پائندخان خروٹی
ملک بھر کی یونیورسٹیز اور ان میں دی جانے والی تعلیمات اور تحقیقات کے حوالے سے عوامی اور حکومتی سطح پر تند و تیز بحثیں ہو رہی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کی سماجی آفاديت، فرد اور سماج کی پائیدار ترقی اور تزئین میں اس کے کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس بات کا تنقیدی جائزہ بھی عام ہے کہ پبلک اینڈ پرائیویٹ یونیورسٹیز سے حاصل ہونے والی تعلیم سماجی ضرورتوں کے کسی حد تک متعلق یا غیرمتعلق ہے؟
عام طور پر اس حوالے سے آجکل عدم اطمینان کا رحجان پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض نقاد یہی سمجھتے ہیں کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مادی ضروریات اور مارکیٹ کے کردار کی وجہ سے یونیورسٹی کی تعلیم ذہنی تسکین اور شخصی آرائش کا باعث تو ہو سکتی ہے لیکن یہ اپنے اسٹوڈنٹس کو کارآمد شہری اور کنٹریبیوٹر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں نوجوانوں میں یہ رحجان بھی عام ہو رہا ہے کہ سوشل سائنسز کے مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی سماجی فائدہ نہیں ہے۔ اس سے روزگار نہیں ملتا لہٰذا وہ ایسے مضامین میں داخلہ لینے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ بعض ناقدین اس معاملے میں ایک قدم اور آگے چلے جاتے ہیں کہ کلچر اور لٹریچر سے متعلق شعبے یونیورسٹی کی سطح پر ختم کر دیئے جانے چاہیے کیونکہ یہ مضامین ایک طرف تو سماجی ضروریات پوری نہیں کرتے اور دوسری طرف یہ موجودہ وقت میں کسی عزت و وقار کا باعث بھی نہیں رہے۔ سوشل سائنسز کے مقابلے میں پروفیشنل تعلیم کی اہمیت بڑھ رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد اپنی روٹی روزی کا بندوبست تو کر سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پالیسی میکرز اور صاحب واک و اختیار پل پل بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق اس بات کا ازسرِنو جائزہ لیں کہ یونیورسٹیز میں کونسے شعبے رکھے جائیں اور کون سے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے جائیں۔
سوشل سائنسز کے مقابلے میں نیچرل سائنسز قدرے مختلف ہیں لیکن چند ذاتی فوائد اور ملازمتوں کے حصول تک ہی اس کے نتائج بھی محدود ہیں۔ سماج کی مجموعی ترقی سائنسی ایجادات، سولرائزیشن، ڈیجیٹل لائزیشن، زراعت اور معیشت کے شعبوں میں غیرمعمولی صلاحیت اور کارکردگی کا کوئی مظاہرہ نظر نہیں آتا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہوگا کہ سائنس اور تحقیق کے شعبوں سے وابستہ افراد بھی یونیورسٹیز کی چاردیواری اور کلاس رومز تک محدود ہیں۔ اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹس میں اسٹوڈنٹس سے زیادہ اساتذہ کی تعداد موجود ہے۔ اگر انحطاط پذیری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں استاد چھوٹا لیکن اس کی ڈگری بڑی ہو جائیگی۔
میری یہ بات شاید کسی پر گراں گزرے لیکن یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ قبائلی عمائدین، جاگیردار اور چوہدریوں کی طرح ہمارے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز ، ادباء اور ماہرین تعلیم بھی سماج سے داد و تحسین حصول کرنے میں تو پیش پیش ہوتے ہیں لیکن سسٹم اینڈ سٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کیلئے ان کی کنٹریبیوشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے کریٹکل گروپ ڈسکشن کے ساتھی پی ایچ ڈی ڈگری کو قبائلی دستار بندی سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔
قبائلی معتبرین کی طرح ہمارے ہاں اکثر اعلیٰ ڈگری یافتہ بھی سماج پر بوجھ بنے ہوتے ہیں جن کا معاشرے کو کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ رٹا سسٹم اور سفارش کلچر سے تخلیقی اذہان اور تنقیدی شعور کی روشنی ماند پڑ چکی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ سیاست اور ریاست کے پالیسی میکرز ایسی جامع حکمت عملی وضع کریں جس میں روزگار تلاش کرنے کی بجائے روزگار فراہم کنندگان پیدا کر سکیں۔ اس کے علاوہ ہر ذی فہیم شخص کو یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے میں کنزیومر کے ساتھ ساتھ کنٹریبیوٹر کا کردار اختیار کریں۔
سماجی ارتقاء کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جو پیداواری عمل میں حصہ رکھتا ہوں وہی معاشرے کا ریلیوینٹ اور زندہ انسان ہوتا ہے۔ لمحہ موجود میں ماضی کی رنگین داستانوں اور مسقبل کی للچاہٹ سے لوگوں کو ورغلایا نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ عہد پریگمنٹزم کا عہد ہے۔ کوئی رہنماء ، ادارہ، نظريہ یا مذہب جو آج کی زندہ انسانوں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا وہ انسانی معاشرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہائیر ایجوکیشن کے اداروں اور یونیورسٹیز کے بااختیار پالیسی میکرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں اور اپنے معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق آزسرنو ترتیب دیں۔ اس پورے عمل میں روایتی ادیبوں، شاعروں اور پروفیسرز کی بجائے بین الاقوامی ماہرین، سوشل سائنٹسٹس اور پولیٹکل سائنٹسٹس کی رہنمائی حاصل کی جائے۔ تب ہی یونیورسٹی کے شعبوں اور ان اساتذہ کرام معاشرہ میں اپنا مقام اور وقار واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم دائروں سفر کرنے کی بجائے اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جائیں گے۔
♠