بیرسٹر حمید باشانی
زخمی اونٹنی کی چیخ بہت دور تک سنائی دی۔ بد قسمت اونٹنی کی ٹانگ جس طریقے سے کاٹی گئی ، یہ ایک ہولناک واقعہ تھا۔ اس واقعہ میں ظلم ، بربریت اور بے رحمی کی انتہا ہے۔ یہ کام ایک ایسی مخلوق نے کیا جو اپنے آپ کو اشرف مخلوقات قرار دیتی ہے۔ اپنے آپ کو انسان کہتی ہے۔ کوئی انسان بھلا کوئی ایسا کام کیسے کر سکتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے، جو ہر ایسے خوفناک واقعہ کے بعد اٹھایا جاتا ہے۔ مگر کوئی اس کا جواب نہیں دیتا۔ ہر بار ایسا کام اسی انسان نما مخلوق کے ہاتھوں پھرسر زد ہوتا ہے۔ یہ انسان نما مخلوق اپنی وحشت کا اظہار صرف اونٹ، بکری یا کسی دوسرے جانور پر ہی نہیں کرتی، بلکہ وہ یہ کام اپنی جیسی مخلوق پر بھی کرتی ہے اور اس کی اس وحشت کا شکار معاشرے کے کمزور لوگ اور کمزور طبقات بنتے ہیں۔کبھی خبر آتی ہے کہ کسی عورت کو زندہ جلا دیا گیا۔ کسی بچے کو جنسی درندگی کا شکار بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ کسی لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ ہر روز ایسی چیختی چلاتی خبریں آتی ہیں۔
انسان حیرت و افسوس سے یہ معصوم سوال پوچھتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک انسان یہ درندگی کیسے کر سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ایسا ہوتا ہے۔ انسان یہ درندگی کرتا ہے، اور بار بار کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک انسان اس وحشت اور درندگی سے نکل کر پوری طرح مہذب نہیں ہو جاتا۔اس وقت صورت یہ ہے کہ انسان کو پوری طرح مہذب ہونے سے پہلے ہی مہذب ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا گیا۔ اس کے اس عمل کو چیلنج کرنے والی کوئی مخلوق موجود نہیں ہے۔ اس لیے انسان اپنے آپ کو جو چاہے درجہ یا خطاب دے ۔ لیکن انسان ابھی تک پوری طرح مہذب ہوا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے جیسے واقعات نہ رونما ہوتے۔
مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی جو چھوٹی سی کرن نظر آتی ہے، یا انسان میں جو تھوڑی بہت تہذیب ہے اس کا احساس اس واقعہ پر ہونے والے رد عمل سے ہوتا ہے۔ اس زور دار رد عمل سے تہذیب اور احساسیت جھلکتی ہے۔ اس احساسیت کو سوشل میڈیا نے اجاگر کیا۔ ایک اونٹنی کی مظلومیت اور درد کا قصہ دور تک پہنچایا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ قصہ زبان زد عام ہو گیا۔ ورنہ اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں ان واقعات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں کئی دفن ہو جاتی ہیں۔ سو یہ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ ایک مظلوم اونٹنی کو ہیرو بنا دیا۔ اس کے مالک کی داد رسی کی بات شروع ہوئی۔ خود اس اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ لگانے کے اعلانات ہوئے۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ سوشل میڈیا ایک اثاثہ بے۔ یہ بے اوازوں کی آواز بنتا جا رہا ہے۔ اس کی موجودگی میں ظلم، جبر اور نا انصافی کے واقعات پوری طرح ختم تو نہیں ہوتے، مگر ان میں نمایاں کمی کے امکانات ضرور پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ میڈیا اب نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے ہاتھوں میں ایک طاقتور ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ طاقتور لوگ سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کے پاؤں میں زنجیریں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ اس کوشش میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ کبھی سائبر سیکورٹی کے نام پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاتی ہے۔ کبھی سارے تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر آرڈینینس کے ذریعے اس کو قابو کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ان کے عزائم دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا، مگر اس میں ان لوگوں کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ زخمی اونٹنی کا واقعہ جیسے اجاگر ہوا، وہ جدید دور کے میڈیا کا ایک مثبت پہلو ہے۔ مظلوم اونٹنی کی خبر آئی اور فورا داد رسی کا عمل شروع ہو گیا۔ مگر اس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں ، جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انصاف ہائی پروفائل واقعات اور ان پر ہونے والی میڈیا کوریج سے مشروط ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اب انصاف کی توقع صرف بڑی خبروں والے مقدمات اور ہائی پروفائل کیسز میں ہی ہوتی ہے۔ ہائی پروفائل کیسز کی ہنگامی بنیاد پر سماعت شروع ہو جاتی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ پتہ چلتا ہے کہ کیس میں ہنگامی یا فوری نوعیت کی کوئی بات نہیں تھی۔ جن خدشات یا خطرات کے پیش نظر مقدمات کو سماعت کے لیے ترجیح دی جاتی ہے وہ کچھ عرصہ بعد بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ اور کیس کی فوری سماعت کی وجہ کوئی سیکیورٹی خطرات یا دوسرے خدشات نہیں ہوتے، بلکہ اس کی وجہ کیس کا ہائی پروفائل ہونا اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنا ہے۔ مگر اس عمل سے قانون کی حکمرانی کے تصورات کو سخت دھچکا لگتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہرکیس کا فیصلہ اس کی باری اور میرٹ پر کیا جائے اور اس عمل کے دوران اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی جائے کہ مقدمہ کا کوئی فریق کتنا اہم یا طاقتور ہے۔ کسی فریق کی اہمیت ، طاقت کی بنیاد پر کیس کی سماعت یا فیصلہ قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملہ ہے۔
اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 30 اکتوبر کی تقریر بڑی اہم اور د دلچسپ ہے، جو قانون کی حکمرانی کے بنیادی تصورات کو اجاگر کرتی ہے۔ مگر آنے والے وقتوں میں تاریخ گواہ ہے کہ بے شمار اہم فیصلے قائد اعظم کے تصورات اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کے بر عکس ہی ہوئے۔ یہاں تک کہ اس کو باقاعدہ روایت بنا دیا گیا۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کیسز عوام کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ پریس سے بچنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام تیز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں ریاستی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان وسائل کو آئین و قانون کی رو سے تمام مقدمات پر مساوی طور پر تقسیم کیا جانا چاہیے، لیکن ایسا ہوتا نہیں، بلکہ ان مقدمات کے لیے بہت زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے جو سوشل میڈیا یا عام دھارے کے میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر ہوتے ہیں۔ اس طرز عمل پر بعض اعلی عدالتیں بھی نا پسند کرتی ہیں، اور وہ گا ہے اس پر رد عمل بھی دیتی رہی ہیں۔
ماضی میں اس طرح کی صورت حال کے پیش نظر لاہور ہائی کورٹ نے اس بات پر ریمارکس دیے کہ کس طرح حکومت میڈیا میں نمایاں ہونے والے مقدمات کو غیر متناسب طور پر زیادہ وسائل فراہم کرتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ منصفانہ مقدمے کی سماعت کا حق کوئی مشروط حق نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل حق ہے۔ فو جداری نظام انصاف کو تمام فو جداری مقدمات میں یکساں طور پر انصاف فراہم کرنا چاہیے لیکن جب میڈیا، طاقت اور اثرو رسوخ کی وجہ سے ایک مقدمے کو دوسرے مقدمے پر ترجیح دی جاتی ہے تو یہ عمل سیلیکٹیو جسٹس کو جنم دیتا ہے۔ ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک نے اپنے نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے سیلیکٹیو جسٹس سسٹم سے جان چھڑائی ہے۔ دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ طرز عمل قانون کی حکمرانی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لیکن ہمارے ہاں اس طرح کے سیلیکٹو جسٹس سسٹم کو قبولیت عام حاصل ہوتی جا رہی ہے، جو ایک پریشان کن عمل ہے۔
♠