جب ایک قوم کے افراد کو غلام بنایا جاتا ہے تو اسی حربے سے کام لیا جاتا ہے۔
اپنی روزمرہ بات چیت اور معمولات کے دوران دوست اور دفاتر میں ساتھی ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوئے بیوقوف،احمق اور کم عقل کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں جس کا عموماً برا بھی نہیں منایا جاتا ہے البتہ جو ٹارگٹ بنتا ہے وہ بھی اس تاک میں رہنے لگتا ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنا حساب چکتا کردے۔
جب ایک دوست دوسرے یا دوست اپنے ایک دوست کو بے وقوف،احمق اور کم عقل کہتے ہیں تو وہ واقعتاً بے وقوف نہیں ہوتا ہے یا پھر وہ اس کو ایسا سمجھتے ہیں البتہ اس لمحہ اس سے کوئی احمقانہ حرکت سرزد ہوئی ہوتی ہے یا پھر ایسی بات کہ جاتا ہے جس میں حماقت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سننے والا اس کا کوئی زیادہ اثر قبول نہیں کرتا ہے۔
مالک اور نوکر کے مابین سماجی مراتب کی ایک وسیع خلیج حائل ہوتی ہے اور مالک اس طبقاتی تفاوت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے چنانچہ جب ایک مالک اپنے ملازم کو احمق کہتا ہے اور اسے وقتاًفوقتاً یاد بھی دلاتا رہتا ہے تو یہ دوستوں والا بے وقوف،احمق اور کم عقل نہیں رہتا ہے۔
اگر مالک ان الفاظ کی تکرار کرتا رہتا ہے تو پھر وہ اپنے نوکر کو یہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ وہ صرف مالک ہی نہیں ہے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ عاقل اور باشعور بھی ہے اور وہ جس مرتبہ پر فائز ہے اس کا پورا پورا مستحق بھی ہے لہٰذا بات چیت سمیت کوئی بھی مرحلہ،محفل اور موقع ہو اسے مالک اور نوکر کے مابین پائے جانے والے اس ناطے اور رشتے کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اور کبھی، کبھی بھی ان حدود کو پار کرنے کی جرات؟ تو کیا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے۔
ایک مالک اپنے ملازم کو ہمہ وقت احمق اور الّو کا پٹھا نہیں کہتا ہے وہ کبھی کبھار اس پر غصّہ بھی کرتا ہے تو کبھی کبھار مہربانی اور سخاوت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اور یہ سب بھی بنیادی طور پر نوکر کو طبقاتی تفاوت اور امتیاز یاد دلاتے رہتے ہیں یہ ایک ملازم کو یاد دلاتے ہیں کہ مالک اور نوکر دونوں برابر نہیں ہوتے ہیں غصّہ کے ذریعے مالک نوکر کو احساس دلاتا رہتا ہے کہ وہ انتہائی نالائق، نااہل اور اس ملازمت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس کی پے در پے حماقتوں سے اسے ایک سے زائد مرتبہ نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور اپنی رحمدلی اور سخاوت کی اداکاری سے مالک اسے اپنے احسانات کے بوجھ تلے لانا چاہتا ہے۔
چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ نوکر مالک کی باتیں سنتا اور مار بھی کھاتا ہے پھر بھی اسے چھوڑتا نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنی ملازمت کا جزُو سمجھتا ہے البتہ کمتری کا ضرور شکار رہتا ہے اور مار کھانے کے بعد خود کو تسلی دینے کے لئے ایک کونے میں بیٹھ کر مالک کے احسانات کو یاد کرنے لگتا ہے۔
اس طرح مالک احساس برتری اور ملازم احساس کم تری میں مبتلا رہتے ہیں یہی احساسات رفتہ رفتہ مالک میں یہ گھمنڈ پیدا کردیتا ہے کہ وہ ان داتا ہے اور ملازم سمجھتا ہے کہ اس کا نصیب کھوٹا ہے علاوہ ازیں مالک اپنے اس عمل سے ملازم کے محسوسات کو دبانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ملازم عموماً سراسیمہ رہتا ہے گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور حواس باختگی میں اس سے کبھی پیالیاں ٹوٹ جاتی ہیں کبھی ٹرے گرجاتی ہے گویا غیر شعوری طور پر حماقتوں پر حماقتوں کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھار تو وہ نفسیاتی مریض بن کر ہسپتال پہنچادیا جاتا ہے۔
مالک کے بار بار الّو کا پٹھا کہنے،غصّہ، مہربانی اور فیاضی پر نوکر سوچنے لگتا ہے کہ گوکہ اپنی حماقت کے باعث وہ اس ملازمت کا مستحق نہیں ہے تاہم مالک نے ملازمت پر فائز رہنے کی اجازت دے کر احسان عظیم کیا ہے اس لئے تنخواہ یا مراعات میں مزید اضافے کا مطالبہ اسے زیب نہیں دیتا ہے چنانچہ یہ سوچ اورعمل اس میں صابر و شاکر رہنے کی خصوصیات بھی پیدا کردیتا ہے مالک بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ ملازم کو اپنے نفسیاتی حربوں سے اس مقام پر پہنچا دے جہاں اس میں احساس کمتری پید اہو اور اس کے لبوں پر حرف شکایت آنے کی گنجائش بھی نہ رہے۔
احساس کمتری میں مبتلا ملازم کم ہمت،ڈرپوک اور بزدل بھی ہوجاتا ہے اس کے دل میں یہ خوف جاگزیں ہوجاتا ہے کہ اپنی حماقت اور نااہلی کے باعث اسے ملازمت سے ہی کہیں ہاتھ دھونا نہ پڑ جائیں چنانچہ اس بنیاد پر وہ جھڑکیاں بھی سنتا اور برداشت کرتا رہتا ہے۔
مالک اور نوکر کے مابین اس نوعیت کے تعلقات اور برتاؤ معاشرے کے دیگر طبقات تک دراز ہوجاتے ہیں چنانچہ گھر میں مرد عورت اور بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں کا مالک بن جاتا ہے آفیسر ماتحت اور حکمران اور وزراء عوام کو اگر زبان سے کہتے نہیں بھی ہیں مگر نا سمجھ اور احمق ضرور سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار وہ عموماً انتخابی مہمات کے دوران وعدوں اور دعوؤں کی تکرار کے ذریعے کرتے ہیں۔
اس منفی سوچ کی سزا مجموعی طور پر ملک اور قوم کو ملتی ہے مالک جب نوکر کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے نفسیاتی مریض بنادیتا ہے یہی برتاؤ شوہر اہلیہ اور بھائی بھائیوں اور بہنوں،افسر ماتحت اور حاکم رعایا سے کرتا ہے تو موخر الذکر کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھرنے اور نکھرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
استاد کا سماج میں ایک اعلیٰ اور عزت کا مقام ہے اس کے ہاتھوں سے ہر سال سینکڑوں طلبہ کچھ بن کر نکلتے ہیں اور وہ ملک اور قوم کی قیادت سنبھالتے ہیں اس طرح استاد طلبہ کے لئے مثال اور نمونہ ہوتا ہے چنانچہ یہی استاد جب جماعت میں پڑھاتا ہے اور اس کے ہاتھ یا کرسی کے پاس لاٹھی بھی رکھی ہوتی ہے اور طالب علم کو پوچھنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ ڈانٹتا ہے تو پھر معلم اور طالب علم کا رشتہ بھی مالک اور نوکر کا رشتہ بن جاتا ہے۔
شوہر بیوی سے تمام اختیارات لیتا ہے اور ہر فیصلہ کا اختیار اپنے پاس رکھتا ہے تو یہاں بھی وہی صورت حال بن جاتی ہے۔
حاکم اور ارباب اختیار میڈیا کے لئے قواعد وضوابط بناتے ہیں اور ایک خود ساختہ ماحول پیدا کیا جاتا ہے تو عوام ملک اور ریاست کے مالک اور وارث نہیں مغلوب اور مفتوحہ کی حیثیت اور مقام اختیار کرلیتے ہیں۔
نصاب تعلیم کی ترتیب اور انتخاب میں اساتذہ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے پارلیمنٹ کے دروازے غربت کے باعث غریب غرباء کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور یہ مخصوص طبقات کے لئے وقف ہوتا ہے تو اس سے اقلیتی امیر طبقات میں احساس برتری اور تفاخر اور غریب طبقات میں کمتری کے احساسات جنم لیتے ہیں اور ملک اورمعاشرہ نوکر اور عوام کی خفتہ صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے سے رہ جاتا ہے۔
♣