اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں چئیرمین کونسل مولانا محمد خان شیرانی اور علامہ طاہر اشرفی میں جھڑپ ہوئی۔
ڈان نیوز کے مطابق مولانا محمد خان شیرانی اور علامہ طاہر اشرفی کے درمیان جھڑپ اجلاس میں پیش کیے گئے ایجنڈا پر ہوا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایجنڈے میں پوائنٹ نمبر 13 قادیانوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ نقطہ مولانا اشرفی کے کہنے پر ڈالا گیا ہے.
ایجنڈے پر مولانا شیرانی نے کہا کہ قادیانی پاکستان کے آئین کے تحت غیر مسلم ہیں.
مولانا اشرفی نے مؤقف اختیار کیا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں لہذا اس کو ایک شخص کے نام سے کیوں منسوب کیا گیا ہے.
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ آپ خاموش رہیں ورنہ اجلاس سے نکال دیا جائے گا.
جس کے جواب میں علامہ طاہر اشرفی نے جواب میں کہا کہ آپ کسی رکن کو اجلاس سے نکالنے والے کون ہوتے ہیں.
اس کے بعد دونوں علماء میں زبانی تلخ کلامی کے بعد بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، کونسل کے دیگر ارکان نے بمشکل دونوں علماء کو الگ کیا اس دوران علماء کے گریبان کے بٹن بھی ٹوٹ گئے.
واضح رہے کہ کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ مولانا محمد طاہر محمود اشرفی پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین ہیں۔
اس واقعہ کے بعد کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ طاہر اشرفی نے ایجنڈے سے ہٹ کر بات کی، ان کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، وہ راستے میں کھڑے تھے ان کو راستے سے ہٹایا، علامہ طاہر اشرفی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
اس سے پہلے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ایجنڈے میں غیر مسلم، ذمی اور مرتد کے حوالے سے ایک نقطہ شامل تھا۔
انہوں نے وہ نکتہ سنایا کہ “اقلیتوں کے حوالے سے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ اقلیتیں پاکستان کی ذمی ہیں یا تشکیل میں برابر کی شریک ہیں، آئین کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، لیکن ان کو ارتداد کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں، اسی طرح کسی فرقے کی تکفیر کن اصولوں کے تحت کی جا سکتی ہے“۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے سوال کیا کہ مرزائیت اور قادیانیت کا مسئلہ دوبارہ کیوں زیر بحث لانا چاہتے ہیں، ملک کے حالات اس کے متحمل نہیں ہیں، اگر کونسل کی تشریح پر کسی نے جا کر لوگوں کو قتل کر دیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟، تمام ممبران نے مشترکہ طور پر کہا کہ قادیانیت اور اس سے منسلک دیگر نکات پر بحث ان کا فیصلہ نہیں ہے، ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ کونسل کے چیئرمین وضاحت میں یہ شامل کریں کہ ان کی ایماء پر یہ معاملہ زیر بحث آ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے تمام مکاتب فکر متفق ہیں جبکہ اس پر متفقہ طور پر آئین سازی ہو چکی ہے، اس پر ازسر نو بحث شروع کرنا ملک کو نئے تصادم کی طرف لے جانے کی کوشش ہوتی، ملک کے حالات اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔
مولانا اشرفی نے اپنے گریبان دکھاتے ہوئے کہا کہ مولانا شیرانی نے میرا گریبان پکڑا، یہ قابل شرم بات ہے، ایک شخص جو پاکستان کے سب سے بڑے اسلامی آئینی ادارے کا سربراہ ہے یہ اس کا عمل ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک شخص جو اپنے ارکان کا اختلاف رائے برداشت نہ کر سکتا ہو کیا وہ اس عہدے پر بیٹھنے کا اہل ہے؟ وہ اس کونسل کے چیئرمین کے عہدے اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ شیرانی صاحب کے آج کے عمل سے علماء کا مزید تمسخر اڑے گا، میں بھی ان کا گریبان پکڑ کر جواب دے سکتا تھا مگر مجھے ان کی سفید داڑھی کی حیاء آتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی از سرنو تشکیل ہونی چاہیے۔
قبل ازیں دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل کے سینٹرل ریسرچ آفیسر ڈاکٹر انعام اللہ کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیاکہ قرآن بورڈ پنجاب کے حضرات کی علمی گفتگو کو سننے کے بعد کونسل نے اس پر غورو فکر کرکے کوئی فیصلہ مرتب کرنا تھا کہ اس دوران طاہر اشرفی اور مولانا زاہد محمود قاسم اجلاس میں آئے۔
ڈاکٹر انعام اللہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آتے ہی ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ نازیبا الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایجنڈے سے ہٹ کر موضوع پر بحث شروع کر دی جبکہ ہنگامہ آرائی کے ساتھ ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال جاری رکھا۔
سینٹرل ریسرچ آفیسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مولانا طاہر اشرفی کا آخری اجلاس تھا اس لیے وہ ہنگامہ آرائی سے نہ جانے کن مقاصد کا حصول چاہتے تھے۔
ڈان نیوز