صوفی ازم یا سیکولرازم

لیاقت علی

مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی،عدم برداشت اور قتل و غارت گری کا توڑ کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل اورحکمت عملی اختیار کی جائے جس کی بدولت ریاست کے تمام شہریوں کے مابین پائیدار  برداشت، تعاون، ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی سماج کے قیام کا مقصد ممکن ہوسکے۔اس بارے میں ہمارے ہاں ایک سے زائد نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔

ایک نقطہ نظر مذہبی سیاسی جماعتوں اور فرقہ ورانہ گروہوں کا ہے۔ان کے نزدیک پاکستان میں سرے سے فرقہ ورانہ اختلافات،مناقشت اور کشیدگی کا کوئی وجود ہی نہیں، فرقہ واریت کے نام پر جو قتل و غارت گری اور مذہب کے پردے میں جو دہشت گردی ہورہی ہے،وہ در حقیقت ’بیرونی عناصر‘ کی کارستانی ہے۔ یہ ’بیرونی عناصر‘کون ہیں؟ ان کی شناخت بھی فرقہ ورانہ وابستگی کے تناظر ہی کی جاتی ہے۔ سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنےوالے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی فرقہ ورانہ قتل وغارت گری کے پس پشت ایران ہے جب کہ اہل تشیع کے نزدیک یہ سعودی عرب اور مشرق وسطی کی شاہی حکومتیں ہیں جو ایران دشمنی میں ہمارے ملک میں یہ سب کچھ کروارہی ہیں۔

اس اختلاف کے باوجود ایک بات پر وہ سب متفق ہیں کہ کوئی بھی ’حقیقی‘ مسلمان دہشت گردی کا مرتکب نہیں ہوسکتا لیکن جب انھیں فرقہ ورانہ وابستگی کی بنیاد پر قتل ہونے والے افراد اور ان وارداتوں میں ملوث افرادکی فرقہ ورانہ تنظیموں سے وابستگی کے بارے میں ثبوت فراہم کئے جائیں تو یہ کہہ کر وہ جان چھڑا لیتے ہیں کہ ان جرائم اور مظالم کا ارتکاب کرنے والے کچھ ’گمراہ‘ افراد ہیں اور وہ یہ سب کچھ’اپنے‘ طور پر کرتے ہیں اورجہاں تک تعلق ہے مذہبی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کا تو ان خونیں واقعات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ فرقہ ورانہ تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وہ کیا حل تجویز کرتی ہیں تو وہ اس کا نہایت آسان حل بتاتی ہیں۔ ان کے نزدیک اگر ’حقیقی‘ اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرا دیا جائے اور’اسلامی نظام‘ نافذ کردیا جائے تو نہ صرف فرقہ واریت کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا بلکہ مذہب کے نام پر ہو نے والی قتل وغارت بھی رک جائے گی۔ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ’حقیقی‘ اسلام سے ان کی کیا مراد ہے اور اس کے عملی نفاذ کی صورت کیا ہوگی تو وہ اس کا تسلی بخش جواب دینے کی بجائے آپ کو لعن طعن کریں گی اور پھر بھی آپ اپنے سوال پر زور دیں تو ان سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ آ پ کو دائر ہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیں۔

مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی اس مسئلے کے بارے میں جس کا براہ راست تعلق پاکستان کی بطور ریاست بقا سے ہے، سرے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ ان کے نزدیک یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اوراگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو بہتر اور مضبو ط بنا دیا جائے تو اس مسئلے سے بخوبی نبٹا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرقہ ورانہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ گول مول سے اخباری بیانات جاری کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتی ہیں۔ انھیں زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ ان کا ووٹ بنک محفوظ رہے، انسان مرتے ہیں تو مریں، اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اورمختلف النوع فکری اور نظریاتی حلقوں سے وابستہ دانشوروں کی طرف سے فرقہ واریت اورعدم برداشت سے نبٹنے کے لئے بہت سے نئے حل تجویز کئے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر ان کے تجویز کردہ حل آزمائے جائیں تو ملک سے فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔بیرونی اداروں کے مالی تعاون سے چلنے والی کچھ این جی اوز فرقہ واریت کا حل بین المذاہب مکالمے میں ڈھونڈتی ہیں۔ وہ اپنے اجلاسوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر معروف مذہبی رہنماؤں کو مدعو کرتی ہیں جو شرکا ء کو بتاتے ہیں کہ سبھی مذاہب اپنے پیروکاروں کو نفرت،دشمنی اور عدم برداشت کی بجائے پیار و محبت اور رواداری کا درس دیتے ہیں لیکن اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ اگر تمام مذاہب صلح و آشتی کے موید ہیں تو پھر مذہب کے نام پر اس قدر خون ریزی کیوں ہے؟۔

بین المذاہب مکالمے کے داعیوں کے یہ وعظ فائیو سٹار ہوٹلوں کے ہالز تک محدود رہتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد کے اشتراک سے امن مارچ منظم کرتی ہیں تاکہ عامتہ الناس پر باہمی فرقہ ورانہ امن،رواداری اور برداشت کی اہمیت واضح ہو سکے۔چند درجن افراد پر مشتمل یہ امن مارچ وسیع تر عوام کو قطعا متاثر نہیں کرتے۔ ایک بڑاگروہ جو خود کو لبرل کہلانا پسند کرتا ہے، کے نزدیک اس مسئلے کا حل’صوفی‘اسلام کے احیا میں ہے۔اس گروہ کے زیر اثر تنظیمیں اور ادارے پنجابی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے صوفی شعرا کے کلام کی گائیکی کی مجالس منعقد کرتے اور صوفیا کے افکار میں مذہبی آہنگی کا درس تلاش کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں اور ادارے قرون وسطی کے صوفیا کے افکار کو عوام میں مقبول بنانے کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان افکار کی مقبولیت سے مذہب کے نام پر جاری انتہا پسندی کے آگے بند باندھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کا دعوی ہے کہ اگر صوفی ازم جسے وہ’صوفی ِاسلام‘ کہتے ہیں،کا احیا ہوجائے تو ملک سے مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی و فرقہ ورانہ نفرت اور کشیدگی ختم نہیں تو کم ضرورہو سکتی ہے۔

صوفی ازم کا تعلق مذہب سے کم اور فلسفے سے زیادہ ہے۔صوفیا ہر مذہب اور عہد میں رہے ہیں اوریہ سمجھنا کہ صوفی ازم صرف اسلام ہی سے مخصوص ہے محض فکری مغالطہ ہے۔صوفی ازم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور سید علی عباس کے مطابق مذہب کی الہیات،اخلاقیات اور تصوف کی الہیات و اخلاقیات میں بعد المشرقین ہے۔تصوف ایک مستقل نظام فکر وعمل ہے جسے مذہب کا جز نہیں سمجھا جاسکتا۔ تصوف مذہب سے فلسفے سے زیادہ قریب تر ہے۔ جسے ہم اسلامی تصوف کہتے ہیں اس کی اشاعت اویسہ،خراسان اور گندیشا پور کے مدرسوں کے واسطے سے ہوئی جو مسیحیوں نے شام،ایران اور عراق میں قائم کر رکھے تھے۔فلا طینوس اور فرفوریوس کی کتابیں اور ان کی شرحیں شام زبان میں منتقل ہوچکی تھیں اور ان مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔مامون الرشید کے زمانے میں بیت الحکمت کے علما ء نے ان شرحوں کے ترجمے عربی میں کئے جن سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں ہلچل مچ گئی اور متکلمین نو اشراقی افکار کی مطابقت مذہب کے عقائد سے کرنے لگے۔

فیثا غور ثی اور نو اشراقی افکار کی اشاعت کے باعث مذہب اسلام سینکڑوں فرقوں میں منقسم ہوگیا اور نسخ ارواحِ، سریان،امتزاج،تجسیم ،حلول اوراوتار کے نو اشراقی،آریائی افکار اسلامی تعلیمات میں نفوذ کرگئے۔ مسلمانوں کے فلسفے اور علم کلام کی طرح تصوف بھی انہی افکار کی اشاعت سے صورت پذیر ہوا تھا۔آج ہم جن حضرات کو صوفی گرادنتے اور جن کے افکار کو قابل تقلید خیال کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق قرون وسطی ہی سے ہے۔ صوفی ازم جس سماجی ماحول میں پیداہو ا وہ ہمارے آج کے سماج اور اس کے تقاضوں سے قطعی مختلف تھا۔اُس عہد کا سماج اس قدر پیچید ہ نہیں تھا جس قدر تہہ در تہہ سماج ہمارے آج کے دور کا ہے۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں قومی ریاستیں صورت پذیر ہوئیں۔یہ ریاستیں ماضی کی ریاستوں سے ہر لحاظ سے مختلف اورمنفرد تھیں۔ ایک قومی ریاست میں ایک سے زائد مذاہب کے ماننے والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے شہری یکساں حقوق و فرائض سے رہ سکتے ہیں۔اب سیاسی،سماجی اورعمرانی اظہار کے نئے طریقے وجود میں آگئے ہیں اور عہد جدید کو صوفی ازم کی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ صوفیا کے حلقوں کی جگہ سیاسی جماعتوں نے لے لی ہے۔ اب ریاستی اقتدار سازشوں اور دعاؤں کے بجائے عام انسانوں کے ووٹوں کا مرہون منت ہوگیاہے۔آج اگر ہم مذہب کے نام پر نفرت،کشیدگی اورقتل و غارت گری ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے صوفی ازم کے احیا کی بجائے ایسے نظریات اور افکار سے رجوع کرنا ہوگا جو موجودہ عہد کی سماجی اور سیاسی صورت حال سے مطابقت رکھتے ہیں۔

