ارشد نذیر
کچھ دنوں سے سوچ رہا تھا کہ’’ صنف ‘‘اور ’’صنفی آزادی‘‘ کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ ویسے تو یہ خیال مہینوں قبل سے جب میں نے سمیون دی بووا کی تصنیف ’’عورت‘‘ پڑھی، میرے ذہن میں گھر کئے ہوئے تھالیکن عدالتوں میں مقدمات کی ’’چخ چخ، بک بک اور یخ یخ‘ ‘ ، گھریلو مسائل اور اپنی ذات کی الجھنیں کچھ ایسی تھیں کہ طبیعت میں یکسوئی آہی نہیں رہی تھی۔ محسوسات کی خیالات میں صورت گری کا عمل ذہن کے صحن میں ایک حسین اور الہڑ دوشیزہ کی طرح چھپن چھپا کھیلتا ہوا کبھی دائیں ہیمی سفیئر سے جھانکتا اور کبھی بائیں ہیمی سفیئر سے آنکھ مار کر ہوا ہو جاتا۔ ذہن کو بالکل ایسے کچھ سمجھ نہ آتا جیسے ’’مشرقی عورت‘‘ ساری زندگی’’ مشرقی مرد ‘‘کی سمجھ میں نہیں آتی۔
میرے خیال میں یہاں تک کی گئی میری گفتگو سے بھی میرے میل شاؤنسٹ دوستوں کے اپنی اپنی آراء ہوں گی اور فیمینسٹ جن کو میں یہاں ’’دوست‘‘ ہرگز نہیں لکھ سکتا( اگرچہ بہت ساری فیس بک پر میری ’’دوست ‘‘ہی ہیں) کیونکہ اگر میں نے انہیں دوست لکھ دیا تو یہاں سے ’’ان گنت ‘‘ تنازعات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس کی وجہ ہمارا سماجی ماحول ہے، خود عورت ہے یا مرد یا کوئی تیسری طاقت (یہاں تیسری طاقت سے مراد امریکہ نہیں ہے) اس کا حتمی اور فیصلہ کن جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں سے ہی ایسے تنازعات کی ابتدا ہوتی ہے کہ میرے خیال میں کم ازکم ان تنازعات کے لئے پاکستان میں ایسا کوئی ماہرِ عمرانیات نہیں ہے جو اس طرح سے جنم لینے والے مسائل کا کوئی شافی حل بتائے۔
ہمارے ہاں اسلام کا غلبہ ایسا ہے کہ یہاں عورت کو’’ کھلنے‘‘ ہی نہیں دیا جاتا۔ یہاں لفظ ’’کُھلنا‘‘ہر اُس معنی میں استعمال کیا گیا ہے جو قاری کے ذہن میں آسکتا ہے۔ ہمارے ہاں کے پیارے پیارے اسلامی بھائی عورت کے کھلنے سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ کو ہی ایسا ’’کُھول ‘‘ کے رکھ دیتے ہیں کہ تمام مائیں اپنے بیٹوں ، خاوندوں یا کسی دیگر مرد کی دخل اندازی کے بغیر ہی بچی کی ابتدائی سالوں کی تربیت میں ہزار ہا قدغنیں لگا دیتی ہیں۔ ’’تم نے زیادہ کھلکھلا کر ہنسنا نہیں‘‘، ’’ اپنے ستواں بدن اور ابھاروں کو یوں چھپا کر رکھنا ہے ‘‘ ’’ زیادہ فری نہیں ہونا۔‘‘ ’’مردوں سے پرے رہنے ہے۔‘‘ ، ’’تمہیں اُٹھنا کیسے ہے اور بیٹھنا کیسے ہے‘‘، ’’تم نے مرد کی عزت کرنے ہے۔‘‘ ، ’’عورت کمزور ہوتی ہے۔ مرد عورت کے حکمران اور قوام مقرر کئے گئے ہیں۔ ‘
‘ لہٰذا یہ کلی پھول بن کر بھی مکمل طور پر نہیں ’’کھلتی‘‘۔ اس بارے میں ان کی تفہیم یہ ہے کہ کیونکہ عورت یعنی ’’مستور‘‘ جس کا صیغہ جمع ’’مستورات‘‘ ہے اپنے تمام معنی اور مفہوم میں ’’ڈھکی چھپی‘‘ چیز ہے اس لئے خبردار اس کو کُھولنے اورکُھلا چھوڑنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس دنیا میں عورت کے ’’کھُلنے‘‘ ، ’’کُھولنے ‘‘ یا ’’کھیلنے‘‘ یا ’’کُھلاچھوڑے جانے‘‘ سے انہیں شدید چِڑہے۔ ان کے بقول اس طرح پورا اسلا م ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ البتہ انہیں شوہر بوقتِ ضرورت، بلاضرورت اور حالتِ اشتہاء میں جب چاہیں جس طرح چاہیں ’’کھول‘‘ سکتے ہیں۔ البتہ حکم یہ ہے کہ تمام بتیاں گل کر لیں جائیں اور چادر ڈالی لی جائے۔ عورت سے ربط و ضبط اور راہِ و رغبت پیدا کرنے کے یہ طریقے درمیانہ طبقوں میں عام ہیں۔
