ڈاکٹر پرویز پروازی
ملک زادہ منظور احمد کی طول طویل خودنوشت رقص شرر کے عنوان سے2004ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔ آخری فقرہ یوں ہے ’’بحمد اللہ سفرابھی جاری ہے آگے کے ماہ وسال جاننے کیلئے پڑھیں رقص شرر (خودنوشت) کا دوسرا حصہ جو زیر ترتیب ہے اور انشاء اللہ بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہوگا‘‘(رقص شررصفحہ356)۔
کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک زادہ صاحب کا مطلب ہے کہ ابھی مشاعرے جاری ہیں جب تک لوگ مشاعروں کی نظامت کیلئے انہیں تکلیف دیتے رہیں گے ان کا سفر جاری رہے گا۔ ہمیں تو ان کی نظامت میں ہونے والے کسی مشاعرہ کو سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ خدا معلوم جن مشاعروں کی نظامت’’یہ اپنے آواز کے جادو‘‘(صفحہ527) کے زور پر کرتے رہے ان کا کیا عالم رہا ہوگا۔
امجد اسلام امجد کی رائے آپ نے بڑے فخر سے درج کی ہے کہ ’’پاکستان میں ملک زادہ منظور احمد جیسی کوئی شخصیت نہیں پائی جاتی اگر خواجہ محمد شفیع، افتخار عارف اور راغب مراد آبادی کو جوڑ دیا جائے تو حاصل جمع ملک زادہ منظور احمد بنیں گے۔ یہ جملہ پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے اپنی ساری دوڑ دھوپ کا صلہ مل گیا یا ایک پاکستانی رسالہ ’’دنیائے ادب‘‘ میں جب یہ شائع ہوا کہ پاکستان کے نظامت کرنے والوں کو یہ فن ملک زادہ منظور احمد سے سیکھنا چاہئے تو مجھے یہ لگا کہ میں نے واقعی مشاعرہ کی نظامت کو ایک فن کا درجہ عطا کردیا ہے‘‘(صفحہ 563)۔
امجد اسلام امجد کی تعریف کا تجزیہ کریں تو بات یوں بنتی ہے کہ خواجہ محمد شفیع دہلوی کا تو امجد نے صرف نام ہی سنا تھا کیونکہ امجد کے سن شعورتک پہنچتے پہنچتے خواجہ صاحب اتنے ضعیف ہوچکے تھے کہ انہوں نے مشاعروں کی نظامت ترک کردی تھی۔ افتخار عارف نے کبھی مشاعروں کی نظامت کے فن میں یکتا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اب رہے راغب مراد آبادی تو ان کی فی البدیہہ تک بندیوں والے تعارف کو اہل ذوق نے ہمیشہ زہر خند سے سنا ہے۔
ملک سے دور رہنے والے امارات کے باسی ان کی تک بندیوں سے محفوظ ہوتے ہوں تو یہ ان کا اپنا’’ حسن ذوق‘‘ ہے۔ رہی سہی کسر حکیم راغب مراد آبادی نے کم ذوقی یا بدذوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوش ملیح آبادی کے برہنہ گفتاری سے مزین خطوط چھپواکر نکال دی ہے جس سے ’’مس راغب مراد آبادی‘‘ کا تصور اور بھیانک ہوگیا ہے۔
ملک زادہ منظور کو تو اپنی نظامت پر اتنا ناز ہے کہ ایسے حوالے بھی درج کرنے سے نہیں رکتے جن کو درج کرنا اہل ذوق کے نزدیک کم ذوقی سمجھاجاتا ہے۔ بحرین کے ایک امیر البحرکا قول آپ نے درج کیا ہے کہ’’آپ نے بحرین کی خواتین پر کیا جادو کردیا ہے کل شام سے جب سے میں آیا ہوں سبھی خواتین آپ ہی کا تذکرہ کررہی ہیں‘‘ (صفحہ313) حالانکہ اس مشاعرہ میں حمایت علی شاعر، بشیر بدر، جگن ناتھ آزاد، خمار بارہ بنکوی، کرارنوری اور احمد فراز او رجون ایلیانے اپنے کلام سے لوگوں کو نوازا تھا گویا یہ سب لوگ محض ضمنی حیثیت رکھتے تھے اور مشاعرہ اس لئے چمک گیا تھا کہ مشاعرہ کی نظامت ملک زادہ صاحب نے کی تھی۔
انہیں ذرا ذرا سی باتیں یاد ہیں اپنے امتحانوں کے رول نمبر اور حاصل کردہ نمبروں تک کی تفصیل انہیں یاد ہے(صفحہ38) ان کے ایک دوست کی کتاب پر فراق نے دیباچہ لکھا تھا وہ بھی لفظ بہ لفظ انہیں یاد ہے۔ (صفحہ116تو اپنی تعریف میں کہی گئی باتیں کیسے انہیں بھول جاتیں؟
ان کی خود ستائیوں سے صرف نظر کریں تو ہندوستان کے شعراء کے بارہ میں عموماً اور رہنماؤں کے بارہ میں خصوصاً بڑی نئی او رکام کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ایک کانگریسی رہنما کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا بات ہے آجکل کانگریس کی نگاہ کرم بریلوی مولویوں پر ہے۔ پالیمنٹ اور اسمبلی میں دونوں جگہوں پر انہیں کابول بالا ہے۔ حالانکہ جنگ آزادی میں دیوبندی مولویوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا۔ کہنے لگے ملک زادہ! تم اس راز کو نہیں سمجھو گے۔ ہم لوگ سیاستدان ہیں ہمیں ایسے آدمیوں کی ہر جگہ ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ مجمع لگانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دیوبندی مولوی ہر اس چیز کو ناجائز کہتا ہے جو بھیڑاکٹھا کرتی ہے جلوس ناجائز ہے میلا ددرست نہیں۔ عرس بدعت ہے۔ اس کے برخلاف بریلوی مولوی جلسہ جلوس عرس قوالی اور حلوے مانڈے جیسی چیزوں کو حد شریعت میں لاکر مجمع لگالیتا ہے اور ظاہر ہے جمہوریت میں بھیڑ بہت اہمیت رکھتی ہے‘‘(صفحہ276)۔
ایک مشاعرہ میں نظامت کیلئے بلائے گئے تو کسی دوست سے قرض لے کر ایک نئی نفیس کپڑے کی شیروانی سلوائی اور پہن کرگئے۔ اس مشاعرہ میں جووزیر حافظ محمد ابراہیم مہمان خصوصی کے طور پر آئے تھے آپ نے دیکھا کہ’’ان کی کھدر کی شیروانی پر پیوند لگے ہوئے ہیں‘‘(صفحہ 134) انہی حافظ محمد ابراہیم کے صاحبزادے بھی وزیر ہوئے انہیں ایک مشاعرہ والوں نے مدعو کیا۔ وزیر موصوف ایک گھنٹہ دیر کرکے پہنچے۔ مشاعرہ کے منتظم مولانا خیر بہوردی تھے آپ نے فرمایا ’’وزیر موصوف ایک گھنٹہ دیر کرکے پہنچے۔ مشاعرہ کے منتظم مولانا خیر بہوروی تھے آپ نے فرمایا’’وزیر صاحب محترم لکھنؤ کے بہت سے شرفا کو میں نے اس جلسہ میں مدعو کیا تھا وہ لوگ آپ کا انتظار ایک گھنٹے تک کرکے چلے گئے۔ اور جو موجود ہیں وہ بھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے جانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے والد محترم حافظ محمد ابراہیم صاحب ہوتے تو میں ان سے شکایت کرتا۔ آپ سے صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ اب آپ ہی اس جلسے کی صدارت کیجئے اور افتتاح کیجئے اور سامعین کو اپنی تقریر سے نواز ئیے۔ میں چلا‘‘ یہ کہہ کر مولانا نے بیگ اٹھایا اور روانہ ہوگئے۔ وزیر محترم ہکابکارہ گئے اور جلسہ درہم برہم ہوگیا‘‘(صفحہ 63)۔
یہ وہی حافظ محمد ابراہیم ہیں جو بعد کو گورنر ہوئے اور جن کا ذکر جلیل عباسی نے اپنی خودنوشت ’’کیا دن تھے‘‘ میں کیا ہے کہ’’مرے تو ان کی قبر پر کتے لوٹتے تھے کیونکہ ان کے لواحقین ان کی قبر کو پختہ کروانے کی مقدرت نہیں رکھتے تھے۔‘‘(کیادن تھے۔ صفحہ161)۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے ذکر میں لکھا ہے کہ شوکت تھانوی کو قادیان سے مشاعرہ کی دعوت ملی۔ شوکت کے والد نے جانے سے روک دیا مگر مولانا اشرف علی تھانوی نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ شوکت تھانوی نے پوچھا مولانا آپ نے کیوں اجازت دے دی۔ مولانا نے فرمایا میاں تمہیں اپنے مذہب سے ہی جب دلچسپی نہیں تو تم دوسروں کے مذہب میں کیا دلچسپی لوگے۔ تمہارا جہاں جی چاہے گھومتے رہو تم پر کوئی اثر نہیں ہوگا‘‘(صفحہ158)۔
سلام مچھلی شہری پر مجاز کا یہ لطیفہ ہم نے پہلی بار ان کے ہاں پڑھا ہے کہ’’نام عبدالسلام، تخلص سلام اور شاعری وعلیکم السلام‘‘(صفحہ136) اس کے بعد آپ نے سلام مچھلی شہری کے اپنے نام خطوط درج کیے ہیں اور یہ فرمایا ہے کہ ’’کاش سلام مچھلی شہری کے خطوط اکٹھا کرکے شائع کردئے جاتے تو مکتوب نگاری میں ایک بے تکلف فضا او راپنائیت کا اضافہ ہوتا‘‘(صفحہ ایضاً‘‘) ملک زادہ صاحب نے ان کی شاعری کی’’وعلیکم السلامیت‘‘ پررائے دینے سے بوجوہ احتراز فرمایا ہے۔
یہ خود نوشت احوال الرجال کے پیرائے میں نہیں اسماء الرجال کے پیرائے میں ہے۔ جس جس مشاعرہ میں گئے ہیں جس جس سے ملے ہیں جس کو ذرا سا بھی جانا ہے ان کے اسماء کی فہرست مرتب کردی ہے۔ شمالی امریکہ اور کینیڈا آئے ہیں تو بھی یہاں کے افراد کی مکمل فہرست کتاب میں موجود ہے۔ امارات اور مشرق وسطیٰ میں جن لوگوں سے ملے ہیں وہ بھی ان کی خودنوشت میں مذکور ہیں اور جس کے منہ سے ان کی توصیف میں کچھ سرزد ہوا ہے وہ تو لازمی طور پر نمایاں طور سے مذکور ہیں۔ تس پر ان کا عالم یہ ہے دوسروں کی خودپسندی اور خودستائی پر گرفت کرتے ہیں۔
جگن ناتھ آزاد کے بارہ میں لکھتے ہیں’’وہ اپنی پبلسٹی سے خوش ہی نہیں ہوتے بلکہ اخبارات میں کی گئی پبلسٹی کی خود بھی باضابطگی کے ساتھ اپنے احباب میں پبلسٹی کرتے ہیں اور اس کی زیراکس نقلیں اپنے دوستوں کے پاس بھیجتے رہتے ہیں‘‘ (صفحہ486)انہیں اس بات پر تو اعتراض ہے کہ’’فہمیدہ ریاض پر مقالہ پڑھتے ہوئے مشکور حسین یاد اپنی مردانگی کے قصے لے بیٹھے‘‘(صفحہ 468) مگر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دوست کے کہنے پر اپنے کچھ جوش ملیح آبادی جیسے رومانوی واقعات بھی لکھ دئے ہیں(صفحہ516) ان واقعات کو پڑھ کر قاری کار دعمل وہی ہوتا ہے جو جوش صاحب کے خیالی’’ معاشقۂ آخر الزماں‘‘ کو پڑھ کرہوتا ہے۔ البتہ ایک خاتون شاعرہ شاہجہان بانویاد کی باربار کی یاد آوری (صفحات 229-223اور283) قاری کو ضرور چونکاتی ہے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
ہمارے ہاں رئیس امروہوی کا تصورایک بزرگ اور صاف ستھرے شاعر کا ہے مگر ملک زادہ صاحب نے امارات کے ایک مشاعرہ کے بعد’’رئیس امروہی کو۔۔۔ میں نے بے حدمستی اور سرخوشی کے عالم میں ایک شخص کے کاندھے پر آدھا دھڑآگے اورآدھا پیچھے لٹکائے ہوئے العین میں دیکھا۔۔۔ میں نے ان کو سلام کیا وہ بولے ’’میں اس وقت سرخوشی کے عالم میں ہوں صبح ملاقات ہوگی‘‘(صفحہ321)۔ جون ایلیا کی کیفیتیں تو سارے عالم پر عیاں ہیں مگر رئیس صاحب کی یہ کیفیت میں نے پہلی بار پڑھی ہے۔
اس خود نوشت میں ازبسکہ ان کے اپنے حالات کم کم ہیں دوسروں کے احوال کی وجہ سے بیان طویل ہورہا ہے ۔ دو باتیں بیان کرکے قصہ مختصر کرتا ہوں۔ گرور جنیش کے آشرم میں گئے تو جانے سے پہلے انہیں بتایا گیا کہ اندر جانے سے قبل ’’خون کا معائنہ کروانا ضروری ہے‘‘(صفحہ386) اور خون جانچنے کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت ملی۔
حکیم محمد سعید صاحب کی دوشہرہ آفاق تقریروں کا ذکر آپ نے اپنے حوالہ سے کیا ہے جو دوحہ کے جشن علی سردار جعفری میں حکیم صاحب نے فرمائیں’’حضرات وخواتین ابھی مجھے دو تقریریں کرنی ہیں ایک تقریر حکیم سعید کی ہوگی۔ اور دوسری صدر جلسہ حکیم سعید کی۔ ایک تقریر بے حد چھوٹی ہوگی اور دوسری بے حد بڑی۔ چھوٹی تقریر یہ ہے کہ آپ حضرات کا شکریہ او ربڑی تقریر یہ ہے آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ‘‘(صفحہ 523) اگرچہ یہ تقریریں مارک ٹوئن کئی برس قبل کرچکا تھا ملک زادہ صاحب نے حکیم صاحب کے حوالے سے انہیں دہرادیا۔
اور تجزیہ کے اختتام سے قبل ایک کانگریسی وزیر اعلیٰ کی ایک مختصر نظم آب زر سے بلکہ یوسفی صاحب کے قول کے مطابق’’آب رز‘‘ سے لکھ رکھنے کے لائق ہے کہ
’’کرسی کے پیر ہوتے ہیں
سرنہیں ہوتا۔
مگر جب کوئی اس پر بیٹھ جاتا ہے
تو سر ہوجاتا ہے‘‘
یہ مختصر نظم اس سے بھی زیادہ مختصر صورت میں ہم پہلے بھی سن چکے ہیں۔ اقبال کو سرکا خطاب ملاتھا تو ظفر علی خاں نے پھبتی کہی تھی ’’سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال‘‘۔
One Comment