عظمیٰ اوشو
پہلے والی حکومتیں خزانہ لوٹتی تھیں اب والی عزتیں لوٹتی ہیں ۔یہ کہنا ہے 37 سالہ اس متاثرہ خاتون کا جو نوشہرہ کے علاقہ بلو ویلج تھانہ اکبر پورہ کی حدود میں رہائش پذیر ہے ۔اس عورت کا جرم ہیلتھ ورکر ہونا ہے اور پولیو کے قطرے پلانا ہے ۔اسے کئی بار عجب نامی شخص نے پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا مگر یہ اپنا فرض نبھاتی رہی ۔
کوئی ڈیڑھ ماہ قبل رات کو اس کے گھر پانچ افراد گھس آئے ان میں دو پولیس اہلکار تھے اور وردی میں ملبوس تھے۔ انہوں نے اس کے پانچ بچوں اور شوہر کے سامنے اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا ور جاتے ہوئے یہ کہہ کر گئے جو عجب خان اس سے کہتا تھا کہ پولیو کے قطرے پلانے بند کرو۔
اس واقعہ کی فوری طور پر اطلاع پولیس کودی گئی پولیس موقع پر آئی موقع دیکھا اور جسے پتہ چلا کہ اس میں ہمارے پیٹی بھائی ملوث ہیں تو چلتے بنے۔ متاثرہ خاتون نے کہا کہ مجھے ساتھ لے جائیں تو کہنے لگے ایس ایچ او نہیں ہے صبح آنا ظلم کا شکار خاتون صبح پانچ بجے تھانے پہنچ گئی مگر ایس ایچ او خواب غفلت سے سات بجے بیدار ہوئے او رالٹا ڈرا دھمکا کے متاثرہ عورت کو واپس بھیج دیا اور پھر پولیس کی بے حسی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔
متاثرہ ہیلتھ ورکر بار بارقانون نافذ کرنے والوں سے انصاف مانگتی رہی مگر انصاف توشاید پاکستان میں صرف طاقتوروں کا پانی بھرتا ہے ایک عام پاکستانی کے لیے اس کا حصول بہت مشکل ہے ۔اس کشمکش میں 21 دن بیت گئے۔ 21دن بعدایف آئی آر درج ہوئی اور اس میں کمال چلاکی کرتے ہوئے نہ زبر جنسی (زنا بالجبر) کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی پولیس اہلکاروں کا ،اور پھر وقوعہ کے 30دن بعد میڈیکل کا آرڈر کیا گیا اب میڈیکولیگل کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ایک شادی شدہ عورت جس کے پانچ بچے بھی ہیں 30 دن کے بعد میڈیکل سے کیا حا صل ہو گا یوں بڑی مہارت سے ایک ٹھوس ثبوت کو ختم کر دیا گیا۔
پھر سول سوسائٹی کے چند ساتھیوں کی مسلسل کوشش سے ڈی آئی جی نے ایف آئی آر میں زبر جنسی کی دفعات کو شامل کیا گیا ۔اور ایک ملزم عجب خان کو گرفتار کیا۔ عجب کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ وہ بنوں جیل سے فرار ہونے والے دہشت گردوں میں سے ایک ہے اور کافی عرصہ سے تھانہ اکبر پورہ کی حدود میں رہائش پذیر ہے اور پولیس کی وردی میں ہی ملبوس رہتا ہے ۔اب اس کیس کو دیکھا جائے تو کتنے اداروں کے پول کھلتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو خیبر پختونخواہ کی پولیس کے بارے میں دعووں پر کیا نوحہ زنی کی جائے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پولیس کلچر تبدیل ہو گیا ہے۔ کیا بلڈنگز صاف ستھری ہو جا نے سے کیا سوچ بھی بدل سکتی ہے یقیناًنہیں۔ پورے ملک میں نہ صرف پولیس بلکہ تمام ریاستی ادارے خاص طور پر قانون نا فذ کرنے والے ادارے عورتوں کے حوالے ایک ہی سوچ کے حامل ہیں۔ کسی عورت کا ان ریاستی اداروں سے واسطہ پڑ جائے تو ان کی ساری حیوانیت کا پول کھل جاتا ہے ۔بے شمار ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں قانون نافذکرنے والے اور تحفظ کے ذمہ دار عزتوں کے کھلاڑی بن جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے رونما ہونے سونیا ناز اور عظمیٰ ایوب جیسے کئی واقعات کی مثال موجود ہے مقدمات میں ملوث عورتوں کی اکثریت کے ساتھ تھانوں کے اندر زبر جنسی کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور یوں نہ انصافی کا نہ رکنے والا سلسلہ چلتا جا رہا ہے ۔اور یوں وردی میں ملبوس یہ درندے ایک کے بعد ایک عورت کو نشانہ بناتے جارہے ہیں۔
دوسرا عجب خان کی گرفتاری سے نیشنل ایکشن پلان کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا ہے جیل سے فرار دہشت گرد پولیس کی وردی میں پناہ لیے ہوئے اس سوچ کی ترجمانی کر رہا ہے جسے ہم مغربی سازش کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ مغربی سازش یہ ہے کہ ہمارے بچے معذور نہ ہوں مگر دوسری طرف سوائے حوروں کے حصول کے زندگی کا مقصدکچھ نہیں ۔ایسی ظلم کی بے شمار داستانیں یہاں روز رقم ہوتی ہیں مگر آواز اٹھانے والے بہت کم ہیں جس کی وجہ سے قانون کے پاس دار وہ اختیار بھی استعمال کرتے ہیں جس کی اجازت انہیں کوئی قانون نہیں دیتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور وردی میں چھپے ان ننگے اور بے ضمیر لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے اور ظلم کے اس سلسلے کو توڑا جائے ۔حکمرانوں کو چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے احتساب کا بھی کوئی میکنزم بنایا جائے ۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ تھانہ اکبر آباد کے تھانیدار کو فوری معطل کیا جائے اور اس واقعہ میں ملوث پولیس والوں کو فوری گرفتار کیا جا ئے ۔
♣