طبقات میں بٹے ہمارے اس سماج کا رویہ عورت کے بارے میں انتہائی مختلف ہے۔ عورت کے ’’کھلنے ‘‘ یعنی اُس کی خود رو اور آزادانہ بطور انسان پرورش نچلے درمیانے ، اوسط درمیانے اور اوپر کے درمیانے طبقے اور اشرافیہ طبقے سب میں ہی مختلف ہے۔ نچلے طبقے میں چونکہ غربت اور صحت کے مسائل مستقل رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچی کی پرورش میں بہت زیادہ تصنع کا لایاجانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے ان میں نسوانیت یا عورت پن کا بیوپار کم کم ہی نظر آتا ہے ۔البتہ کسی قدر عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی ان کے ہاں بھی موجود رہتی ہے۔تاہم چونکہ اس طبقے کو دوسروں کی طرف سے انگشت نمائی کا کوئی ڈریا خوف نہیں ہوتا، اس لئے نچلے طبقے کی اکثر عورتیں نہ صرف ’’کھلی ‘‘ ہوتی ہیں بلکہ ’’کھلی ڈھلی ‘‘ ہوتی ہیں۔ وہ واقعی مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری بھی کرتی ہیں اور اپنے عورت پن کو کیش بھی نہیں کراتیں۔ الغرض ’’کھلاڈھلا‘‘ پن ان کی اپنے مردوں کے ریجھانے ، پیار ومحبت جتلانے اورعملی زندگی میں محنت ومشقت کی ضرورت ہوتا ہے۔ یہی اُن کی زندگی کا زیور ہے اور یہی اس قدر تلخ زندگی بسر کرنے کا راز بھی۔
متوسط طبقے کے ثقافت اور تہذیب کے ٹھیکیدار اور ملکیت کی نفسیات کے حامل لوگوں کے ہاں زن، زر اور زمین ہی زندگی کی تین بنیادی حقیقتیں ہیں۔ لہٰذا ان کے ہاں عورت ایک شئے ہوتی ہے اور اس کی تمام تر تربیت میں اس کو اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور یہ طبقہ عورت کے ساتھ بطور انسان رویہ روا رکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔ وہ اسے گوشت پوشت کے بنے انسان جس کے اپنے احساسات و جذبات ہوتے ہیں سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہ طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ سماج کی اعلٰی اقدار اور رویات کا امین ہے جو اُن کی ثقافت ، کلچر اور تہذیب ہے اور اس میں عورت کا ایسا ہی مقام متعین ہے اور وہ ان روایات کے پاسدار ہیں ۔ انہیں عورت کو اسی طرح ڈھالنا چاہئے۔لہٰذا وہ عورت کی تربیت ہی اُسی انداز میں کرتے ہیں۔
ان کے لئے مرد اور عورت دو مختلف سماجی وظائف کے ساتھ دنیا میں بھیجے گئے ہیں ۔ عورت نامی شئے کے وظائف میں ایک وظیفہ جنسی لذت کا بھی ہوتا ہے اس سے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ مرد اس جذبے کے حوالے سے اندھا ہوتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ عورت اپنے اس جذبے کو ایک ’’قیمتی اور نایاب چیز‘‘ خیال کرتے ہوئے آسانی سے نہ ’’کھلے‘‘ بلکہ ’’کھلنے‘‘ کے اس عمل کا کچھ معاوضہ وصول کرے۔ وہ معاوضہ مادی اشیاء گھر ، گاڑی ، پیسہ اور دنیا کی تمام آسائشوں کی شکل میں تصور کر لیا جاتا ہے ۔ ایسا تصور کرنے پر کوئی معاوضہ نہیںآتا اس لئے ایسی خواہشات اور ان کی تکمیل کے ممکنات کی آڑ میں مرد اور عورت کے درمیان تعلقات قائم کئے جانے کا یہ سارا فلسفہ گھڑا جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلسفے میں سے خود ’’انسان ‘‘ اور ’’انسانی جذبات‘‘ غائب ہیں ۔ پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنے والے استحصالی طبقے کو یہ فلسفہ بہت وارے آتا ہے۔ وہ اس فلسفے کی بقاء اور ارتقا ء کے لئے جدید میڈیا اور ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح مرد اور عورت میں سماجی فریق کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔ مرد کو عورت جیسی ’’شے‘‘ کے پیچھے لگایا جاتا ہے اور عورت کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ مرد اس کی مادی خواہشات پوری کرنے والی ایک مشین ہے۔گرہستی کرنے والی خواتین اور تعلیم سے فارغ ہونے والی نوجوان لڑکیوں کے لئے تو دوچار ملاقاتوں میں عورتیں کھلا نہیں کرتے والی جذباتی کیفیت تا دیر قائم رہتی ہے ۔ تاہم ملازمت پیشہ خواتین کے عملی زندگی میں آنے کے بعد ان سماجی تضادات کی سمجھ آتی ہے ۔ لیکن وہ نہ انہیں حل کرسکتی ہیں اور نہ ہی حل کرنا چاہتی ہیں۔
ہمارے ہاں اشرافیہ طبقے کی خواتین کی تربیت بھی ’’انسان ‘‘کی طرح کم اور’’ شے‘‘ کی طرح زیادہ کی جاتی ہے۔ ہاں البتہ ان خواتین کو دوسری خواتین کا استحصال کرنے کے لئے آلہِ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتداء میں ان کی اس پرورش میں طبقاتی اونچ نیچ کے طور پر کی جاتی ہے۔ پھر وہ خود اس میں اس طرح راسخ ہو جاتی ہیں کہ یہ استحصال ان کے موجودہ سٹیٹس کا ضامن بن جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں عورت ہی عورت کا استحصال کرتی ہے اور اس کو قطعاً غیر اخلاقی اور مبنی بر ناانصافی نہیں گردانتی۔ حالانکہ کتابی دنیا، انسانی حقوق اور مذہب میں اُن کے اس استحصال کو ظلم اور زیادتی ہی سمجھا جاتا ہے۔
انہی اشرافیہ میں سے ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی ہے جن کے لئے پاکستان جیسے ملک میں بھی جنسی اور صنفی تفریق بے معنی سے الفاظ ہیں۔ وہ اپنے رکھ رکھاؤ ، برتاؤ اور ’’کھلنے ‘‘ کے عمل میں مرد سے بھی زیادہ آزاد ہوتی ہیں۔ ہر وہ فعل جو اوپر بیان کردہ متوسط طبقے کی ثقافت میں ’’بے راہ روی اور گناہ‘‘ تصور ہوتا ہے ، ان کے ہاںیہ جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے اور سوشلائزیشن کا ایک عمل ہوتا ہے۔ ان کی عزت و غیرت ہی اسی میں ہوتی ہے۔ یہ عورتیں نہ صرف عورتوں کو ’’کھولنا ‘‘ جانتی ہیں بلکہ ان کے ’’کُھل جانے کے اس عمل‘‘ سے بڑے بڑے ’’مرد کے بچوں‘‘ کے ماتھے ٹھک جاتے ہیں۔ یاد رہے یہ مثال کسی مغربی معاشرے کی نہیں ہے بلکہ ہمارے پاکستانی معاشرے ہی کی ہے۔ بس ہمارے اس عورت کے سامنے مادی زندگی کے تمام زار سربستہ ہو جاتے ہیں اور وہ تمام تر آسائشیں حاصل کرنے کے وہ تمام طریقے استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتی ہے جو مرد استعمال کرتا ہے۔
تضادات سے بھر ے اس معاشرے میں عورت کے یہ تمام روپ موجود ہیں ۔ لیکن حقیقی عورت غائب ہے۔ کتابِ زیست ،جس میں حقیقی خوشی، غم، راحت ، آرام ، تکلیف ، زندگی اور موت کے تمام جذبات ہوتے ہیں، کو کھولنے کے لئے عورت کی ایک انسان کے طور پر پرورش کرنا ضروری ہے نہ کہ بطور ایک جنس اور شے کے۔ جب تک اس بنیادی نکتے کو نہیں سمجھا جاتا ’’کُھلنے ۔کھلانے‘‘ کا یہ عمل تکلیف دہ ہی رہے گا۔ نہ قوانین سے اس استحصال کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی کھوکھلی نعرہ بازی سے۔
♣