سندھ حکومت جو کافی دنوں سے پریشان تھی۔آخر اپنی پریشانی کا ’’ حل‘‘ ڈھونڈھ ہی لیا۔یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس گُتھی کو سلجھانے والے شریف الدین پیرزادہ کے ہم زاد کون تھے؟۔قرار داد پاس ہوتے ہی بہت سارے دلوں کو قرار سا محسوس ہوا۔ اب دیکھتے ہیں یہ چین یہ قرار کتنے دنوں چلتا ہے۔جہاں تک قانون کا تعلق ہے ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ غیر جمہوری معاشروں میں جتنے بھی قانون بنتے ہیں۔ان میں سب سے پہلے اشرافیہ کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہمارے جیسے نام نہاد جمہوری معاشروں میں آج بھی دھڑلے سے ہوتا ہے۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں قانون کی ناک اس قرارداد کے ذریعے جس طرح موڑی گئی ہے وہ زیادہ دن چلے گا نہیں۔ اس لیے نہیں کہ رینجر حکام کیا چاہتے ہیں؟۔ بلکہ اس لیے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟۔اور عوام صرف امن اور تحفظ چاہتے ہیں۔ جو انہیں ایک طویل عرصے بعد رینجر کے خصوصی اختیارات کے بعد قدرے نصیب ہوا ہے۔ وہ اسے اتنی جلدی مٹی میں ملتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔ اور دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔
ہمارے کچھ دوستوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کراچی میں تین عشروں سے جاری بدامنی کی صرف پیپلز پارٹی ذمہ دار ہے۔ جواب سیدھا سادا سا ہے۔ تین عشروں سے تو نہیں لیکن پچھلے کم از کم ایک عشرے سے تو ہے۔جب وہ حکومت میں ہو گی ،بدامنی اور بدعنوانی کا اصل ذمہ دار کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے؟۔ہم لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھا ڈاکٹر عاصم کے موضوع پر آجاتے ہیں۔کیا موصوف بے گناہ ہیں؟۔باخبر لوگوں کے علاوہ خلق خدا ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟۔
تعلیم بالخصوص طبی تعلیم کو جس طرح انہوں نے جنس بازار بنایا اس کی مثال کسی بھی مہذب اور قانون پسند معاشرے میں مل سکتی ہے؟۔جب مرکز میں ان کی دکان بند ہوئی تو انہیں بلا تاخیر سندھ میں اعلیٰ سطح کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔کیوں؟۔ان کے کریڈٹ پر کیا تھا؟۔موصوف اپنے ہسپتالوں کے لیے زمین ہتھیانے کے علاوہ چوٹی کے مجرموں کو علاج اور تحفظ فراہم کرتے رہے۔کیا یہ سب جھوٹ ہے؟۔وزیر داخلہ نے ان کے اعترافی بیانات کی وڈیو دکھانے کی بات کی تو فوراً جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اس وڈیو کو دکھانے کی دھمکی کیوں دی۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ ابھی تک دکھائی کیوں نہیں؟۔عوام سے اتنے بڑے بڑے واقعات چھپانے کی کوشش وہ کیوں کر رہے ہیں؟۔اس میں جمہوریت کا کونسا بھلا ہے؟۔اور مصلحت کیا ہے؟۔حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی بدامنی اور بدعنوانی کے ذمہ دار وہ ہی ہیں جو طویل عرصے سے اس صوبے پر حکومت کر رہے ہیں یا حکومت میں شریک رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ اب سندھ پیپلز پارٹی کا تعلق ہے۔جناب قائم علی شاہ صاحب جیسے عمر رسیدہ سیاست دان کو قائم و دائم رکھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’وہ‘‘ عوام اور ان کے مسائل سے کتنے سنجیدہ ہیں۔
اسمبلی میں قرار داد پیش کرنا اور پلک جھپکتے اسے منظور کر لینا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے کراچی میں نہیں بلکہ دوبئی میں ہوتے ہیں۔ بلکہ پوری پوری کابینہ کے اجلاس اب تو وہاں ہی منعقد ہو رہے تھے۔ پچھلے دنوں وہاں کے حکمرانوں کی طرف سے دبے دبے الفاظ میں تحفظات کا اظہار ہوا تو اب لندن کے ایک ہوٹل کو یہ اعزاز نصیب ہو رہا ہے۔یہ ہے جمہوریت جو اٹھتے بیٹھتے عوام کی رگوں میں انڈیلی جا رہی ہے۔ایسا تو غیر قانونی مافیا والے بھی نہیں کرتے۔
وہ میٹنگ انڈر گراونڈ ضرور کرتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے پڑوسی ممالک اور دوردراز کے یورپی ممالک کا رخ نہیں کرتے۔اس لیے کہ وہ غیر قانونی سہی مگر اپنی کمائی کو خون پسینے جیسی سمجھتے ہیں۔ اس طرح بے رحمی سے نہیں اُڑاتے اس کا حساب رکھتے ہیں۔گذشتہ دنوں میں نے عالمی مذاکرات کار جناب فیصل محمد صاحب کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہ وہاں سے بہت ساری کارآمد خبریں مل جاتی ہیں۔وہاں سے معلوم ہوا کہ معاملہ صرف ڈاکٹر عاصم کا نہیں ہے بہت جلد پی پی کی صفوں سے ایک اور صولت مرزا برآمد ہونے والے ہیں۔اور کچھ دیگر بڑی مچھلیاں بھی جال میں آنے والی ہیں۔ وہ بھی جو سمجھتی ہیں کہ وہ جال توڑ کرخود کو گہرے سمندروں میں محفوظ کر چکی ہیں۔
دوسری طرف خطے میں رونما ہونے والے حالات میں بھی امان طلبی کے سامان تلاش کیے جا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک بڑے عرب ملک میں تیس سے زیادہ مسلم ممالک کا فوجی اتحاد قائم ہونے کی خبر ملی۔ ایسا مسلم ’’ اتحاد‘‘ جس کی جڑوں میں فرقہ واریت کی سوچ کارفرما ہو ، کونسے امن اور خیر کی یقین دہانی کروا سکتا ہے؟ اس نام نہاداتحادکا حصہ بننے کے لیے پاکستان کو اتنی عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ یمن کے خلاف جنگ میں پاکستان کا موقف مدبرانہ تھا۔اور یہی درست راستہ تھا جس کا اس وقت پاکستان نے انتخاب کیا تھا۔
اب جو عسکری بنیادوں پر اتحاد وجود میں آیا ہے ۔اس میں ایران۔عراق۔ شام۔اور لبنان شامل نہیں ہیں۔اس کی بنیادی وجہ فرقہ وارانہ سوچ ہے۔ یہ بنیادی طور پر تقسیم ہے اتحاد ہر گز نہیں۔ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو ایٹمی قوت ہے اور ایک مضبوط ترین فوج رکھتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بہت ہی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔
سابق صدر جناب آصف علی زرداری کا حالیہ دؤرہ سعودی عرب اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ جناب زرداری ایران کی گڈ بُک میں ہیں۔لگتا ہے میاں صاحب کے ایما پر انہیں ایران اور سعودیہ کے درمیان بڑھتے ہو فاصلے مٹانے کے لیے کوئی کردار سونپا گیا ہے۔ یہ فاصلے جو بنیادی طور پر بعدالمشرقین کی طرح ہیں۔کم نہ بھی ہوئے تو عین ممکن ہے ملک کے اندر ان کی طرف بڑھتے ہوئے سائے کچھ دیر کے لیے ان کا پیچھا چھوڑ دیں۔اور کہیں نہ کہیں سے امان کو کوئی صورت نکل آئے۔
♣