سبطِ حسن
انسان کیا ہے؟ انسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ کیا تاریخی ومادی ضروریات اور مقاصد تبدیل ہونے سے انسان ہونے کے معانی تبدیل ہوجاتے ہیں؟ کیا وقت کے تبدیل ہوجانے کے بعد انسان کا جوہرتبدیل ہوجاتا ہے۔ کیا جنگلوں میں رہنے والے انسان کی معقولیت اور جذبات کا بہاؤ آج کے انسانوں سے مختلف تھا؟ ان تمام سوالات پر گذشتہ ساٹھ ستر برسوں میں یورپ اور دیگر ممالک میں بڑے زور شور سے مباحث اور تحقیق کاکام جاری ہے۔ ان تحقیقات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان ہونا اور انسان ہونے کے معانی، تاریخی ارتقاء کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہی نہیں،’’انسانی خصائص‘‘ مثلاً دانش مندی، جذبات کی روش اور یہاں تک کہ انسانی زندگی میں کئے جانے والے کاموں اور رویوں کے معانی بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
انہی مباحث میں ایک اہم عنوان بچپن سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں نے بچپنے کی تاریخ( ہسٹری آف چائلڈ ہڈ) پر کام کیا ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ قدیم زمانے سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک والدین کے ذہن میں اپنے بچوں کے بچپنے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ وہ اپنے بچوں کو ’’بالغ صغیر‘‘سمجھتے تھے۔ بچپنے کی دریافت سے معلوم ہوا کہ بچوں کو صرف جسمانی طور پر نشوونما کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کی عقل او رجذبات کی نمو بھی ہورہی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہ ان کا اردگرد بسی دنیا او رلوگوں کے بارے میں مخصوص تاثرات وخیالات ہوتے ہیں۔ یہ تاثرات وخیالات، بڑوں سے قطعی طو رپر مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بات پہلی مرتبہ سمجھی گئی کہ بچوں کو کچھ بھی سکھانے سے پہلے ان کی دنیا کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ میں ہماری نام نہاد تہذیبی زندگی میں دراصل بچوں کی گنجائش ہی نہ تھی۔ انہیں سزا، تشدد اور اذیتیں دے دے کر’’بڑوں ‘‘ کی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے پر مجبور کیا گیا۔ ہر’’بڑا‘‘ اپنے بچپن میں اس تشدد کا شکار رہا۔
اس زہر آلود تربیت میں اسے انہی ذات سے وابستہ کسی قسم کے خالص خیال، جذبے، مرضی او ریہاں تک کہ خوشی وغم کے اظہار کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ سب کچھ بڑوں کے طے کردہ سانچوں میں ڈھلنے کے بعد ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بچے کی شخصیت کا خالص پن کہیں نیچے دفن ہوجاتا ہے اور بڑوں کے طے کردہ اسالیب نمایاں ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بڑوں کے طے کردہ اسالیب کسی طور بچے کے حقیقی مزاج او راصلیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان معنوں میں بڑوں کے دیے گئے علم اور تربیت کی حیثیت جھوٹی اور ضرررساں ہوتی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے یہی طریقہ جاری ہے اور انسانوں کی زندگی میں زہر آلودگی کی جارہی ہے۔ بچپنے کی دریافت سے ایک اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ اس نئے انداز کے تحت بچے کی زندگی کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس طرح تعلیم وتربیت کا ہدف مستقبل پر ٹھہرگیا۔ واضح رہے کہ بچوں نے اس دور میں زندگی گزارنا ہے جو ان کے’’بڑوں‘‘ سے قطعی طور پر مختلف ہوگا۔ زہر آلود تعلیم وتربیت کے زیر اثر دی جانے والی تعلیم ماضی پر ستانہ ہوتی ہے۔ اس کا تعلق روایت پرستی او ربے عقلی سے ہوتا ہے۔
II
بچوں کے ساتھ نارواسلوک پر ایلس ملر نے بنیاد ی کام کیا۔ وہ خوداپنے بچپن میں خوفناک جبر کا شکار رہیں۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں سوال اٹھایا ہے کہ آخر وہ کون سے نفسیاتی یا تربیتی عوامل تھے کہ جن کی بنیاد پر جرمن قوم کو ہٹلر کی ذات میں ایک کشش محسوس ہوئی۔ پوری قوم ہٹلر کے پیچھے اکٹھی ہوگئی اور سب نے مل کر تشدد اور اذیت رسانی کا ایسا کھیل کھیلا کہ ہر گھر میں دکھ ہی دکھ آگیا۔ اس نفسیاتی صورتحال کی جڑیں، اسی زہر آلود تعلیم وتربیت کے نظام میں پیوست تھیں۔ اس نظام میں تحکمانہ حیثیت کے مالک شخص کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی آئیڈیل جب ہٹلر کی ذات کی صورت میں سامنے آیا تو سب لوگ اس کے پیچھے دیوانے ہوگئے انہوں نے وہی کیا جو انہیں سکھایا گیا تھا اور جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔ اس زہر آلود تربیت کے دیگر عناصر یہ ہیں
