا ہے اس پر خود منسٹری آف پلاننگ نے چند سال پہلے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق کم خوراکی کی وجہ سے ہر سال پاکستان کی معیشت کوسات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، جو کہ کل جی ڈی پی کا تین فیصد بنتا ہے۔
اس سات بلین میں وہ اخراجات شامل ہیں جو بچوں میں کم خوراکی کی وجہ سے پیدا ہونے والی طرح طرح کی بیماریوں کے علاج کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر وہ نقصان ہے ،جوپانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی بلند شرح کی وجہ سے مسقبل کی لیبر فورس میں کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق3.7 بلین ڈالرکم خوراکی کی وجہ سے بچوں کی سٹنٹنگ اور آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہونے مسائل پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح657 ملین امریکی ڈالر خوراک کی کمی کی وجہ سے عام کمزوری، تھکاوٹ اور خون کی کمی جیسےاثرات کا مقابلہ کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
اب یہاں قدرتی طور پر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان بنیادی ضرورت کی خوراک پیدا کرنے والے ممالک کی پہلی صفوں میں شامل ہے، تو پھر یہاں پر خوراک کی کمی ، بھوک اور فاقہ کشی کی اتنی خوفناک شکلیں کیسے موجود ہیں۔ پاکستان گندم ، چاول، دودھ اور شوگر پیدا کرنے والے ممالک میں آگے آگے ہے تو پھر یہاں اتنی بھوک کیوں؟ ۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پاکستان بہت بڑی مقدار میں خوراک تو پیدا کرتا ہے ، مگر خوراک کے ان ذخائر تک ملک کے غریب اور کمزور طبقات کو رسائی حاصل نہیں ہے۔ خوراک کی پیداوار کے بنیادی ذرائع یعنی زمینوں اور مشینوں پر ملک کے ایک چھوٹے سے طبقے کی اجارہ داری ہے۔
یہ طبقہ جاگیرداروں، زمین داروں اور اب نئے ابھرتے ہوئے جدید فارمرز اور ٹھیکے داروں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ زرعی پیداوار کےتمام روایتی اور جدید ذرائع کے مالک ہوتے ہیں، اور زرعی پیداوار کو زاتی منافعے اور دولت میں بے تحاشا اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گندم ، چاول اور چینی جیسی زرعی اجناس کی لاکھوں ٹن پیداوار تک غریب طبقات کی بس اتنی رسا ئی ہوتی ہے کہ وہ اس میں بطور کھیت مزدور اور محنت کش کے حصہ لیتے ہیں، اور جب فصل اجناس کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تو ان کا اس سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔اور جس محدود طبقے کا ذرائع پیداوار پر اجارہ ہوتا ہے وہ بلا شرکت خیر ان اجناس کے مالک بن جاتے ہیں۔ ان اجناس سے بے تحاشا منافع صرف کھیت مزدور یا محنت کش کی سستی محنت کا نتیجہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس شعبے میں اجارہ داری کی وجہ سے وہ بے تحاشا منافع کے کئی دیگر راستے اختیار کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے اخبارات میں گندم کی فاضل پیداوار اور پھر اچانک اس کی قلت کے اعلانات، شوگر کی ایکسپورٹ اور اس پر سبسڈیاں ، پھر قلت کے پیش نظر امپورٹ جیسی خبریں ان راستوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یہ صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زرعی اجناس دولت مند طبقے کی دولت میں اضافے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور یہ بنیادی اور زندہ رہنے کے ضروری اسباب غریب طبقات کی پہنچ سےدور ہیں، اور دن بدن ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کی پہنچ سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔
آٹے چینی پیاز وغیرہ کی پیداوار میں ہیر پھیر، ان کو فاضل قرار دیکر ایکسپورٹ، پھر قلت قرار دے کر امپورٹ کے عمل کے بعد جب قیمتیں آسمان سے بات کر رہی ہوتی ہیں، تو یہ ان اجناس کی ملکیت اور تجارت سے جڑے دولت مند طبقات کی دولت میں ہزاروں گناہ اضافے کی نوید، اور غریب محنت کش کی بھوک ننگ میں اضافے کی خبر ہوتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اب یہ سارا سلسلہ عمل کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔ سب کچھ طشت از بام ہو چکا ہے۔ مگر اس باب میں نہ کسی سنجیدہ فورم پر بحث ہوتی ہے، نہ قانون سازی ہوتی ہے۔
♣