ارشد نذیر
عقیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصطلاحی معنی ’’خدا، انبیاء، الہامی کتب، ملائکہ ، جزا و سزا اور حیات بعد ممات‘‘ جیسے نظریات پر یقین رکھنے کے ہیں۔ عقد، عقیدت اور فکری قید جیسے الفاظ بھی اسی اصطلاح کے قریبی مفاہیم میں شامل ہوتے ہیں۔ الحاد اِن عقائد سے انحراف کرنے ، ان کی نفی کرنے یا ان سے روگردانی کرنے کا نام ہے۔ دونوں اصطلاحات کا مآخذ عربی زبان ہی ہے۔
ہمارے ہاں عام خیال یہی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر میں عقیدے پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے ۔ یہ تصور مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔مسالک میں پائے جانے والے تمام تر اختلافات میں سے سب سے بڑا اختلاف ہی عقیدے پر موجود ہے۔ عرب اور عجم میں عقیدے اور شرک کے درمیان پائے جانے والا قدیم جھگڑا آج تک چلتا آرہا ہے۔
اہلِ عرب آج بھی بضد ہیں کہ عقیدے کے حوالے سے ان کا فہم اور ادراک حق و سچ ہے ۔ اپنی اسی حقانیت اور سچائی کی بنیاد پر وہ نہ صرف دیگر تمام مسالک کو کذب و فجور خیال کر تے ہیں بلکہ ایسے عقائد رکھنے والے افراد، قبائل اور اقوام کو قابلِ گردنِ زنی قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ جھگڑا ہے جو صدیوں سے شروع ہے اور آج تک لاینحل چلاآرہا ہے۔
اس سوال کا کہ اس کے بیج خود مذہب یا عقیدے کے اندر موجود ہیں یا مختلف تہذیبوں کی وجہ سے ان میں در آئے ہیں جواب علمِ تاریخ ، علمِ بشریات اور تحلیلِ نفسی کی روشنی میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازین اس تنازعے کو کس طرح اور کن کن مواقع پر سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سوال کا جواب بھی علمِ سیاسیات کی روشنی میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم آج یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران اور سعودی عرب جیسے دو ملکوں کے درمیان ان عقائد اور ان کی تشریح و توضیح پر واضح اختلاف موجود ہیں۔ان کو سیاسی طور پر استعمال کیا بھی جاتا رہا ہے اور آج تک کیا جا رہا ہے۔ تنازعات پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اثرات عام انسان کی زندگی پر مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن عقیدے اور اس کو سماج پر مسلط کئے جانے والے فیصلے صرف مذہبی اشرافیہ کا طبقہ کرتا رہتا ہے۔ ایسی تشریح کے لئے وہ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ عقیدے اور مذہب کو سمجھنے کے لئے عربی آنی ضروری ہے ۔ آپ کو حدیث و فقہ پر عبور ہونا چاہئے۔
لیکن اہلِ عرب جو دوسروں کو عجمی سمجھتے ہیں کسی کو یہ مقام دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اہلِ عرب آج بھی عربی زبان و ثقافت کی وجہ سے دوسروں کو جہل تصور کرتے ہیں۔ اُن کی زبان کی تعبیر و تشریح کوئی غیر عربی کرے یہ ان کے لئے قابلِ قبول ہی نہیں۔ یہ عرب اور غیر عرب کے درمیان پایا جانے والا تضاد ہے جو عقائد کی تشریح میں حائل رہتا ہے۔ پھر یہی تضاد ایران اور دیگر اسلامی ممالک کی مذہبی اشرافیہ اور ان کے عوام کے درمیان موجود ہے۔
ایران اور دیگر ممالک کی مذہبی اشرافیہ اپنے علاوہ عقیدے کی تشریح و توضیح کے اختیار کسی عام آدمی کو سونپنے کے لئے تیار نہیں ہیں بخلاف اس حقیقت کے کہ ان کا اطلاق انہیں عوام پر کیا جاتا ہے اور انہیں کی زندگیاں ہی ایسے نظریات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ طاقت اور اجارہ داری کا یہ کھیل بلاتخصیص تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں یہی لوگ عام لوگو ں پر کفر و الحاد کے فتوے لگاتے ہیں۔زیادہ طاقتور ان کی اس نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے فرقوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ اُن کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور طاقت اور اقتدار میں حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتے ہیں۔
اب ہم کچھ بات مغرب کی روشن خیالی ، عقلیت پسندی اور الحاد کے حوالے سے کر لیتے ہیں۔مغرب میں 16 ویں صدی کے احیاء العلوم کا نتیجہ ہے۔کچھ مورخین کا خیال ہے کہ یہ سائنسی انقلاب کے ساتھ 1620 ء میں شروع ہو گئی تھی جبکہ کچھ 1715 ء اور 1789ء جس میں فرانسیسی انقلاب رونما ہو سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم چرچ کی اتھارٹی اور تعقلیت اور بنیادی انسانی آزادیوں جیسی خصوصیات کو اس تحریک کا محرک ماننے پر تمام کا اتفاق ہے۔ اس تحریک میں مذہب کو ریاستی امور سے الگ کر دیا گیا اور اسکی حیثیت کو گھٹاتے ہوئے اسے انسان کے انفرادی فعل تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔
آیا خارجی عنصر یعنی صنعتی ترقی تعقلیت کی اس تحریک کا باعث بنی یا محض تعقلیت ہی نے صنعتی ترقی کو جنم دیا اور پھر صنعتی ترقی کے جبر سے ہی تعقلیت کی یہ تحریک پھوٹ پڑی یا دونوں عناصر ہی ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم رہے اور مغربی سماج موجودہ دور کی ترقی کی منزل پر پہنچا۔ اس پر مثالیت پسند ، جدیدیت پسند ، مابعد جدیدیت پسند اور مارکسی مفکرین کی آرا مختلف ہیں۔
سب تاریخ کو اپنے اپنے نقطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سب نے اس بات کو تسلیم کیا کہ چرچ اور عیسائیت کے کردار کومحدود کرنے کے معروضی حالات بھی پیدا ہو چکے تھے اور چرچ سماج کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ یہی معروضی حالات تھے جنہوں نے تعقلیت پسندی کو رواج دیا۔
تعقلیت پسندی اور الحاد اصل میں ہیں کیا۔ تعقلیت پسندی دراصل وجدانیت اور الوہیت اور الہامیت کے متضاد ذہن کی فکری کوشش ہے ۔ انسان کا یہ فکری اور ذہنی عمل بعض اوقات مروجہ روایات کو قبول کر لیتا ہے اور بعض اوقات اس کے متضاد نتائج پیدا کرتا ہے۔ انسان کا یہ فکری عمل تمام سائنسی اور سماجی علوم پر حاوی رہتا ہے۔ سماج میں خود ’’تعقلیت ‘‘سے زیادہ’’ تعقلیت پسندی‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ سماج اپنے افراد کو کس قدر آزادیِ فکر کی اجازت دے رہا ہے ۔ افراد کی فکری آزادی کے اس عمل کو کس طرح سماج کے ہر شعبے میں گنجائش فراہم کی جا رہی ہے۔ جس سماج میں ایسی فکری آزادی موجود ہوتی ہے ۔اُس میں مذہب، عقیدہ ، ریاست، سیاست ، معیشت اور سائنس پر ہر طرح کی فکر کے جنم لینے کے امکان ہوتے ہیں لیکن اگر سماج میں تعقلیت پسند کا رواج ہی نہیں ہوا ، تو ایسے فکری امکانات کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔
مغربی سماج میں تفکریت اور تعقلیت کے چند اصول بھی متعین کر لئے گئے ہیں جن پر کم و بیش تمام علوم کے ماہرین جو ان علوم میں تحقیق کرتے ہیں پر اتفاق کرتے ہیں۔ یہ اصول الہامی یا وجدانی نہیں ہیں۔ ان اصولوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کائنات میں کوئی ابدی سچائی موجود نہیں ہے۔ یہ کائنات اور انسانی سماج بے شمار تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرا ہے ۔ تغیر و تبدل کا یہ عمل جاری و ساری ہے ۔ جو بھی انسانی سماج کے ان علوم پر اپنا محاکمہ کرے گا اُسے تعقلیت کے ان زریں اصولوں کو اپنانا ہو گا۔
اگر وہ محض الوہیت، وجدانیت ، روحانیت اور ماورائی کی آڑ میں ان علوم پر محاکمہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ سماج کے ارتقا ء اور ترقی کے اس عمل میں بے جا مداخلت کرے گا۔ وہ تعقلیت پسندی کا دشمن تصور ہو گا۔مغربی انسان کی تعلیم و ترقی اور ارتقاء میں یہ عمل فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسی عمل کی روشنی میں ہی تعقلیت پسندی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔تعقلیت پسندی کے اس عمل میں خدا پر ایمان و ایقاد کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہر شخص انفرادی طور پر خدا کے بارے میں کوئی بھی نظریہ رکھ سکتا ہے لیکن ڈارون پر تحقیق کے لئے اسے انسان کے ارتقاء پر یقین رکھنا پڑے گا۔ اگر وہ خدا پر ایمان رکھتا بھی ہے یا نہیں بھی رکھتا ، تو بھی اس کی اس تحقیق پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
اس طرح انیسویں صدی کے آخری عشروں میں مینڈل کا نظریہ وراثت، فیچر کا اصول بقائے توانائی اور خوردبین، ٹیسٹ ٹیوب، خون پیما اور علم الجراثیم وغیرہ جیسے نظریات سامنے آئے ۔ ان نظریات کو نہ صرف قبول کیا جانے لگا بلکہ تمام سماجی اور فطری سائنسز کی بنیاد بنا کر تحقیقات کے نئے زاوئے اور انداز اپنائے جانے لگے۔ لبرل ازم ، روشن خیالی یا آزاد فکری جیسی تحریکیں فرانس اور برطانیہ میں اپنے اثرات ذرا جلدی دیکھا گئیں ۔
اس کے برعکس وسطی یورپ نے اس کے اثرات کو تھوڑی دیر سے قبول کیا۔ اسی وجہ سے مذہب سے متصادم نظریات رکھنے والے سائنسدانوں کو مذہبی دقیانوسی سماج کے عدم برداشت جیسے رویوں کا کرب برداشت کرنا پڑا۔ مذہبی تعصب بالخصوص یہودیت کے خلاف تعصب جیسے رویوں کا سامنے یورپ کے اکثر یہودی سائنسدانوں کو کرنا پڑا۔ انہوں نے تعصبات کا سامنا کیا ۔ تاہم ’’تعقلیت پسندی‘‘ اور سائنسی بنیادوں پر علم کو استوار کرنے کے ان کے حوصلے نے سماج کی اس تنگ نظری ، عدم رواداری اور عدم برداشت جیسے رویوں کا مقابلہ کیا ۔
بالآخر ’’تعقلیت‘‘ اور اس کی بنیاد پر قائم کئے گئے نظریات ہی کو سماج میں جگہ ملنا شروع ہو گئی۔ مغرب اور یورپ کے انسان نے مادی علوم ، ان کی تحقیق اور ان کے سماج پر اطلاق جیسے شعبوں کو عقیدے ، مذہب اور مسلک سے الگ کر دیا۔ انہیں اصولوں کی روشنی میں کانٹ، شوپنہار، نطشے اور ہیگل نے انسان اور خدا کے تصورات کو الگ الگ کرکے پیش کیا۔ اس طرح ایک نئے انسان کا تصور جو کہ قدیم انسانی تصور سے بالکل مختلف تھا تراشا جانے لگا۔
مغربی لبرل ازم ، روشن خیالی اور تعقلیت نے اپنا منطقی سفر مسلسل جاری رکھا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے اور بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں انہیں سگمنڈ فرائیڈ کی شکل میں ایک ایسا ماہرِ نفسیات مل گیا جس نے انسان کے ذہن کا مطالعہ نئے انداز سے کیا۔ اس نے انسانی شعور ، قبل شعور ، تحت الشعور اور مابعد الشعور جیسے پہلوؤں کو دریافت کرکے خود انسان اور اسکی تہذیب و ثقافت پر سائنسی اندازسے مطالعے و مشاہدے کا آغاز کیا۔
ایک طرف فرائیڈ نے انسان کے بارے میں تمام تر روایتی واہموں کو توڑا ، دوسری طرف بچے کے ماں اور باپ کے بارے میں پائے جانے والے روایتی تصورات کو بھی جنس کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا۔ اُس کے تحلیلِ نفسی کے اس علم نے انسان کے روایتی وقار اور مقام کو زمین بوس کر دیا۔ اُس نے خدا کے تصور کو بھی انسانی خوف کی پیداوار قرار دیا۔اُس کی ان تحقیقات کی بنا پر اُسے جدید نفسیات کا بانی ٹھہرا یا گیا۔
ڈارون کے نظریئے کے بعد سماجی بیالوجی جیسا موضوع بھی زیرِ بحث آیا۔ اس موضوع نے رویوں کی موروثیت اور نئے رویوں کے اپنانے جانے کے امکانات پر بحث کی ۔ لہٰذا اب انسان کے بیشتر قدیم اور روایتی واہمے اور توہمات اپنی موت آپ مرنے لگے ۔ مغرب کی یہ روشن خیالی اور تعقلیت پسندی سماج میں رواج پاگئی۔کچھ استثنیات کے باوجود آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کا معاشرہ بحیثیتِ مجموعی تعقلیت پسند ہے اور اس کا علوم کے ساتھ رویہ سائنسی خطوط پر کی جانے والی تحقیقات کے ساتھ منطبق اور منسلک ہے ۔ اُن کے ہاں سماج کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی خواہش بھی موجود ہے جو کلیتاً ان کی اس تعقلیت پسندی کا نتیجہ ہے۔
اب ذرا عقیدہ جس کی تعریف میں نے اوپر بیان کی ہے کا دوبارہ جائزہ لے لیتے ہیں۔ میرے خیال میں ’’عقیدہ‘‘ کا لفظ اسلامی دنیا میں اپنی تمام تر تنوع کے باوجود جن محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے مغرب کی لبرل ازم ، روشن خیالی یا تعقلیت پسندی نے نہ صرف اس طرح کے عقیدے کو چیلنج نہیں کیا بلکہ اس نے ہر طرح کی تنگ نظری ، محدود یت ، ودیعتی اور الہامی نظریات کو چیلنج بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے قدیم زمانے کے اُن توہمات جن کو موجودہ مذاہب بھی قابلِ تقلید تصور نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ سماج میں مروج ہیں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
مغرب میں اس طرح کے تمام اعتقادات رکھنے والوں کو بی لیورکہا جاتا ہے۔ اُن کے یہ اعتقادات کہلاتے ہیں۔بی لیور کا متضاد نان بی لیورہے۔ لہٰذا مغرب میں نان بی لیور کی اصطلاح کہیں زیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور اس کے نان بی لیور کے لفظ کے پیچھے تعقلیت کا عنصر موجود ہے۔ مشرق میں الحاد یا شرک کا لفظ صرف بیان کردہ عقیدے کی کسی نہ کسی شکل میں نفی سے منسلک ہے۔ یہ لفظ سماجی اور علمی سطح کے غلط تصورات اور توہمات سے کوئی زیادہ سروکار ہی نہیں رکھتا۔مشرق کے انسان کا علمی اور سماجی رویہ کتنا ہی دقیانوسیت پر مبنی کیوں نہ ہو، لیکن اگر وہ بنیاد عقیدے پر صرف یقین رکھنے کا دعویدار ہو تو وہ ملحد نہیں کہلائے گا۔
ہمارے ہاں عربی زبان سے مشتق ’’الحاد‘‘ کا یہ لفظ اس طرح اپنے مخصوص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کسی صورت بھی مغرب کی اصطلاح نان بی لیور کے مترادف نہیں ہے۔ مسلمان فلسفی جنہوں نے سائنس اور دیگر علوم پر کام کیا ، بھی تعقلیت پسند رہے ہیں ۔ اُن کی تعقلیت ، تعقلیت پسندی اور اہلِ مغرب کی تعقلیت پسندی میں کتنا فرق ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر علیحدہ سے بحث کا آغاز کیا جا سکتا ہے ۔تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ مسلمان فلسفیوں کی تعقلیت نے بھی اُس وقت کے مروجہ عقائد اور مسالک کو اُسی انداز میں قبول نہیں کیا بلکہ ان کو چیلنج کیا ہے۔
اب ہم تعقلیت پسندوں اور الحاد کے درمیان پائی جانے والی چند غلط فہمیوں کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ لازمی نہیں ہے کہ ہر ملحد تعقلیت پسند ہو، تاہم یہاں یہ لازم ٹھہرتا ہے کہ ہر تعقلیت پسند خدا اور عقائد پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مروجہ تصورِ خدا اور مروجہ عقائد سے کسی نہ کسی طرح سے باغی ضرور ہو گا۔
اس طرح کی تعقلیت پسندی خواہ وہ کسی بھی معاشرے میں پائی جائے پر موجودہ دور کے مغربی مروجہ سائنسی علوم کی چھاپ بھی ضرور ہو گی۔ نیز ایسے افراد اپنی فکری اور سائنسی بالیدگی ، پختگی اور مہارت کے لئے لازماًمغرب ہی کے علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔ ایسے شخص کی اس طرح کی روایت شکنی اور بغاوت کو محض مغربیت پسندی یا فیشن ایبل تعقلیت پسندی کا نام دیامناسب نہیں ہے ۔ اگر تعقلیت اور الحاد کے درمیان بلا سوچے سمجھے کوئی رشتہ قائم کر دیا جائے اور تعقلیت کو بطور فیش استعمال کیا جائے تو یہ انتہائی مضرت رساں روش ہو گی۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے رویے پائے جاتے ہیں ۔ اُن کی تعقلیت پسندی کی نفسیاتی، سیاسی اور انفرادی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعقلیت صرف اپنے مفادات تک محدود ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ اندر سے انتہائی موقع پرست ہوتے ہیں۔ وہ ’’تعقلیت پسندی‘‘ کی آڑ میں تعقلیت کے دشمن ہوتے ہیں اور سماج میں خود غرضی اور موقع پرستی کو رواج دینے کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ رویے تمام شعبہ ہائے زندگی میں پائے جاتے ہیں۔
اب ذرا فرض کر لیجئے کہ ہمارے ملک میں بیالوجی کے ایک پروفیسر بیالوجی پڑھانے سے قبل ڈارون کے نظریئے کو قرآن کی روشنی سے غلط ثابت کرنا شروع کر دیں اور خود کو اس بنا پر روشن خیال اور لبرل بھی کہلوائیں کہ وہ قرآن کی حقانیت سے سائنس کو غلط ثابت کر گئے ہیں ، ظاہر ہے یہ ’’تعقلیت‘‘ ہے اور نہ ہی تعقلیت پسندی ۔ اسی طرح فزکس کے پروفیسر جنات کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کی تیکنیکس سمجھنا شروع کر دیں،۔
ہمارے تاریخ دان یہ بتانا شروع کر دیں کہ 1965 ء کی بھارت کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں کچھ سبز پگڑی والے فرشتے انسانوں کے روپ میں ہماری فوج کی مدد کے لئے آسمان سے اترے تھے، تو ان کے یہ افعال کسی طرح سے بھی تعقلیت پسندی کے زمرے میں نہیں آتے ۔ ہمارے ہاں کچھ تعقلیت پسند ’’ تعقلیت ‘‘ کی خود ساختہ حد بندی بھی کر لیتے ہیں ۔ وہ سیاست میں جمہوریت اور اسلامی نظام کو بھی خلط ملط کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ داری نظام میں اسلامی معاشی نظام کا تڑکہ لگا لیتے ہیں اور اس طرح خود کو جدید زمانے کے ہم نوا کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے تعقلت پسند بہت نقصان دہ ہیں۔
علمِ فلسفہ نے ہمیشہ چند ایک بنیادی سوالات اُٹھائے ہیں ۔ کائنات اور انسان کی حیثیت کیا ہے۔؟کیا یہ کائنات مادی ہے یا خیالی ؟ یہ مادہ متحرک ہے یا ساکن؟ انسان اور کائنات کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا کوئی ابدی سچائیاں ہیں ؟ اس کائنات کا خالق کون ہے؟ کیا وہ کوئی باشعور ہستی ہے یا اُس نے اس کو تخلیق کرکے اور اس میں بنیادی فطری قوانین طے کرکے اسے آزاد چھوڑ دیا ہے ؟اگر خالق کوئی باشعور ہستی ہے تو اُس کی تجسیم اور محدودیت کی ماہیت کیا ہوگی؟ اُس کا انصاف کیا ہے ۔ جزا اور سزا کا عمل کیا ہے ؟
علمِ فلسفہ میں ان تمام سوالات پر استدال کرنا تفلسفیت کہلاتا ہے ۔ تفلسف کرنا تعقلیت کی ہی ایک صفت ہے ۔ یہاں بھی مغربی فلسفی اور مذہبی فلاسفروں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ مثلاً مغربی فلسفی خالق یا خدا کے ہستی کے بارے میں جاننے کے لئے یہ سوال کرتا ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو کیا وہ کوئی ایسا پتھر تخلیق کر سکتا ہے جس کو وہ خود بھی نہ اُٹھا سکے۔ جب بات یہاں پہنچتی ہے ، تو ہمارے ہاں کے تعقلیت پسند بھی فلسفیوں کے بارے میں ایک لطیفہ سنا کر اُن کا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔
لطیفہ کچھ یوں ہے کہ اندھے فلسفی ایک بند اور تاریک کمرے میں کالی بلی تلاش کر رہے ہیں جو کمرے میں موجود بھی نہیں ہے۔ اب ہمارے ہاں پائی جانے والی تعقلیت پسندی کا جائزہ آپ خود ہی لیتے رہیں۔
One Comment