اول۔ آپ کی نجی زندگی یا وسیع معنوں میں جاری وساری اجتماعی زندگی کا کوئی مطلب یا حیثیت نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کو طے کردہ نظام میں مقید رہنا چاہئے۔ طے کردہ نظام کی فرمانبرداری ہی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ہٹلر نے یہی نظام قائم کیا او رلوگوں کو اس نظام میں ایندھن کے طور پر استعمال کرلیا۔ واضح رہے کہ ایسے نظام میں انسانی ترجیحات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یعنی یہ کہ اس نظام کی جڑیں انسانی حسیات او رترجیحات میں نہیں ہوتیں اور اس لحاظ سے یہ انسانوں کو کھاتا ہے۔ ان کے لئے حبس پیدا کرتا ہے اور وہ مجبوری کے عالم میں اس نظام کے مقاصد پورا کرنے میں جٹے رہتے ہیں۔ ایسا نظام باہر سے لاگو کیا جاتا ہے اور اس میں چند لوگوں کی غرض مندیاں ہوتی ہیں۔
دوم۔ چونکہ مذکورہ نظام اپنی اساس اور ڈھانچے کے اعتبار سے غیر انسانی ہوتا ہے، اس لئے اس کی کارگزاریاں انسانی تحفظ کے لئے ضروری جذبات وخیالات سے قطع نظر پُر تشدد اور اذیت ناک ہوتی ہیں۔ تشدد اور اذیت رسانی کے ذریعے ہی اس نظام کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
سوم۔چونکہ اس تربیتی نظام کی جڑیں انسانی حسیات میں پیوست نہیں ہوتیں، اس لئے اس کی حیثیت حقیقت سے قطع نظر مصنوعی ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس نظام کے زیر اثر ایک حقیقت، گھڑلی جاتی ہے۔ گھڑی ہوئی حقیقت کو نبھانے کے لئے رسمیت لازم ہے۔ واضح رہے کہ حقیقت میں وارفتگی ہوتی ہے۔ وہ بورکردینے والی یکسانیت سے پاک ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کی’’حقیقت‘‘ مصنوعی ہوتی ہے، اس لئے اس کا انسانوں سے تعلق بھی مصنوعی ہوتا ہے۔ اب کیسے معلوم ہوکہ کوئی شخص کس حد تک اس نظام کا تابع ہے۔ یہ پیار تو نہیں کہ جو اپنی موجودگی کا تأثر خود بخود ڈھونڈ لیتا ہے۔
مصنوعی حقیقت کے تأثر کو اجاگر کرنے کے لئے رسوم ضروری ہیں۔ رسوم خواہ سراسر بے حقیقت اورمنافقت سے بھرپور ہوں، ان کو ادا کرنے والا یہ تأثر قائم کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس نظام کا تابعدار ہے۔ دوسری جانب ان رسوم کو کروانے والوں کے پاس ان رسوم کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہوتا کہ جس کی بنیاد پر وہ نظام کی’’حقیقت‘‘ کی بجا آوری کو جان سکیں۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ جعلی شناخت ہویا تصنع آمیز نظام، ان سب کے تاثر کو جمانے کے لئے ہر وقت مسلسل کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہ چابی والی گھڑی کا معاملہ ہے۔ چابی دے دو گے تو چلتی رہی گی وگر نہ رک جائے گی۔
چہارم۔ زہر آلود تربیت میں تشدد برداشت کرنے والا، آخر کار تشدد کی ترسیل کرنے والا بن جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ’’بڑے‘‘ اپنے بچوں پر اسی موصول کردہ تشدد کو کھلے دِل سے نکالتے رہتے ہیں۔ بچے، ان کے لئے ایسا برتن ہیں، جن میں زہر تھوکا جاتا ہے۔ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا او رہم اسی زہر آلود تربیت والے نظام میں بڑی آسانی او رکسی احساس کے بغیر اس تشدد کو اردگرد لوگوں پر مختلف حوالوں او ربالخصوص بچوں پر ہر حوالے سے تھوکتے رہتے ہیں۔ ہر کوئی اسے’’نارمل حالات‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زہر آلود تربیت کا نظام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کے ’’منظور کردہ قواعد یا قوانین‘‘ اگر اجازت دیں تو تشدد کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح جمع شدہ غیر فعال تشدد کو جب’’قواعد وضوابط‘‘ کی طرف سے اشارہ مل جائے تو وہ خونریزی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس طرح یہ نظام مجموعی طو رپر کسی معاشرے کو کسی دوسرے معاشرے کے قتل پر اکساتا ہے۔ یہ بھی کہ ایک معاشرے کے اندر رہنے والے مختلف النوع انسانوں کو ان کے مختلف ہونے پر برداشت نہیں کرپاتا۔ اس طرح یہ خود اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔
III
زہر آلود تربیتی نظام بنیادی طور پرنسخہ جاتی ہوتا ہے۔ اسی طرح جس طرح ایک معالج، مریض کو نسخہ لکھ دیتا ہے، اسی طرح’’بڑے‘‘ اپنے بچوں کے لئے تربیت کا ایک نسخہ طے کردیتے ہیں۔ اس نسخے میں تمام تفاصیل تربیت طے ہوتی ہیں او ران کے بارے میں ہدایت دی جاتی ہے کہ اس پر مکمل طور پر عمل کیا جائے تو’’شفا‘‘ ہوگی۔ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نسخے پر عمل آخر کار مریض کے فائدے میں ہی ہے۔ ماں باپ، اساتذہ او رسماجی و ریاستی نظام اسی نسخے پر عمل درآمد کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور ساتھ متواتر یہ منتر پڑھا جاتا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے خود بچوں کا ہی فائدہ ہوگا۔
دُکھ کی بات یہ ہے کہ بچے اپنی کمزوری او رمحتاجی کے باعث جن والدین پر انحصار کرتے ہیں، جن ’’اپنوں‘‘ سے پیار کی بھیک مانگتے ہیں، وہی’’اپنے‘‘ فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے خود اپنے بچوں پر تشدد کرتے ہیں او ران کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی انسانیت کو بھی ان سے چھین لیتے ہیں۔ یہ محض انفرادی نہیں، ایک اجتماعی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں مگر اس کی سزا کوئی نہیں۔ البتہ اس کی سزا، ایک وسیع تر غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کرنے کی صورت میں ضرور مل جاتی ہے۔
ظلم وتشدد کے شکار لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ظلم کرنے والے کی نشاندہی کریں۔ اس کی خصائص بیان کریں۔ اس کو کوسیں اور علی الاعلان اس کو غلط قرار دیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ظلم کے شکار لوگ اکٹھے ہوں او راپنے دکھوں کی تفصیل ایک دوسرے کوبتائیں۔ پھر دکھ کی ان تفاصیل میں مشترک ظالم کی نشاندہی کی جاسکے۔ عورتوں پر ظلم میں ظلم کرنے والوں کی شکل شباہت ایک جیسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور مرد۔ سب عورتیں جب بھی فرصت ملے، ان کو کوستی ہیں، براکہتی ہیں او رقابل اعتبار ثبوت نہ بھی ہوں تو بھی شک کا اظہار بھی مردوں پر کرتی ہیں۔ جو اقلیتیں، اکثریت کا شکار بنتی ہیں وہ بھی قاتل اور اذیت رساں کی نشاندہی کرکے اسے کوستی ہیں۔ اس طرح ظلم کا شکار بننے والے کا دکھ کم بھی ہوجاتا ہے اور وہ ظالم کی اذیت رسانی سے بچنے کی تدابیر بھی سوچ سکتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ بچوں پر جب خود ان کے اپنے ظلم وتشدد کرتے ہیں تو بچے، ’’اپنوں‘‘ کے ساتھ پہاڑ کے تعلق کی مجبوری میں، انہیں ظالم او رمجرم ہیں کہہ سکتے۔ انہیں تو ہر حال میں’’اپنوں‘‘ کے پیار کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے وہ بڑے خلوص کے ساتھ’’اپنوں‘‘ کا ظلم سہتے ہیں اور اُف تک نہیں کرتے۔ یہ اس لئے بھی ہے کیونکہ ’’اپنے‘‘ بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ سب مظالم، ڈسپلن او رتربیت کے نام پر ہیں اور آخر کار اس میں بچوں کا ہی فائدہ ہے۔
یہ سب اُن ہی کے فائدے کے لئے ہے۔ درحقیقت وہ بچوں میں اپنا زہر اُنڈیل رہے ہوتے ہیں لیکن اس بات کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے یا ان میں اس ساری صورتحال کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کی شعوری استعداد نہیں ہوتی۔ اگر’’بڑے‘‘ اپنے بچپن کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو خود بخود’’بڑوں‘‘ کا پاگل پن بچوں تک پہنچ نہ پائے گا۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری علم کی ابھی ابتداء ہوئی ہے تاہم سوچ بچارسے اس عمل کو تیز تو کیا جاسکتا ہے۔
سبطِ حسن پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون تاریخ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
2 Comments