لیاقت علی ایڈووکیٹ
سنہ 1954میں بالی وڈنے ’ جاگرتی ‘کے نام سے ایک فلم بنائی تھی ۔ ’جاگرتی‘ 1949 میں بنی ستین بوس کی بنگالی فلم ’پری ورتن ‘ کا ہندی ری میک تھی ۔ ’جاگرتی‘ کے ہدایت کار بھی ستین بوس ہی تھے ۔ اس فلم کی کاسٹ میں ابھی بھٹا چاریہ ، رتن کمار ، محمود ، ممتاز بیگم ،راجکمار گپتا اورپرنوتی گھوش وغیرہ شامل تھے۔ کوی پردیپ نے اس فلم کے گیت لکھے اور موسیقار ہیمنت کمار نے ان گیتوں کو موسیقی سے سجایا تھا ۔
حب الوطنی کے موضوع پر بننے والی یہ فلم بھارتی فلم بینوں میں بہت مقبول ہوئی تھی ۔1956 میں اس فلم کو بیسٹ مووی آف دی ایئر اور ابھی بھٹا چاریہ کو بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا ۔ حب الوطنی کی تھیم پر مبنی اس فلم کے گیت آشا بھوسلے اور محمد رفیع نے گائے تھے ۔
آشا بھوسلے کی آواز میں اس فلم کا ایک گانا ’ دے دی ہمیں آزادی ‘جس میں مہاتما گاندھی کو ہندوستان کی تحریک آزادی میں ان کے رہنمایانہ کردار پر خراج تحسین پیش کیا گیا تھا بہت پاپولر ہوا تھا ۔فلم کے ایک سین میں سکول کے بچے گاندھی جی کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر یہ گیت گاتے ہیں ۔
محمد رفیع کا گایا ایک گیت(ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے) بھی بہت مشہور ہوا تھا ۔ اس فلم کے ایک اداکار رتن کمار ( اصل نام سید نذیر علی ) بوجوہ نقل مکانی کرکے پاکستان آگئے ۔ پاکستان میں چونکہ بھارتی فلموں کی درآمد اور نمائش پر پابندی عائد تھی چنانچہ انھوں نے اس پابندی کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے ’جاگرتی ‘ کا ہو بہو چربہ ’بیداری‘ کے نام سے تیار کردیا۔
’بیداری‘ کی کاسٹ میں رتن کمار ، سنتوش کمار ، راگنی ، مینا شوری ، انو رادھا اور قاضی واجد شامل تھے ۔ ’بیداری کے ٹائٹل پر بطور ہدایت کار رفیق غزنوی کا نام دیا گیا تھا تھے جب کہ ہیمنت کمار کی اوریجنل دھنوں میں ترمیم واضافہ کی ذمہ داری مشہور ستار نواز استاد فتح علی خان نے نبھائی تھی ۔
’جاگرتی ‘ کے ہندی سکرپٹ کو اردو کا لباس پہنایا گیا اور ساتھ ہی جن انڈین قائدین کو ’جاگرتی ‘میں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا ’بیداری‘ میں انھیں پاکستانی رہنماؤں سے تبدیل کردیا گیا ۔ ’جاگرتی ‘میں جہاں گاندھی کو دکھایا گیا تھا’ بیداری‘ میں وہاں قائد اعظم کا نام ڈال دیاگیا۔ جہاں تک گیتوں کا تعلق تھا تومعمولی رد وبدل کے ساتھ انھیں بھی ویسا ہی رہنے دیا گیا جیسا کہ وہ اوریجنل فلم میں تھے۔ بھارتی فلم میں گانے آشا بھوسلے اور محمد رفیع نے گائے تھے جب کہ پاکستانی فلم میں ہیمنت کمار کی دھنوں پر منور سلطانہ اور سلیم رضا نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا تھا ۔
’بیداری‘ دسمبر1957میں جب نمائش کے لئے سنیما گھروں میں پیش ہوئی تو پہلے چند ہفتے اس نے زبر دست بزنس کیا لیکن جونہی فلم بینوں کو یہ معلوم ہوا کہ’ بیداری ‘دراصل بھارتی فلم ’جاگرتی ‘کا ہو بہو چربہ ہے تو ان کا رد عمل بہت شدید تھا۔ بہت سے شہروں میں اس فلم کے خلاف مظاہرے ہوئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ اس پر پابندی عائد کی جائے ۔ عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے مرکز ی فلم سنسر بورڈ نے اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی تھی ۔
’بیداری‘ پر پابندی کے چار عشرے بعد نامعلوم وجو ہات کی بنا پر اس فلم میں شامل منور سلطانہ کا گایا ہوا گیت ’ یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ۔ ائے قائد اعظم تیرا احسان ہے ، احسان ۔ ایک بار پھر پی ٹی وی پر چلنا شروع ہو گیا ۔
’جاگرتی ‘ میں شامل اوریجنل گیت جو آشا بھوسلے کی آواز میں تھا وہ کچھ یوں تھا :’ دے دی ہمیں آزادی بنا خندق بنا ڈھال ‘۔ یہ جانے بغیر کہ یوں دی ہمیں دی آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ‘ بھارتی گیت کا چربہ ہے نہ صرف پی ٹی وی پر بلکہ بہت سے سرکاری ،غیر سرکاری اداروں ، سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ گیت بجایا اور گا یا جاتا ہے ۔
اس گیت کے چربہ ہونے سے آگا ہ کچھ افراد نے جب ایم ۔ڈی پاکستان ٹیلی ویژن کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو انھوں نے اس کے آن ایئر جانے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن اس پابندی کے باوجود اب بھی یہ گیت مختلف سرکاری فنکشنوں میں قائد اعظم کو خراج عقید ت پیش کرنے کے لئے بجایا جاتا ہے اور سکولوں اور کالجوں کے بچے اکثر و بیشتر اسے گاتے ہیں ۔
♣
One Comment