یاسر ارشاد
16دسمبر سے پہلے ہی ذرائع ابلاغ میں سانحہ پشاور پر ریلیز ہونے والے گیت کی تشہیر اس طرح سے جاری ہے جیسے ہالی ووڈ کی کرسمس پر ریلیز ہونے والی فلم کا ٹریلر جاری ہوتا ہے ،یا جیسے بالی ووڈ کی دیوالی یا ہولی پر ریلیز ہونے والی کسی فلم کی تشہیر ی مہم چلائی جاتی ہے۔ یوں تو پاکستان میں سینکڑوں دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں پھر بھی کسی ایک واردات کو اپنے مخصوص مفادات کے لئے خاص تشہیر دی جاتی ہے ۔
سانحہ پشاور کے ہر اس پہلو کی حد سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے جس سے یاس و ماتم کے ذریعے پہلے سے دکھی عوام الناس کو مزید مجروح کیا جا سکے ۔کچھ مہان دانشور 16دسمبر 2014ء کو پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں اور اساتذہ کے وحشیانہ قتل کی واردات کا زائچہ اور کنڈلی 16دسمبر 19971ء میں ہونے والے سقوط ڈھاکہ (بنگلہ دیش کی علیحدگی ) کے سانحے سے ملا کر دونوں واقعات کے پیچھے ملوث مبینہ دشمن (بھارت) کو ذمہ دار ٹھہرا کر حب الوطنی کے چمپیئن بن رہے ہیں ۔اگر ایسا واقعی ہے تو پھر ساری گتھی ہی یوں سلجھ جاتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ بھی برا ہوتا ہے اس سب میں بھارت ملوث ہے ۔
سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلے کی آفات ،لوڈشیڈنگ کا عذاب ہو معاشی بحران،بیروزگاری ہو یا مہنگا علاج ،کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو یا بلوچستان میں بد امنی تمام مسائل یا تو برائے راست یا بالواسطہ بھارت کے ہی پیدا کردہ ہوں گے ۔المیہ صرف پاکستان کی دانش کا بانجھ پن نہیں ہے بلکہ اس ملک کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی المیہ داستان ہے ۔اس ملک کا جنم لاکھوں لوگوں کی قتل و غارت اور مزید لاکھوں کی اذیت ناک ہجرت اور بے گھر ی سے عبارت ہے ۔
پھر اس کے بعد کی تاریخ میں بھی سانحات اور المیے ہی حاوی رہے ۔جمہوریت پر شب خون اور آمریت کی مضبوطی کا ماتم 6دہائیوں سے جاری ہے ۔بنگلہ دیش کی علیحدگی پھر ایک بڑا قومی سانحہ تھا ۔بلوچستان کی تحریک آزادی سے لے کر سندھی اور پشتون قومی علیحدگی کی تحریکیں پاکستانی قوم کے تشکیل نہ پاسکنے کے روگ بن گئے ۔پورے کشمیر پر سامراجی قبضے کی نامراد خواہشات ایک اور ناسور بن چکا ہے ۔افغانستان کو اپنی گماشتہ ریاست میں تبدیل کرنے کی تمنا کو پورا کرنے کیلئے سامراجی ایما ء پر 1978ء کے افغان ثور انقلاب کو تاراج کرنے میں پاکستانی ریاست نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ۔
ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد کو منظم کیا گیا جس نے افغانستان کے سماج کے ساتھ ساتھ پاکستان اور پوری دنیا میں دہشت گردی کے عفریت کی نشو و نما کی ۔ڈالر جہاد کی ضروریات پورا کرنے کیلئے ہیروئن کی سمگلنگ سمیت اغواء برائے تاوان اور دیگر مجرمانہ کاروباروں کو فروغ دیا گیا ۔آج اسی کالے دھن کے حصول کی لڑائی پورے پاکستانی سماج کو برباد کر رہی ہے ۔لیکن کمال عروج پر ہے ہمارے اہل دانش کا بانجھ پن کہ ہم دہشت گردی کے آغاز کا باعث بننے والی حکمرانوں کی پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ہر جرم کو کسی کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے طفلانہ کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں ۔سقوط ڈھاکہ کی بھی اسی طرح کی ایک جھوٹی کہانی ضمیر فروش دانش کے ذریعے مسلط کی گئی ہے ۔
افغانستان میں ڈالر جہاد کے پیچھے نور محمد ترکئی کی قیادت میں آنے والا اپریل 1978ء کا انقلاب تھا جس نے پہلی بار افغانستان سے قبائلیت ،جاگیرداری اور کسی حد تک سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا تھا ۔اہم سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گردی جس کا آغاز سامراجی پشت پناہی اور ریاستی آشیر باد سے ہوا تھا ،یہ اس حمایت کے بغیر زندہ کیسے رہ سکتی ہے ؟اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جتنا شور ساری دنیا میں مچایا جاتا ہے ،کیوںیہ دہشت گردی اتنی ہی پھیلتی جا رہی ہے ؟درحقیقت دہشت گردی کے خلاف جنگ دنیا بھر میں حکمرانوں کا رچایا ہوا ایک جھوٹا ناٹک ہے ۔
محدود پیمانے پر ہر ریاست صرف ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو اس کی مخالف کسی دوسری ریاست کے پالتو ہوں ۔ہر ریاست اپنے پیدا کردہ اور پالتو دہشت گردوں کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے اور انہیں اپنے سامراجی مقاصد کو پورا کرنے کیلئے آج پہلے سے زیادہ استعمال کرتی ہے ۔دوسرا مجموعی طورپر ان رد انقلابی اور رجعتی قوتوں کو محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں کو سبوتاژ کرنے اور محنت کش طبقے کو خوف زدہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اسلام آباد کے دل میں بیٹھ کر داعش کی کھلے عام حمایت کرنے والوں کو کوئی پوچھ نہیں سکتا اور ضرب عضب کے ذریعے راحیل شریف کو نجات دہندہ بنایا جا رہا ہے ۔تاریخی طور پر ہر قسم کی دہشت گردی سرمایہ داری نظام کے بحران اور زوال کا نچڑا ہوا عرق ہے ۔اس لئے جب تک یہ زوال پذیر نظام باقی ہے دہشت گردی کا خاتمہ نہ تو مذاکرات کے ذریعے اور نہ ہی کسی آپریشن کے ذریعے ممکن ہے ۔پھر دہشت گردی کی اس آڑ میں اربوں ڈالر ز کے کالے دھن کا ایک کاروبار ہے جو سالانہ دس فیصد کی اوسط سے ترقی کر رہا ہے ۔اسی لئے کالی دولت کی اس بہتی گنگا سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے چکر میں دوستیاں اور دشمنیاں مسلسل تبدیل ہو تی رہتی ہیں ۔وفادار غدار بن جاتے ہیں اور دشمن زیادہ مال ملنے کی یقین دہانی پر وفادار بن جاتے ہیں ۔
سانحہ پشاور کا سوگ منانے سے دہشت گردی کا کاروبار ختم نہیں ہو جائے گا نہ ہی اس کاروبار سے زیادہ مال بنانے کی لڑائی ختم ہوگی ۔دہشت گردی کے خاتمے کا واحد طریقہ ہے کہ اس کالے کاروبار کو ختم کیا جائے لیکن یہ کالا دھن تو اب خون کی طرح سرمایہ داری نظام کی شریانوں میں دوڑ رہا ہے ۔تمام ریاستی ادارے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں ۔دہشت اور لوٹ کا خون ریز کھلواڑ سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ختم ہو گا جو صرف محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک کی فتح مندی کے ذریعے ممکن ہو گا ۔حکمرانوں کا دہشت گردی کے خلاف آپریشن بھی ایک ناٹک ہے اور مذاکرات بھی ۔
♣