ذوالفقار علی زلفی
“اگر نوتن کی جگہ کوئی لے سکتی ہے تو وہ بلاشبہ “سادھنا” ہوگی“…یہ الفاظ ہیں ھندی فلموں کے اسکول اور ممتاز ہدایت کار “بمل رائے” کے…..
دو ستمبر 1941 کراچی کی خوبصورت فضاؤں میں سادھنا شوداسانی نے ایک سندھی گھرانے میں جنم لیا….ابھی وہ بچپن کی بے خوف زندگی سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہوپائی تھی کہ ہندوستان مذہبی بنیاد پر دو حصوں میں بٹ گیا اور اس بٹوارے نے سادھنا کی زندگی میں ہجرت کا پیوند لگا دیا , وہ اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر ممبئی پہنچ گئیں….
ان کے چچا ھری شاداسانی ممبئی انڈسٹری کے اداکار تھے۔ سو اداکاری کے جراثیم ان کو گھر سے ہی منتقل ہوگئے , ان کی کزن “ببیتا” جو بعدازاں معروف اداکار رندھیر کپور کی باصلاحیت بچیوں کرشمہ کپور اور کرینہ کپور کی ماں بنی بھی اسی بیماری میں مبتلا تھیں…سادھنا نے چچا اور کزن کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا….
ابھی وہ صرف پندرہ سال کی تھیں کہ ان کے والد کی وساطت سے انہیں لیجنڈ راج کپور کی فلم “شری 420″ کے گانے “مڑ مڑ کے نہ دیکھ مڑمڑ کے” میں ایک چھوٹا سا کردار مل گیا ، مگر یہ نہ خوابوں کی منزل تھی اور نہ ہی تعبیر البتہ وہ نظروں میں آگئی اور جلد ہی انہیں ھندوستان کی پہلی سندھی فلم “ابانا” کی آفر مل گئی….ابانا ان کیلئے خوش قسمتی کا دروازہ ثابت ہوئی کیونکہ انہی دنوں فلمایا اسکول کے بانی ایس مکھر جی جو نئے چہروں کی تلاش میں تھے کی نظر ایک میگزین میں چھپی سادھنا پر پڑگئی….انہوں نے سادھنا کو اپنی فلم “لو ان شملہ” میں کاسٹ کرلیا…..فلم کے ہدایت کار آر.کے نیئر تھے جن کے ساتھ ان کا یہ پہلا تعلق شادی پر منتج ہوا…..”لو ان شملہ” کی شوٹنگ کے دوران عظیم ہدایت کار بمل رائے نے ان کو اپنی فلم “پرکھ” میں کاسٹ کرلیا….
“لو ان شملہ” گوکہ ہٹ ثابت ہوئی لیکن اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو سادھنا کی اداکاری کے جلوے “پرکھ” میں نظر آتے ہیں جس کی ایک وجہ غالباً بمل رائے بھی ہیں کیونکہ بمل رائے فلم کو ایک آرٹ کی طرح استعمال کرنے کے قائل تھے اور وہ اداکاروں سے صرف اداکاری ہی نہیں کرواتے تھے بلکہ ان کو اس فن کے اسرار و رموز بھی سکھاتے تھے….سادھنا نے اداکاری کی باریکیوں کو انہی سے سمجھا اور سیکھا جو مستقبل میں ان کی شہرت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کا سبب بنیں….
بمل رائے ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ابھی “پرکھ” نے پردہ دیکھا نہ تھا کہ انہوں نے ان کو اپنی اگلی فلم “پریم پتر” کیلئے بھی چن لیا…..
یہ وہ دور تھا جب انڈسٹری پر مینا کماری , نرگس , مدھوبالا اور نوتن جیسی باصلاحیت اداکاراؤں کا راج تھا ایسے میں سادھنا کیلئے جگہ بنانا یقینا دشوار تھا مگر وہ کہتے ہیں نہ جہاں چاہ وہاں راہ….کراچی کی یہ عام سی سندھی لڑکی یکایک ور اسٹائل اداکارہ بن گئیں….بمل رائے نے انہیں نوتن کا جانشین قرار دیا جبکہ مینا کماری نے ان کو دوسری مینا کماری سے تشبیہہ دی…..
دیو آنند اور راجیش کھنہ کے بعد اگر کسی نے عوامی انداز اور فیشن کو بدلنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے تو یقیناً وہ سادھنا ہی ہیں….ان کا ماتھا کافی چھوڑا تھا اسلیے انہوں نے ہالی وڈ کی معروف اداکارہ Audrey hepburn کی طرح ماتھے پر بالوں کے چھوٹے چھوٹے لٹ بکھیرنے کا انداز اپنایا ان کا یہ ہیئر اسٹائل نوجوان لڑکیوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ نہ صرف ان کے اس انداز کو بڑے پیمانے پر اپنایا گیا بلکہ اس اسٹائل کا نام بھی “سادھنا کٹ” پڑ گیا…..
“لو ان شملہ” سے جو فلمی سفر انہوں نے شروع کیا اس کی بلندی “میرے محبوب” اور “اصلی نقلی” جیسی سدا بہار فلموں کو کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو….میرے محبوب میں انہوں نے ایک مسلمان لڑکی کے کردار میں ناظرین کے دل موہ لیے….
سادھنا کی اداکاری ان کے چہرے کے متغیر تاثرات اور آنکھوں کے اشاروں سے مزین تھی اس لیے بعض اوقات وہ ڈائیلاگ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ سنا دیتیں غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کو “حسن کی خاموش ملکہ” کا خطاب دیا گیا….
انہوں نے گوکہ اپنے دور کے تقریباً تمام اداکاروں جیسے منوج کمار , دھرمیندر , راجندر کمار , دیوآنند , راج کپور وغیرہ کے ساتھ کام کیا مگر ان کی جوڑی کو سب سے زیادہ راجندر کمار اور دیو آنند کے ساتھ پسند کیا گیا…..تاہم ان کے اپنے بقول دیوآنند کے ساتھ کام کرکے انہیں ہمیشہ یہ احساس رہا کہ میں اداکاری کی دنیا میں نوآموز ہوں کیونکہ دیو جی فنکار ہی نہیں اداکاری کے اسکول بھی ہیں…..
گیت اور رقص کو ہندی فلموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے…..کسی اداکارہ کیلئے باکمال رقص بہت اہمیت رکھتا ہے اس میدان میں انہوں نے اپنے نام کے جھنڈے تو گاڑنے ہی تھے مگر وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گئیں۔ انہوں نے بعض گیتوں میں صرف انداز اور چہرے کے تاثرات کی مدد سے اپنی موجودگی منوائی….بالخصوص فلم “راجکمار” اور “آرزو” میں , فلم آرزو کے اس گانے میں ان کے انداز کو بھلا کون بدزوق فراموش کرسکتا ہے “اجی روٹھ کر اب کہاں جائیے گا“…..فلم راجکمار میں انہوں نے ھندی فلموں کے زبردست ڈانسر شمّی کپور تک کو پچھاڑ دیا…..
70 کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے فلمی دنیا کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا…..گوکہ یہ ان کے کیریئر کے عروج کا دور تھا مگر جوانی پر ادھیڑ عمری کی شام بس ڈھلنے کو تھی اور انہیں یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ ان کے “سادھنا کٹ” امیج کو کوئی گزند پہنچے اس لیے راج کھوسلہ نے جب ان کے ساتھ “تلسی تیرے آنگن” کی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے انکار کردیا….
بعد ازاں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ بہن , بھابھی اور ماں کے کردار میں آکر اس تصور کو مسخ نہیں کرنا چاہتی تھی جو فلم بینوں کے ذہنوں میں قائم ہے….
فلمی دنیا کو الوداع کہنے کے بعد انہوں نے دوبارہ پلٹ کر نہ دیکھا بس وحیدہ رحمان , عائشہ پاریکھ اور دیگر ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ ہی مختصر رابطہ رکھا……
“حسن کی خاموش ملکہ” عمر کی 74 بہاریں دیکھنے کے بعد 25 دسمبر 2015 کو عین کرسمس کی صبح دنیا کو بھی ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ گئیں…
ان کی اداکاری اور سادھنا کٹ کا جادو بہرحال قائم رہے گا….
♣