گنجی طوطی۔۔۔مثنوی مولانا روم

سبطِ حسن

Parrot
پرانے زمانے کی بات ہے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک عطّار رہتا تھا۔ عطّار، عطریات کو بنانے اور بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی دکان تھی۔ دیواروں پر لگے لکڑی کے خانوں میں چھوٹی بڑی بوتلیں رکھی تھیں۔ کچھ سیدھی او رکچھ ٹیڑھی میڑھی۔ کچھ کی کمریں چوڑی تھیں او رکچھ کی کمریں نہ ہونے کے برابر پتلی۔ کچھ، بالکل ایسے لگتا جیسے کوئی لڑکی ہو او رسر پر پانی کا مٹکا لئے کھڑی ہو۔ کچھ شیشیوں کے رنگ سبز تھے، کچھ سفید او رکچھ ہلکی گلابی۔

ان شیشیوں میں مختلف قسم کے تیل او رعطر تھے۔ پھولوں کے عطر چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں تھے او ران کے ڈھکن بھی شیشے کے تھے۔ لمبی بوتلوں میں سرسوں سے لے کر کدوتک کا تیل تھا۔ شیشیوں کے درمیان ایک بڑی تخت پر عطّار بیٹھتا اور ہر شیشی کو بیٹھے بٹھائے آرام سے پکڑ لیتا تھا۔ صرف اُوپر کے خانوں میں پڑی شیشیوں کو اٹھانے کے لئے وہ اپنی ایک ٹانگ پر تھوڑا سا اٹھتا او راس کا ہاتھ سب سے اوپر والے خانے تک پہنچ جاتا۔

عطّار کے زیادہ تر گاہک کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کھاتے پیتے لوگوں کے پاس فالتو پیسے ہوتے ہیں۔ جب فالتو پیسے ہوتے ہوں تو پھر ہی عطریات او رخوشبویات کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ اس شہر کے عام لوگ چونکہ مشکل سے اپنی روٹی پوری کرتے تھے اس لئے وہ اس کے گاہکوں میں شامل نہ تھے۔ عطّار نے اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کچھ جڑی بوٹیاں بھی دکان پر رکھ لیں۔ یہ جڑی بوٹیاں زیادہ تربچوں کی بیماریوں یا پیٹ وغیرہ کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے استعمال کی جاتی تھیں۔

عطّار کی دکان ، طوطی والی دکان کے نام سے مشہور تھی او رپورا قصبہ اسے اسی نام سے جانتا تھا۔ عطّار ایک دفعہ خس کا عطر لینے کے لئے دور دراز کے ایک علاقے میں گیا۔ وہاں عطر بنانے والے کے پاس کئی طوطے تھے۔ جن دنوں عطّار وہاں گیا، عطر بنانے والے کے طوطوں نے مُنے مُنے بچے نکالے ہوئے تھے۔ یہ طوطے آتے جاتے لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے تھے او رخاص طور پر بچوں سے تو ان کی بڑی دوستی تھی۔ بہت سے بچے ہر وقت ان کے اردگرد جمع رہتے۔ وہ طوطوں سے بات کرتے اور طوطوں کے جواب سن کر خوشی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ عطّار کو طوطوں کا بولنا بڑا اچھا لگا، اس نے طوطے کا ننھا سا بچہ لے لیا۔ اسے لکڑی کے سوراخوں والے پنجرے میں ڈالا او رگھر لے آیا۔

عطّار نے گھر آکر، طوطے کے لئے ایک خوبصورت پنجرہ بنوایا۔ اور اسے دکان کے دروازے کے پاس جڑی بوٹیوں کے کنستروں کے اوپر رکھ دیا۔ ہر کوئی چھوٹا بڑا، آتے جاتے طوطے کے اس بچے کے ساتھ بات کرتا۔ اس طرح یہ بہت جلد بہت سی باتیں سیکھ گیا۔ طوطے کا بچہ بڑا ہوگیا اور پتہ چلا کہ یہ طوطی ہے۔ طوطی ہر وقت بولتی رہتی۔ گاہک عطّار سے جو چیزیں مانگتے، طوطی کو وہ بھی یاد ہوگئی تھیں۔ اگر کوئی گاہک دکان پر آتا تو طوطی بولتی:۔
’’
مٹٹھی ٹاہیے(ملٹھی چاہیے)۔۔۔ ٹرک ٹلاٹ ڈو(عرق گلاب دو)۔۔۔‘‘

بچوں کو کچھ لینا دینا تو ہوتا نہیں تھا، وہ صرف طوطی سے باتیں کرنے کا مزالیتے تھے۔ وہ طوطی سے کہتے:۔
’’
میاں مٹھو چوری کھاؤ گے؟‘‘
’’
ٹاپنی ٹماّں ٹوٹلاؤ(اپنی اماں کو کھلاؤ)‘‘ طوطی کہتی۔

یہ سن کر سب کھل کھلا کر ہنس پڑتے۔ عطّار کی تو طوطی میں جان تھی۔ جب وہ اکیلا ہوتا تو طوطی سے باتیں کرتا رہتا۔ وہ صبح طوطی کا پنجرہ اٹھاتا اور دکان پر لے آتا۔ سارا دن طوطی دکان میں پنجرے کے باہر رہتی۔ شام کو وہ طوطی کو پھر پنجرے میں ڈالتا او رپنجرہ اٹھائے گھر چلا آتا۔ کبھی کسی شخص نے اس کو طوطی کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔ طوطی اس کی ہر وقت کی ساتھی تھی۔ وہ اسے طرح طرح کے پھل، میوے او رخالص گھی کی چُوری کھلاتا۔ طوطی بولتی رہتی تو وہ خوش رہتا، اگر وہ کبھی چپ ہوجاتی تو عطّار گھبرا سا جاتا۔ وہ طوطی سے پوچھتا:۔

’’طوطی، کیا ہوا، چپ کیوں ہو؟‘‘
’’
ٹپ ٹرو۔۔۔۔۔۔ٹیں ٹئیں ٹوٹتی۔۔۔(چپ کرو، میں نہیں بولتی)‘‘
طوطی کی اس بات پر عطّار کھل کھلا کر ہنس پڑتا۔

عطّار کی دکان میں کھانے کی کافی چیزیں تھیں۔ اس لئے وہاں تین چار چوہے چلے آئے۔ چوہوں نے بہت سے بادام او رپستے کھالئے۔ عطّار کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے فوری طور پر ایک بلی دکان میں رکھ لی۔ بلی لانے کے بعد اس نے طوطی کو کچھ ہفتوں کے لئے پنجرے میں ڈالے رکھاتا کہ بلی اس پر حملہ نہ کردے۔ جب بلی اور طوطی کی دوستی ہوگئی تو طوطی پھر سے پنجرے کے باہر رہنے لگی۔

ایک دن عطّار پانی لانے کے لئے دکان سے باہر گیا۔ اسی دوران بلی کو چوہا نظر آگیا۔ بلی اس پر جھپٹی۔ اچانک شور سے طوطی گھبرا گئی۔ وہ پھڑ پھڑ ائی او راس کے پھڑ پھڑانے سے لکڑی کے خانوں کے اوپر پڑی خوشبودار تیل کی بوتلیں دھڑام سے نیچے گریں او رٹوٹ گئیں۔ یہ سب عطّار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جب وہ پانی لے کر واپس لوٹ رہا تھا۔ عطّار کو سخت غصہ آیا۔ اس نے دکان صاف کرنے والا جھاڑن جس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لکڑی بندھی ہوتی ہے، اٹھایا۔ جھاڑن کو غصے میں طوطی پردے مارا۔ جھاڑن کے ساتھ لگی چھڑی طوطی کے سرپر لگی او روہاں سے اس کے سب پر اڑ گئے۔ وہ گنجی ہوگئی۔

طوطی کو لگا کہ تیلی کی بوتلیں ٹوٹنے کا واقعہ صرف ایک حادثہ تھا اور اس نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ اسے عطّار کی مارپیٹ کا بڑا دکھ ہوا۔ اس دکھ کی وجہ سے اس نے کھانا پینا اور بات کرنا چھوڑ دیا۔ بعد میں عطّار کو اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی کہ اس نے ایسے ہی غصے میں طوطی کو مارا اور بیچاری گنجی ہوگئی۔اس نے طوطی کو منانے کے لئے ہر کوشش کی۔ اسے طرح طرح کے کھانے کھلانے کی کوشش کی، اس سے معافی مانگی۔ طوطی سے پیار کرنے والے بڑوں اور بچوں سے درخواست کی کہ وہ طوطی سے بات چیت کریں، اسے کھانے کے لئے منائیں۔ طوطی پر ان تمام کوشش کا کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ دن بدن کمزور ہوتی گئی۔

ایک دن ایک چھوٹا سا بچہ طوطی کے پاس آیا۔ وہ گھر سے طوطی کے لئے چُوری بناکر لایا تھا۔ اس نے طوطی کو چُوری دی۔ طوطی نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ بچے نے طوطی کو اٹھایا اور گود میں بٹھا کر اس سے پیار کیا۔ اس کا منہ چوما۔ طوطی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بچے نے طوطی سے کہا:۔
’’
دیکھو، تم بڑی اچھی ہو، میری تو دوست ہو، میرے کہنے پر چُوری کھالو۔۔۔ ورنہ میں تم سے روٹھ جاؤں گا۔۔۔‘‘

طوطی چپ چاپ اپنی سرخ آنکھوں کو جھپکائے، بچے کو دیکھتی رہی۔ بچے نے ہولے سے اپنی دو انگلیوں پر چُوری رکھی او رطوطی کی چونچ کے پاس لے آیا۔ طوطی

نے بالکل نہ ہونے کے برابر چُوری کے چند ذرے منہ میں ڈالے۔ بچہ خوش ہوگیا۔ یہ سب دیکھ کر عطّار بھی خوش ہوگیا۔ بچہ ہر روز طوطی کے پاس آتا اور اسے کچھ نہ کچھ کھلا جاتا۔ طوطی کسی اور کے ہاتھ سے کچھ نہ کھاتی تھی۔ عطّار اس بات پر بڑا خوش تھا۔ اسے تو لگتا تھا کہ طوطی کھائے پےئے بغیر شاید مرہی جائے گی۔ طوطی اب بھی کسی سے بات نہ کرتی تھی۔

ایک دن دکان پر ایک فقیر آیا۔ اس نے ہاتھ پر کئی انگوٹھیاں او ربازوؤں پر لوہے کے کڑے پہن رکھے تھے۔ اس کا لباس ایک لمبا چولا تھا۔ اس کی داڑھی بے تحاشا بڑی ہوئی تھی مگر سر بالکل گنجا۔ طوطی نے اس گنجے فقیر کو دیکھا۔ وہ بولے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے کہا:۔
’’
ٹڑوئے، ٹنجے، ٹیاٹوٹے ٹی ٹسی ٹاٹیل ٹیٹرایاٹے؟(اوئے گنجے، کیا تو نے بھی کسی کا تیل گرایا ہے؟)‘‘ سب لوگ طوطی کی بات پر ہنس پڑے۔

One Comment