مسلم توا بمقابلہ ہندوتو

پاکستانی ریاست کے خمیر میں، ہندو دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، نصاب ہویا میڈیا یہی ذہنوں میں ڈالا گیا کہ ہندو ایک مکار و دھوکہ باز قوم ہے ۔ یہود ہنود کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔چند ہفتے پہلے یہی کچھ حافظ صاحب نے قوم کے سامنے بیان کیا۔ پاکستانی ریاست کو بھارت کے کسی بھی وزیر اعظم سے کبھی کوئی ہمدردی نہیں رہی سب ہی مکار نظر آئے ہیں چاہے وہ نہرو ہو یا اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی ، من موہن سنگھ اور اب نریندر مودی۔

پاکستانی ریاست کا خاص نشانہ اب نریندر مودی ہے جسے ہمیشہ کی طرح ایک ولن کی طرح مسلم دشمن کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ مودی اپنے ہاں اقلیتوں سے کیسا سلوک کرتا ہے اس کی مذمت کرنے سے پہلے پاکستانیوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہمارا مسلم توا کیا کررہا ہے کس طرح ہندو لڑکیوں کے اغوااور جبری مسلمان کرنے میں مصروف ہے۔ کسی طرح مسیحیوں کی آبادیاں جلا دی جاتی ہیں۔ کس طرح احمدیوں کو گھیر کر قتل کیاجاتا ہے۔

ریاست نے مذہب کے نام پر لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا پھر جہاد کے نام پر لاکھوں پختونوں کا خون بہایا، کشمیر میں جہاد کے نام پر ہزاروں مسلمانوں و ہندووں کو مروایا۔ بلوچ عوام کے جبری اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں پر قوم خاموش رہتی ہے لیکن مذمت ہم نے ہندوتوا کی کرنی ہے۔

ہندوستان دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے اس کا مقابلہ پاکستان کی کٹھ پتلی جمہوریت سے نہیں ہوسکتا۔ ہندوتوا کے فروغ میں پاکستانی ریاست کا اہم کردار ہے جس نے مسلسل بھارت میں دہشت گردی کی وارداتوں سے اس کی پرورش کی۔ پچھلے 77 سالوں سے ریاست کا کاروبار دہشت گردی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ذریعہ روزگار نہیں۔

پاکستانی فوجیوں کو پچھلے کئی سالوں سے طالبان قتل کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوتا ہے۔کبھی کسی سپہ سالار کی غیرت نہیں جاگتی۔ لیکن جعفر ایکسپریس پر حملے سے غیرت جاگی اورپہلگام میں معصوم افراد کے گلے کاٹ دیے۔ اور پھر جواب ملا توستمبر65کی سٹوری کو جھاڑ پونچھ کر وہی بیانیہ نریندری مودی پر فٹ کردیا ہے۔

پاکستان کی بقا بھارت سے دوستی اور دو طرفہ تجارت میں ہے۔ وہاں کا حکمران کیسا ہے یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔ وہاں کے حکمران سے وہیں کے عوام نبٹ لیں گے ۔نریندر مودی جیسا بھی برا بھلا رہنما ہے اسے وہاں کے عوام نے منتخب کیا ہے ۔ جب عوام نہیں چاہیں گے اسے اقتدار سے باہر نکال دیں گے۔

لیکن چونکہ ہم نے نفرت کا کاروبارکرنا ہے اس لیے ہمارے انتہائی سمجھدار لکھاری بھی اپنی تحریر میں تواز ن قائم رکھنے کے نام پر مسلم توا کی تکلفاً مذمت کرکے چار گالیاں ہندو توا کو ضرور دیں گے۔ اور یہی ہماری ریاست کی حکمت عملی ہے۔

شعیب عادل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *