نئے صوبوں اور ریاستوں سے خوفزدہ لوگ

بیرسٹر حمید باشانی

انتظامی اکائیوں کے طور پر صوبوں کا تصور قدیم تہذیبوں کا تصور ہے۔ رومی سلطنت، سلطنت فارس، اور یہاں تک کہ ابتدائی چینی خاندانوں نے وسیع علاقوں کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کے لیے صوبائی نظام کا استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، اس گورننس ماڈل کو بہتر کیا گیا، اور آج بھی بہت سے ممالک انتظامیہ کی بنیادی اکائیوں کے طور پر صوبوں، ریاستوں یا خطوں پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، تیزی سے عالمگیریت، ڈیجیٹل گورننس، اور سماجی و سیاسی حرکیات کی تبدیلی کے دور میں، یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیایہ روایتی صوبائی ماڈل گورننس کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے؟ یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گورننس کے نئے ماڈل اور طریقے متعارف ہو چکے ہیں اور گورننس کے طریقوں میں اس ارتقائی عمل کو پاکستان جیسے ممالک میں بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے ؟

تاریخی طور پر، صوبے بڑی سلطنتوں اور قوموں پر حکومت کرنے کے لاجسٹک چیلنج کے جواب کے طور پر ابھرے۔ صوبوں کا بنیادی کام اختیارات کو غیر مرکزی بنانا تھا، جو مرکزی کنٹرول کو برقرار رکھتے ہوئے مقامی انتظامیہ کی اجازت دیتا تھا۔ مثال کے طور پر، قدیم روم میں، صوبے دور دراز علاقوں کے انتظام، ٹیکس جمع کرنے، اور امن و امان کو یقینی بنانے میں اہم تھے۔ اسی طرح، جنوبی ایشیاء میں مغل سلطنت نے اپنے تسلط کو صوبوں میں تقسیم کیا جسے صوبہکہا جاتا ہے، ہر ایک پر شہنشاہ کی کمان کے تحت ایک مقامی منتظم کی حکومت تھی۔

نوآبادیاتی ادوار کے دوران، برطانیہ، فرانس اور اسپین سمیت یورپی طاقتوں نے اپنی کالونیوں کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لیے صوبوں کا استعمال کیا۔ غیر آبادکاری کے بعد بھی، بہت سی نئی آزاد قوموں نے استحکام برقرار رکھنے کے لیے صوبائی ڈھانچے کو برقرار رکھا۔ آج، صوبے اسی طرح کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ صوبےمقامی گورننس کو فعال کرتے ہیں، انتظامیہ کو ہموار کرتے ہوئے، اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قومی پالیسیوں کو نچلی سطح پر مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

آج بھی متعدد ممالک صوبائی یا ریاست پر مبنی گورننس ماڈل کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا، پاکستان، بھارت، چین، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سبھی حکمرانی کے لیے صوبوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان سب ممالک میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب برطانوی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہی ہیں۔ ان میں تبدیلی کا عمل بہت ہی سست رفتار رہا ہے۔ ان ممالک میں تبدیلی کے متعلق ایک انجانا خوف پایا جاتا ہے اور یہ خیال عام ہے کہ تبدیلی کا عمل انتظامی معمالات کو بگاڑ سکتا ہے ۔ریاستہائے متحدہ، جرمنی، اور برازیل جیسی وفاقی ریاستوں میں، صوبوں یا ریاستوں کو اہم خود مختاری حاصل ہے، جو اکثر تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے پر قانون سازی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، فرانس اور جاپان جیسی وحدانی ریاستیں مضبوط مرکزی اتھارٹی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ صوبے خود مختار اداروں کے بجائے انتظامی توسیع کے طور پر کام کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ صوبو ں پر مبنی انتظامی ڈھانچے کئی فوائد پیش کرتے ہیں، بشمول مقامی فیصلہ سازی اور مرکزی حکومتوں پر بیوروکریٹک بوجھ میں کمی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ چیلنجز بھی پیش کرتے ہیں۔ جیسے کہ صوبائی خودمختاری پر سیاسی تنازعات، حکمرانی کے ڈھانچے کی نقل، اور وسائل کی تقسیم میں نااہلی عام مسائل ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک میں، صوبائی حکومتیں بدعنوانی اور بدانتظامی کا مرکز بن جاتی ہیں، جس سے قومی حکمرانی مزید کمزور ہوتی ہے۔روایتی صوبائی ماڈل، اگرچہ بہت سے طریقوں سے موثر ہے،لیکن اسےعصری حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ دنیا نے ٹیکنالوجی، کمیونیکیشن، اور گورننس کے طریقہ کار میں نمایاں ترقی دیکھی ہے جو بعض صوبائی کاموں کے طریقہ کار کو بدل سکتا ہے یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔

بہتر ڈیجیٹل گورننس کے اس دور میں ڈیجیٹل انتظامیہ میں ترقی کے ساتھ، بہت سے بیوروکریٹک کام جو روایتی طور پر صوبوں کے ذریعے سنبھالے جاتے ہیں، آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ طریقہ اخراجات کو کم کر سکتا ہے اور کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔

 اس سے لچکدار انتظامی حدود قائم ہو سکتی ہیں۔ صدیوں پرانی صوبائی سرحدوں پر سختی سے عمل کرنے کے بجائے، متحرک، ضروریات پر مبنی انتظامی تقسیم پر غور کرنا چاہیے جو معاشی اور آبادیاتی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔ گورننس کے نئے ماڈل اپنانے سےاحتساب اور کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بدعنوانی کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتوں کی شفافیت کے اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں۔ کارکردگی پر مبنی گورننس ماڈلز کو نافذ کرنے سے کارکردگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔علاقائی تعاون کے ماڈل اپنا کر چھوٹے انتظامی ڈویژن والے ممالک بین الصوبائی اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے علاقائی تعاون کے فریم ورک تلاش کر سکتے ہیں۔

بہت سے ممالک اب بھی حکومت کرنے کے لیے صوبوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اندازوں کے مطابق، دنیا کی تقریباً 70 فیصد قوموں میں صوبائی یا ریاستی سطح پر انتظامیہ کی کوئی نہ کوئی شکل ہے۔ تاہم، سب ایک ہی طرز حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ وفاقی ریاستیں جیسے ریاستہائے متحدہ، کینیڈا، اور ہندوستان اپنے صوبوں اور ریاستوں کو اہم اور بنیادی خود مختاری دیتے ہیں، جب کہ برطانیہ اور چین جیسے ممالک سخت مرکزی کنٹرول برقرار رکھتے ہیں۔

ان مختلف ماڈلز سے اہم سبق یہ ہے کہ ایک سائز سب کے لیے موزوں نہیں ہوتا ہے ۔ہر ملک کو اپنے صوبائی طرز حکمرانی کے ڈھانچے کو اپنے منفرد سماجی و سیاسی منظر نامے کے مطابق بنانا چاہیے۔ پاکستان کا اپنا ایک منفرد سیاسی و سماجی ،نظر نامہ ہے ، جو نئے صوبے یا ریاستیں تشکیل دینے کا متقاضی ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کا تصور آبادی کے کسی ایک سیکشن کی طرف سے نہیں آ رہا ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ سماج کی تمام پرتوں اور طبقات کا مطالبہ ہے۔ صوبوں کا انتظامی ڈھانچہ ماضی میں بھی بدلتا رہا ہے ، اور مستقبل میں بھی اس میں تبدیلی کے امکانات ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ فیصلہ سازی میں سست رفتاری ہے۔ حکمران اشرافیہ ایسے فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے ان فیصلوں کی اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔

اگرچہ یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ صوبوں نے تاریخی طور پر حکمرانی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قومیں اپنے انتظامی ڈھانچے پر نظر ثانی کریں۔ تیز رفتار تکنیکی ترقی، اقتصادی باہمی ربط، اور ابھرتے ہوئے سیاسی منظرناموں سے متعین دور میں، پرانے صوبائی ماڈلز پر قائم رہنا ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ حکومتوں کو ایسے انتظامی ڈھانچے تشکیل دینا چاہیے جس میں صوبائی انتظامیہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے ترقی کے لیے ایک قوت بنے،ایسے لچک دار ڈھانچے جن میں، ڈیجیٹل گورننس اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہوں تاکہ حکومت فرسودہ نظاموں کے تحفظ کے بجائے ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار کرے۔۔

آخر کار، مقصد ایک ایسا گورننس کا ڈھانچہ بنانا ہونا چاہیے جو 21ویں صدی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو، شمولیت، شفافیت اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے۔ پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی تناظر میں نئے صوبوں اور ریاستوں کا قیام ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس عمل سے اقتدار اور اختیار عوام کو منتقل ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، جو دھرتی کے اصل وارث ہیں۔ جو اپنی دھرتی پر موجود وسائل کے مالک ہیں۔ جس دھرتی پر وہ آباد ہیں اس کے وسائل اور اختیار تک اگر ان کی پہنچ نہیں ہے تو پھر جمہوریت اور ووٹ کا سلسلہ عمل ایک بے کار کی مشق بن جاتی ہے۔

نئے صوبوں اور ریاستوں کی تشکیل کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ طاقت ور اشرافیہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پس ضرورت سے زیادہ اختیارات اور طاقت ہے۔ اس طاقت کا غلط استعمال کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ اور اسی طاقت اور اختیار کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے یہ لوگ ہر تبدیلی کے خلاف کمر بستہ رہتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *