ناصر شبیر
بلدیاتی انتخابات کے الیکشن نے دیگر شہروں کی طرح ،زندہ دلانِ لاہور یوں، لائل پور کے باسیوں ،روشنی کے شہرکے ترسے کراچی بھائیوں کے سینوں میں خوشی اور سرشاری کی بجلیاں بھر دیں ہیں۔ چنانچہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں فتح کے نشے میں خوب دھوم دھڑکا ہوا، ہوائی فائرنگ ، نعرہ بازی اور آتش بازی نے ماحول میں جوش بھر دیا۔ گالی گلوچ اور طعنہ زنی کرتے ہوئے جیالے اور متوالے خوب باہم دست و گریبان ہوئے ۔
پھر چشم افلاک نے دیکھا کہ راستے بلاک ہوئے ، شہری ہلاک ہوئے ۔کیا ہوا ؟انسانی جانیں ہی تو گئیں ہیں لیکن جمہوریت کا حُسن تو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اپنے جلوے دکھا رہاہے ۔کوئی جنرل ہمیں لاکھ سمجھائے کہ ووٹ اور کھوٹ میں کیا فرق ہوتا ہے ؟کوئی فرق نہیں پڑتا۔تنگ گلی کے چوڑے تھڑے پر بیٹھے پرانے مسلم لیگی بزرگ ہمیں بتا رہے تھے کہ ہندوستانی بادشاہ “شیر شاہ سوری “بھی مسلم لیگی تھا دیکھو کتنا سیانا تھا کہ نام کے پیچھے ہی اپنا نتخابی نشان لگا رکھا تھا بالکل جیسے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ ن کی اعلیٰ اور زیر قیادت نے فیصل آبادمیں رانا ثناء اللہ کے آگے پیچھے شیر لگا رکھا تھا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار ، کرپشن ، اقربا پروری ، منافقت کے باوجود پاکستان کے عوام انہی کے گُن گاتے ہیں انہی کا دم بھرتے ہوئے شہروں، قصبوں ، گلی اور محلوں میں آپس میں باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔اصل میں ہمارے اس خطے میں صدیوں کی غلامی در غلامی نے رعایا کی سوچوں کو ایک خاص دائرے سے باہر آنے نہیں دیااور نیم جہادی تاریخ دانوں نے حکمرانوں کے بارے میں رعایا کے دلوں میں عجیب قسم کی افسانوی باتیں بٹھا دی ہیں ۔
چنانچہ ذکر ہے کہ مغلیہ عہد کا آخری با اختیار شہنشاہ اورنگزیب عالمگیراپنے ہاتھوں سے ٹوپیاں سی کر اور قرآن پاک کی کتابت کر کے گذر اوقات کیا کرتا تھا۔حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ رزق حلال کمانے والے یہ ہاتھ اقتدار کی خاطر اپنے بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔کسی نے کوئی اچھی بات کہہ دی تو اس کو قومی خزانے سے سونے چاندی کی ڈھیروں اشرفیا ں تھما دیں۔ پیاس سے نڈھال راہ چلتے بادشاہ نے پانی مانگا تو غریب گھر کی ذہین بیٹی نے پانی کے پیالے میں چند تنکے ڈال دیئے تاکہ بادشاہ سلامت پانی آرام سے ٹھہر ٹھہر کے پی سکیں۔
پھر کیا تھا اگلے پچاس گاؤں تک بات پھیل گئی کہ عظیم خداد داد مملکت کے نیک اور رحمدل بادشاہ نے غریب لیکن سلیقہ شعار لڑکی کا رشتہ اپنے ہونہار ولی عہد سے جوڑ دیا ۔اُسی سوچ اور جذبات کا تسلسل ہے کہ آج بھی اس خطے کے لوگ ان باتوں کو حکمرانوں کی مجموعی سو چ سمجھ کران کو دیوتاؤں کی طرح پوجنے لگتے ہیں۔
جیسا کہ کسی زمانے میں گرمی سے ستائی ہوئی رعایا کا خیال کرتے ہوئے مینار پاکستان کے سائے میں خادم اعلی ٰ ترین متعلقہ اداروں کے خلاف فوری کاروائی کے خیمے لگا یا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے حبس زدہ ماحول میں پسینے سے شرابور مغلیہ حکمران کو دیکھ کررعایا بے قرار ہو کر لوڈشیڈنگ کو وقتی طور پر بھلا دیتی حتیٰ کہ خادم اعلیٰ ترین کا اپنا سنہری عہد شروع ہوگیا لیکن دکھوں کی ماری عوام کی اپنی مت ماری گئی اور حسب روایت بھول گئی کہ موصوف نے تو 3ماہ میں بجلی کا بحران ختم کرنے کا حلف یہیں کہیں سے اُٹھا یا تھا۔
الیکشن کے دنوں میں بڑے جوش و خروش سے دھمالیں ڈالتے ہوئے بجلی کے اسی کھمبے کی الجھی تاروں کے ساتھ سیاسی رہنماؤں کے تعارفی بینرز باندھے جاتے ہیں۔جہاں گذشتہ کئی روز سے خراب ٹرانسفارمر متعلقہ اداروں کی آمد کا منتظر ہوتا ہے۔بوسیدہ ،میلاکچیلا لباس پہنے ، صمد بانڈ کے نشے کا عادی نوجوان اُسی سیاسی رہنما کے حق میں بینر لگا تا ہے جس کی وجہ و ہ اس حالت میں پہنچا ہے ۔پھربینر باندھتے ہوئے اچانک کرنٹ لگنے سے جل کر خاکستر ہو جاتا ہے ۔
انہی دنوں میں نزدیکی محلے میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے خادم اعلی ٰ ترین فوری طورپر اس متاثرہ گھر پہنچتے ہیں۔اس دوران صمد بانڈ کے عادی نشہ باز کی بوڑھی ماں بھی تنگ گلیوں سے گذرتی ،بے حد خفیہ حساس اداروں کے توانا جوانوں کی جھڑکیا ں سُنتی بلاآخر وزیر اعلیٰ ترین کے قریب پہنچ ہی جاتی ہے اور جھریوں زدہ نحیف ہاتھ جوڑ کر انصاف اور امداد کی طلبگار ہوتی ہے ۔
لیکن بے چاری نہیں جانتی کہ جب تک گھر میں اجتماعی زیادتی کا واقعہ نہ ہو اس وقت تک وزیر اعلیٰ گھرنہیں آتے اور نہ ہی میڈیا کے سامنے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی حکمرانوں سے محبت نے عوام کے ذہنوں پر کچھ ایسا جادو کیا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفقود کر رکھی ہے ۔عید ین کے دنوں میں عید گاہ میں وزیر اعظم کی جانب سے کسی معذور کو 1000روپے عیدی دیتے دیکھ کر دکھوں کی ماری نڈھال عوام خوشی سے نہال ہوئے جاتی ہے ۔جہادی میڈیا بھی خبر لگاتا ہے کہ عید گاہ میں عوام اپنے درمیان وزیر اعظم کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔
ٹیکس نادہندگان کے گوشوارے منہ پھاڑ کر چورسیاست دانوں کے قارونی خزانوں کی تفصیل بتاتے ہیں۔فرعونی بگھیوں کے کوچوان ٹیکسوں ، مہنگائی کے کوڑے عوام کی پشت پر مسلسل برساتے ہیں کہ زخموں سے چور کھال سے خون رسنے لگتا ہے ۔لیکن چور پھر بھی عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔انہی گوشواروں کے سائے میں سیاست دانوں کی جائزاولادیں صاحب جائیداد بن جاتی ہیں۔
پھر انہی جائز و سیاسی وارثوں کی شادیوں پر جشن نو رو زمنایا جاتا ہے۔شاہی پروٹوکول کی بگھیوں سے اُڑتی ہوئی گردوغبار میں عوام کے چہرے چھپ جاتے ہیں ۔شاہی کوتوالوں کے زہریلے اور حقارت آمیز جملے راستے میں آنے والے عوام کی پشت پر کوڑوں کی طرح برسائے جاتے ہیں کہ عزت نفس کی کھال اُدھڑ سی جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ زبان پر حرف شکایت آیاہو پھر بھی عہد رفتہ کے فرعونی ، نمرودی قافلوں کی شان و شوکت دیکھنے اور ان کی غلامی کرنے کا اشتیاق کم نہیں ہوتا۔
سیلاب اورزحمت بنی شدید بارشوں کے دنوں میں سلطنت مغلیہ کے باقی ماندہ چشم و چراغ آستینیں چڑھائے گلی کوچوں میں حبس زدہ گدلے پانی میں بلا جھجک اتر جاتے ہیں پھر کیا ہوتاہے اردگرد کی گھٹن زدہ گلیوں کے باسی بڑے شوق سے اس جانثار کو دیکھنے چل پڑتے ہیں۔کبھی کوئی نادان لڑکی گھر کی سیلن زدہ کھڑکی سے دودھ سے بلکتی بچی کو پہلو سے لگائے اس عظیم مسیحا کو محلے میں دیکھ کر اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھنے لگتی ہے ۔
مکان کی تیسری منزل کی شکستہ منڈیر کی اینٹیں بس ایک سہارے کے دم سے جڑی کھڑی ہیں لیکن خادم اعلیٰ ترین کی محلے میں آمد کا سن کر پسینے میں تر بتر عورتیں گھر کے کام کاج چھوڑکرشکستہ منڈیروں سے باہر گلی میں لٹک لٹک کر جھانکتی ہیں جی ہاں یہ وہی سرکاری لشکر کے خادم اعلیٰ ترین ہیں جن کوچنددن قبل گرمی سے نڈھال، تاریکی میں ڈوبے ہوئے پورے محلے نے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر بدعائیں دی تھیں۔
تندور پر کام کرنے والے غریب طالب علم نے بی اے کے امتحان میں پورے علاقے میں اول پوزیشن حاصل کر کے نام اونچا کر دیا لیکن پھر بھی خادم اعلیٰ ترین کو اس کامیابی کا حصہ دار بنا ڈالا۔50ہزار نقد ملنے پر ماں بوسیدہ جھولی اُٹھاکر گھرمیں آئے ہوئے مسیحا کو دعائیں دینے لگتی ہے۔بے چاری نہیں جانتی کہ ہونہار بیٹے کی کامیابی میں بھلا سرکار نے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے ؟
ہمت تو اس بیچارے غریب طالب علم کی ہے جس نے اس بے مثال کامیابی کے لیے برسوں تندور کی جہنمی آگ کو اپنے سینے اور چہرے پر برداشت کیا ہے لیکن بے چاری ماں اتنی خوش ہے کہ خادم اعلیٰ ترین اپنے کوتوال سمیت ہمارے گھر میں تشریف لائے ہیں۔
♣