ہر بیر سنگھ
پیرس حملوں کے بعد ایک بار پھر میڈیا میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ اسلامسٹ کی طرف سے یہ حملے دراصل ردعمل ہیں مغربی ممالک کی سامراجی پالیسیوں کا۔ اگر مغربی سامراج ہی ان حملوں کا ردعمل ہوتے تو پھر کوریااور ویت نام کے دہشت گرد سب سے پہلے یہ کاروائیاں کرتے۔ مغربی ممالک کی طرف سے لاطینی امریکہ اور افریقہ میں کی گئی زیادتیوں کا ردعمل دہشت گردی کی صورت میں کیوں نہ نکلا۔ صرف مسلمانوں کی طرف سے ہی کیوں ردعمل آرہا ہے؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو جہاد کے متعلق کوئی علم نہیں تھا۔کیونکہ ملکوں کی سیاست اور سلامتی تیل کی سپلائی کے گرد گھومتی تھی۔ کچھ ملکوں نے اپنی معیشت کو ترقی دی اور کچھ نے اپنی افواج کو بڑھایا۔ دنیا میں تیل کی سیاست ہورہی تھی کہ کیسے اپنے تیل کے ذخائر کو ا ستعمال کرنا ہے یاان کے ذریعے بلیک میل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن صرف مشرق وسطیٰ کا تیل ہی کیوں دنیا میں جہاد کے فروغ کا باعث بن رہا ہے؟
اس کا ذمہ دار صرف سعودی عرب ہے جس نے اپنی تیل کی دولت کو دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا ۔ مسلمان ممالک میں مساجد اور مدارس کے لیے بے دریغ فنڈز دیئے اور یہ مساجد اور ادارے سعودی عرب کی بنیاد پرستی اورنفرت پر مبنی نظریات کو فروغ دینے کا باعث بنے۔ دنیا کی ہربڑی دہشت گرد تنظیم کسی نہ کسی طریقے سے سعودی عرب سے جڑی ہوئی ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال وہابی آئیڈیالوجی نے مسلم معاشرے کی تشکیل نو کی ہے اور یہ اتنی کامیاب ہے کہ مغربی ممالک کاروشن خیال ( یا بائیں بازو کے نظریات کا حامل) طبقہ بھی اپنی حکومتوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار قراردیتا ہے۔
ایران عراق جنگ میں ہزاروں مسلمان ہلاک ہوئے ۔ مسلمان جب مسلمان کا قتل کرتا ہے تو چومسکی اینڈ کمپنی ( اور لیفٹسٹ) کو یہ قتل و غارت نظر نہیں آتی الٹا وہ امریکہ کو اس قتل عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عرب عسکریت پسندوں نے سوڈان میں تین لاکھ افراد کو قتل کیا لیکن کوئی روشن خیال دانشور ان کا تذکرہ نہیں کرتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان نے بنگلہ دیش میں قتل عام کیا جس میں محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور آج کل بلوچستان میں یہ قتل عام جاری ہے۔لیکن دنیا میں ان مظالم کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔عراق پر دوسرے امریکی حملے کے بعد امریکی افواج کے ہاتھوں اتنے افراد قتل نہیں ہوئے جتنے شیعہ اور سنی نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہے لیکن ہم امریکہ کو اس کا الزام دیتے ہیں۔
ہر اس واقعے پر جس پر مغرب کو مورودِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ،اس کی وحشت و بربریت کا تذکرہ کیا جاتا ہے لیکن جب مسلمان یہ سب کچھ کریں ( جیسا کہ سوڈان اور بنگلہ دیش میں ہوا) تو یہ خاموش ہو جاتے ہیں اور مغرب کو اسلامی انتہا پسندی کے فروغ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وگرنہ مسلم تاریخ کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کر لیا جائے تو انہیں علم ہو گا کہ مسلم حکمران کیسے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر مظالم ڈھاتے تھے۔
یہ درست ہے کہ مغربی ممالک نے مظالم ڈھائے ہیں لیکن یہ کہنا بددیانتی ہے کہ اسلامی دہشت گردی کا ذمہ دار مغربی ممالک کی پالیسیاں ہیں ۔ اس کی ذمہ دار تیل کی دولت سے مالامال اسلامی بنیاد پرستی ہے۔
انتہا پسند مسلمانوں کی طرف سے قتل عام کے بعد مغرب ہی یہ کہتا ہے کہ عام مسلمان کو اس قصور وار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ یہ مغرب ہی ہے جو مسلمان مہاجروں کو اپنے ہاں پناہ دیتا ہے اور وہ وہاں بغیر خوف و خطر کے زندگی گذار سکتے ہیں۔ یہ مغرب ہی ہے جو اپنے سابقہ دشمنوں کی طرف امن و دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے ۔ جرمنی، جاپان ، اٹلی، ویت نام اور جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کے بہترین تعلقات ہیں۔ یہ مغرب ہی ہے جو اپنے دشمن ممالک سے آئے ہوئے افراد کو پناہ دیتا ہے ۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بے شمار روسی شہری امریکہ میں آئے ۔ اس کے علاوہ ہزاروں ایرانی طالب علم امریکہ پڑھنے آئے۔
یہ مغرب ہی ہے جو مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل عام کے بعد اپنے ہاں پناہ دیتا ہے ۔جبکہ سعودی عرب اور عرب امارات نے ان مسلمان مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں نہیں کھولیں۔ مشرق وسطیٰ میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ مغربی ممالک اور غیر مسلموں کے ساتھ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔کسی مسلمان ملک سے یہ آواز نہیں اٹھتی کہ مغربی ممالک اور غیر مسلموں کے خلاف نفرت انگیز رویوں اور پراپیگنڈے کو ختم کیا جائے۔بلکہ الٹا مغربی ممالک سے ہمدردی کی بات کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے یا پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔
مسلمان ، کافروں( غیر مسلموں کے لیے تضحیک آمیز لفظ) کو کبھی بھی اپنے برابر سمجھنے کو تیار نہیں۔حتیٰ کہ غیر مسلموں کے خلاف ہر قسم کا نفرت انگیز پراپیگنڈہ کیا جائے گا اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق ان کو کمتر (ذمی) سمجھا جائے گا۔اور اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ دہشت گردی مغرب کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ سلمان تاثیر کا قتل ہو یا چارلی ہیبڈو کے کارٹونسٹ کا قتل عام کا ذمہ دار ہم قتل ہونے والوں کو قرار دیتے ہیں نہ کہ قتل کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہراتیہیں۔ان کے نزدیک ’ ’ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کے لیے وہ موت کے مستحق ہیں‘‘اور مسلم دنیااس انتہا پسندی کا عملی اظہار ہے ۔ یہ سوچ واضح کرتی ہے کہ اسلامی دہشت گردی کا ذمہ دار مغربی سامراج نہیں ہے۔
بے شک یہ صورتحال یکطرفہ نہیں ۔ مغرب کی کئی پالیسیاں درست حالات کا ادراک کرنے میں ناکام ہوئیں اور تباہ کن ثابت ہوئیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ توانائی کے مسئلے پر کسی نہ کسی کی مجبوریاں ہیں۔لیکن مسلمان دنیا کے آمروں اور مُلاؤں کی کمینگیاں اور بدمعاشیاں بھی ایک حقیقت ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان سے لے کر شمالی بحراقیانوس تک اور برطانیہ میں مسلمان کے علاقے، یہ سب بغیر کسی وجہ کے غیر مسلموں سے نفرت تعصب کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں غیر انسانی سلوک کا مستحق سمجھتے ہیں ۔ یہ رویہ مسلمان رہنماؤں، کمیونٹی آرگنائزیشن اور عوامی جذبات میں پایا جاتا ہے۔
ان حقائق کو نظر انداز کرکے یہ کہنا مسلمانوں کی دہشت گردی ’’ مغربی سامراج‘‘ کا ردعمل ہے سراسر جاہلیت اور بددیانتی ہے۔بھارت میں بھی مسلمانوں کے خلاف بنیاد پرستی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں مسلم حملہ آوروں نے یہاں مقامی آبادی سے جو سلوک کیا اس کا ذکر کوئی کرنے کو تیار نہیں۔اس کے برعکس ہندوستان میں ہندو مسلم منافرت کا ذمہ دارانگریز کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ یہ بہت مایوس کن سوچ ہے ۔
اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سیکولرازم۔ مغربی دنیا کو آپس کی قتل و غارت کے بعد مل جل کر رہنے کا طریقہ سیکولر ازم کی صورت میں دریافت کر لیا ہے لیکن مسلمان اسے اپنانے کو تیار نہیں۔جب تک مسلمان ممالک میں سیکولر ازم اور جمہوریت کو اپنایا نہیں جائے گاان میں سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
The Nation