آج بہت سے ممالک نے اپنے ہاں سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ ورانہ کشدگی کا خاتمہ کردیا ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن زندگی گذارہے ہیں اور یہ سب انھوں نے صوفی ازم کے احیا کی بجائے سیکولر ازم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ سیکولر ریاست میں تمام شہری بلا لحاظ مذہب مکمل مذہبی آزادی،مساوات اورباہمی احترام کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔اس سے ایک گروہ کے پیرو کاروں کو ریاست کے شہری دوسرے گروہوں کے ماننے والوں سے مختلف سماجی،فکری،تمدنی اثرات قبول کرنے کے مواقع ملتے ہیں جس سے معاشرے میں سماجی تنوع بڑھتا اور توانا ہوتا ہے۔

سیکولرازم ہی ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو تمام مذاہب کے پیرو کاروں کے مابین مساوی سلوک کا داعی ہے۔ سیکولر ریاست تمام شہریوں کے مفادات کی غیر جانب داری سے تحفظ کرتی ہے اور ریاست کی نظر میں تمام شہری بلا لحاظ لسانی،مذہبی یا ثقافتی امتیاز اور تفریق کے یکساں حقوق اور مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ شہری کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سیکولرریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر شہری مساوی انسانی اور سماجی حقوق کا حق دار ہوتا ہے۔ سیکولر ازم جس کا ہمارے ہاں مفہوم بد قسمتی سے لا مذہبیت خیال کیا جاتا ہے، ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے اور اپنے پسندیدہ مذہب کی روشنی میں اپنی نجی زندگی کو استوار کرے ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شہری کے مذہبی اختیار کے حق میں مداخلت کرئے۔ ایک سے زائد مذاہب کے پیرو کاروں کی حامل ریاست کی بقا اوراس کے شہریوں کے مابین مذہب آہنگی اور برداشت کا حصول صرف اسی صورت ہی میں ممکن ہے کہ ریاست کسی ایک مذہب کی کسٹوڈین بننے کی بجائے خود کوسیکولرازم کے اصولوں پر استوار کرے۔

پاکستان میں گو ایک مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ان کے مابین فرقہ ورانہ تناؤ اور مناقشت بہت زیادہ ہے۔ یہ فرقہ ورانہ تناؤ جو ایک وقت میں محض نظری ہوا کرتا تھا گذشتہ کچھ سالوں سے مسلح جھڑپوں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی دن کسی فرقہ کا کوئی ڈاکٹر،وکیل یا مذہبی رہنما کی ہلاکت نہ ہوتی ہو۔ فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کا خاتمہ کافیا ں گا کر یا صوفیا کی انسان دوستی کومثال بنا کر ختم نہیں کیا جاسکتا۔جب تک ریاست اور مذہب کو علیحدہ نہیں کیا جاتا اس وقت مذہبی کشیدگی اور فرقہ ورانہ تشدد ختم نہیں ہوسکتا۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ کس مذہب کو ماننا چاہتا ہے اور کس طریقے سے اپنی زندگی استوار کرنا چاہتا ہے ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

آج کا صوفی ازم سے مراد انسان دوستی اور مذہبی رواداری ہے تو ہمارے عہد کا صوفی ازم، سیکولر ازم ہے۔ سیکولر ازم ہی وہ نظام ریاست ہے جو ہمیں فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلا سکتا ہے۔ بصورت دیگر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *