فیض کے نئے عشاق۔۔۔

بیرسٹر حمید باشانی

faiz-at-work-office-of-pakistan-times
بعض لوگ وقتی داد و ستائش کے قائل ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کو تاریخ میں زندہ رہنے سے کوئی دلچسبی نہیں ہوتی۔وہ اپنا کوئی عظیم اریخی ورثہ چھوڑ کر مرنے کو بھی اہم نہیں سمجھتے۔ان لوگوں کو اپنے آج سے دلچسبی ہوتی ہے۔ گزرا ہوا کل اور آنے والا کل ان کے لیے بے معنی ہوتے ہیں۔تاریخ کا شعور وغیر جیسی اصطلاحات ان کو اکتاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ان کے نزدیک انسان کی پیدائش کا کوئی اعلی و ارفع مقصد نہیں ہوتا۔

ان کے نزدیک یہ فضول فلسفیانہ مباحث ہیں۔زندگی کا مقصد بس اپنا حصہ وصول کرنا ہی نہیں بلکہ جس قدر ہوسکے دوسرے سے چھیننا بھی ہے۔چنانچہ ایسے لوگ شروع سے ہی اپنا ہاتھ لمبا کرنے اور بازو مضبوط کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے کندھوں پر پاوں رکھ کر آگے بڑھنا یا اونچی ایڑھی پہن کر اپنا قد لمبا کرنے کی ان کو خاص مشق ہوتی ہے۔ایسے لوگ ظاہر ہے زندگی کے ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں۔مگر شاعری اور ادب کے میدان میں ان کی بہتات ہے۔

چنانچہ آئے دن ہم لوگ ادبی سرقے اور ادبی جعل سازی کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔فیض احمد فیض کو اپنی زندگی میں ایسے لوگوں سے عام واسطہ پڑتا تھا۔اپنی زندگی کے دلچسب اور حیرت انگیز واقعات میں وہ یہ واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بھارت میں ایک مشاعرے کے دوران ایک صاحب اٹھے اور فیض صاحب کی موجودگی میں ان ہی کا کلام سنایا، خوب داد سمیٹی اور نکل گئے۔

ممتاز شاعر، دانشور اور فیض احمد فیض کے فن اور شخصیت پر مانے ہوئے محقق جناب اشفاق حسین کی نئی کتاب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ فیض صاحب پر ہاتھ صاف کرنے کا عمل ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔اور یہ واردات صرف ان کے کلام کے ساتھ ہی نہیں، ان کے فن ، شخصیت اور ان کے نظریات کے ساتھ بھی ہو رہی ہے۔جناب اشفاق حسین صاحب نے یہ کتاب مجھے دیتے وقت اس کا پس منظر ، اسکی اہمیت اور ضرورت سے بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔

فیض بیروت میں۔ایک حقیقت یا افسانہ نامی کتاب، اشفاق حسین کی کئی دوسری کتب کی طرح ایک انتہائی اہم اثاثہ ہے۔ہر بڑے شاعر اور ادیب کی طرح فیض صاحب کو بھی سرقہ بازوں اور نقالوں اور ان سے اپنی جھوٹی قربت یا رفاقت کے دعوے داروں کا سامنا توہے ہی مگر سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اب بہت سارے لوگ فیض صاحب کے نظریات پر بھی ہاتھ صاٖف کرنے پر تل گئے ہیں۔

حالانکہ فیض صاحب کو ہم سے جدا ہوئے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا اور ان کے خاندان سمیت کئی قریبی رفقا، دوست و احباب ابھی زندہ ہیں۔اور ہماری طرح کے ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جنہوں نے فیض صاحب کو خود بازبان فیض سنا اور ان کے نظریات جاننے کا موقع ملا۔لطف کی بات یہ ہے کہ فیض صاحب کی زندگی میں جن لوگوں کو ان کے نام اور کام سے ایک خاص قسم کی الرجی تھی کوئی تیس سال گزرنے کے بعد اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ فیض اس صدی کے عظیم ترین شاعر تھے اور ان کے ساتھ تعلق جوڑ کر اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

اب ایسا کرنے سے نہ تو خفیہ ایجنسیوں کی خراب رپورٹوں کا ڈر ہے اور نہ ہی قید و بند کا کوئی خطرہ۔اس کے بر عکس فیض کے نام کے ساتھ ایک رومانس ایک گلیمر ہے اور اب یہ فیشن بنتا جا رہا ہے۔اس بات کا اندازہ مجھےذاتی طور پر اس وقت ہوا جب ہم دوستوں نے کوئی دس سال پہلے ٹورانٹو میں فیض امن میلے کا انعقاد کرنا شروع کیا۔اس میلے میں ایسے لوگوں نے بھی فیض کے فن اور شخصیت پر اپنے مقالہ جات پڑھنے کی خواہش ظاہر کی جو مشہور قسم کے قدامت پرست اور رجعت پسند ہیں۔

یہ وہ لوگ تھے جو خود فیض صاحب کے اپنے ٹورانٹو والے مشاعرے میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اس خطرناک کمیونسٹ سے ان سے ٹورانٹو میں قیام کے دوران ملاقات کی زحمت یا جرات نہ کر سکے۔اب تیس سال بعد فیض اور جالب جیسے شاعر ان رجعت پسندوں کے اعصاب پر سوار ہوگئے۔یہاں تک کہ ان کے رجعتی حکمران طبقات نے بھی ان شعرا کا انقلابی کلام اپنی تقاریر میں پڑھنا شروع کر دیا جو در اصل اس کلام کی اہمیت گھٹانے اور اس کا اثر کم کرنے کے مترادف ہے۔گویا فیض ایک فیشن بنتا گیا۔

دو ہزار پانچ کے بعد یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ایسے لوگوں نے راتوں رات فیض کے فن و شخصیت پر ضخیم کتابیں لکھنی شروع کر دیں۔ان میں دائیں بازوں کے وہ رجعتی روایتی لوگ بھی شامل تھے جو پوری زندگی روشن خیالی اور ترقی پسندی سے خوف کھاتے رہے۔ غالبا ان لوگوں کو اس بات کا دراک ہو گیا کہ اب درباری شاعروں کا زمانہ لد گیا ہے۔عوام تک رسائی کا اب واحد ذریعہ سرکاری اور رجعتی ذرائع ابلا غ ہی نہیں ہیں بلکہ اب اپنی بات کہنے اور سننے کے متبادل ذرائع بھی موجود ہیں۔

چنانچہ ان لوگوں نے فیض کی بے پناہ مقبولیت سے ٹکرانے کی ہمت نہ پا کر اس کوا پنانے کا فیصلہ کیا۔اس میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔ایک وہ تھے جنہوں نے یہ طے کیا کہ فیض کے کلام اور شخصیت سے ان کا سیاسی پہلو نکال کر ان کے کلام کو گانے بجانے اور تفریح کے لیے قبول کر لیا جائے۔دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے خیال میں اگر فیض کی شخصیت سے مارکسزم کا ڈنگ نکال دیا جائے تو وہ ایک بے ضرر قسم کے شاعر کے طور پر قبول کیے جا سکتے ہیں۔

اگر یہ لوگ فیض کے عشاق کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں تو ان کو خوش آمدید کہنے میں کوئی حرج نہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر آج فیض زندہ ہوتے تو کہتے کہ بھئی اگر ان لوگوں کو میرے بارے میں کچھ الٹا سیدھا سوچنے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو ہونے دو۔مگر تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانے اور ریکارڈ کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ فیض کو رجعت پسندوں کے ہاتھوں ہائی جیک نہ ہونے دیا جائے۔اشفاق حسین کی یہ کتاب اس سمت میں ایک اہم کوشش ہے۔

One Comment