بصیر نوید
آج کی حکومت میں کور کمانڈر ہاؤس بالمعروف جناح ہاؤس اور ملٹری تنصیبات بہ فضل تعالیٰ مکہ مدینہ سے زیادہ مقدس درجات پر فائز ہوگئے ہیں روزانہ نوجوانوں کی ان مقدس مقامات کی بے حرمتی میں گرفتاریوں کی خبریں ملتی ہیں۔ ایک تماشا سا لگایا ہوا ہے۔ ایک سیاسی جماعت سے تعلق کے باعث نوجوان خوف کے عالم میں چھپتے پھر رہے ہیں۔گرفتاریوں اور عقوبت خانوں میں لاپتہ کردیئے جانے کے خوف سے نوجوان تو اب ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں غرق آب ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
عالم تو یہ ہے کہ نوجوانوں کی شبیہ اگر کسی طور سی سی ٹی وی کیمرے میں آجائے تو فیصلہ کرلیا جاتا ہے بلکہ سرکاری سطح سے سنایا بھی جاتا ہے کہ اس نے ملک کیخلاف بغاوت میں حصہ لیا اور سازشی بن گیا/بن گئی ہے۔ اسے یہ بھی خوف کہ اگر وہ گرفتاری نہیں دے گا یا گرفتاری نہیں دے گی تو اسکے ماں باپ یا بھائیوں کو اٹھالیا جائے گا۔ اس لئے وہ سمندر کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ریٹائرڈ فوجیوں کی بیگمات اور انکی بیٹیوں کیخلاف کارروائیوں پر زیادہ اعتراض اسلئے نہیں کیا جاسکتا کہ ریٹائرڈ فوجیوں کے ہاں خواتین انتہائی بد مزاج اور اکھڑ ہونے کے ساتھ فوجیوں کے قابو سے باہر ہوتی ہیں لہذا یہ انکا اندرونی معاملہ ہے وہ جانیں اور حاضر سروس فوجی۔ ہماری تشویش خواتین سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملٹری والوں کے رویہ سے ہے۔ فٹبال کی گول کیپر لڑکی سے پتہ نہیں کون سی دشمنی تھی کہ اسے بھی کور کمانڈر ہاؤس پر حملے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس عمل سے فٹبال کے شائقین و شوقین مرد و خواتین کے دلوں سے خاکیوں سمیت حکمراں اتر چکے ہیں۔
پاکستان جیسے دقیانوسی معاشرہ میں جہاں ہر معاملے میں چھ سات جماعت پاس مولوی کا ہمہ وقت دخل ہوتا ہے بچیوں کا اسپورٹس میں آنا ایک تو بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے وہاں اب ایک بچی کو ملک دشمنی میں گرفتار کرلیا گیا۔ اب بتائیے کیا بچیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے؟ اسکے لئے تو یہ مظاہرہ ایک ایڈونچر سے زیادہ نہیں تھا۔ لیکن اب اسکے سارے خوابوں کو ہاون دستے پر رکھ کر کچل دیا گیا۔ فٹبالر کے خاندان، دوست و سہیلیاں زندگی بھر کیلئے سیاست کے ساتھ ساتھ کھیلوں سے بھی توبہ کرلیں گے۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی نے حملے کے دوران حصہ لیا تو اس میں کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں یہ ان کی فطرت کا نتیجہ ہے۔
نوجوانوں کی زندگی میں ایڈونچر و تھرل وغیرہ تو لازم ہوتا ہے اگر جنرل عاصم، شہباز شریف یا رانا ثنا اللہ بھی اس عمر میں ہوتے تو یقینی طور پر وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہوتے۔ اس قسم کے ایڈونچر نوجوانی کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے بچے سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کم از کم میں اپنے بارے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں بیس بائیس سال کا ہوتا تو یقینی طور پر حملوں میں حصہ لیتا کہ اپنی طاقت سے بڑی طاقت رکھنے والوں کو بھاگتے دیکھتا۔ بلکہ اوروں کو بھی اکساتا۔
دوسری جانب چھوٹے قد کے لوگوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کیلئے فوج کو چڑھا دیا کہ 9 مئی کے واقعات امریکہ کے جڑواں ٹاورز کے عین طرز پر ہے جس کا مقصد فوج کی تباہی تھا لہٰذا ان واقعات کو بالکل اسی طرح نمٹا جائے جیسا امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد اختیار کیا تھا۔۔ ہمارے نصیب دیکھئے کہ عقل و خرد سے عاری عمران خان ہے جو خود تو ڈر کر چھپتا پھرتا ہے مگر لوگوں کو لڑنے پر مکمل آمادہ کیا ہوا ہے، اسے کسی کے مرنے اور جینے سے کوئی تعلق نہیں، اس نے بھی نوجوانوں کو آگے لگایا ہوا ہے۔ ایسے مرحلے میں فوج اور حکومت اپنی کپکپاتی ٹانگوں کے سہارے سارا انتقام نوجوانوں سے لے رہی ہے۔ دشمنوں سے ایک مرتبہ بھی نہیں جیتنے والے اپنی بہادری کا اظہار نوجوانوں سے رہے ہیں۔
دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں فوجیوں نے اپنے کئی جوان شہید کرادیئے، ہر چند دن بعد سرحدوں سے خبریں آتی ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں پاک فوج کے کچھ نوجوان شہید اور ایک یا دو دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ یعنی ہماری کارکردگی یہ ہے کہ جب چاہے دہشت گرد ہمارے جوانوں کو شہید کرکے اپنے ایک یا دو کو ہلاک کرواکر بخیریت اپنی کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں اور ہم تین چار دن تک شہید ہونے والوں کا ذکر کرکے پھر نئے شہدا کے ساتھ ایسی ہی روایت نبھاتے ہیں۔ ساری پریشانی اور خوف نوجوانوں سے ہے سے ہے جو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو نوجوان مزے لینے کیلئے ایسے ھنگاموں میں گرفتار ہوئے ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیئے ورنہ جو تم سمجھ رہے ہو کہ معاملات سختیوں سے درست ہو جائیں گے تو تمہیں اپنی طاقت کے نشے میں نہیں پتہ کہ کیا ہوگا۔ جن لوگوں کا کام سرحدوں کی رکھوالی ہے اور جسکا مہنگا ترین معاوضہ بھی لیتے ہیں ان کی مہربانی ہوگی کہ وہ سرحدوں پر ہی رہیں یہ کام سویلینز پر چھوڑ دیں۔کون سی بری بات یا کون سی سازش؟ لڑکے لڑکیوں کی جاں بخشی کیجئے۔
♣