بیرسٹر حمید باشانی
ایک ہندوستانی گاہے مجھے ای میل کرتا رہتا ہے۔اس کے اکثر خطوط پر مغز ہوتے ہیں۔دماغ کے تار چھیڑتے رہتے ہیں۔ موصوف اکثر کشمیر پر مجھ سے سوال پوچھتے رہتے ہیں۔ان کے اکثر سوالات سرینگر کے بارے میں ہوتے ہیں۔ میں ان کو بار ہا یاد دہانی کروا چکا ہوں کہ میرا تعلق جموں کشمیر سے نہیں بلکہ آزاد کشمیر سے ہے۔ان کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ بسا اوقات جموں کشمیر کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے بھی زیادہ پر جوش ہیں اور وہاں کی سیاست کا کافی گہرا علم رکھتے ہیں۔
مجھے ان کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ پھر بھی میں ان کی ای میل دلچسبی سے پڑھتا ہوں اور ہو سکے تو جواب بھی دیتا رہتا ہوں۔ یہ خط جس کا میں ذکر کر رہاہوں بھی کشمیر کے بارے میں ہے۔اس خط میں موصوف نے کئی دلچسب مگر پیچیدہ سوال اٹھائے ہیں جو میں ایک ایک کر کہ پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹتا ہوں۔
موصوف کا پہلا سوال یہ ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے لوگ اکثر بھارت سے آزادی مانگتے رہتے ہیں۔اخر ایسا کون سا کام ہے جو یہ لوگ بھارت کے ساتھ رہتے ہوئے نہیں کر سکتے اور وہ کام کرنے کے لیے بھارت سے مکمل آزادی ضروری ہے۔ بھارت میں کئی ریاستیں ہیں۔ ان ساری ریاستوں کی نسبت ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس خصوصی حیثیت کے تحت خارجہ، دفاع، مواصلات اور کرنسی کے علاوہ تمام قابل ذکر اختیارت ریاست کے پاس ہیں۔
یہ لا محدود اختیارات ہیں۔ ان اختیارات کے تحت وہ ریاست کے اندر اپنی پسند کا جو بھی نظام زندگی چاہتے ہیں اس کو جمہوری طریقے سے نافذ کر سکتے ہیں۔تو اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کرنے کے بجائے وہ علیحدگی یا پاکستان کے ساتھ شمولیت کو ہی اپنے تمام مسائل کا حل کیوں سمجھتے ہیں۔کیا بھارت کے زیر انتظام ان کے مذہبی ، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق محفوط نہیں ہیں ؟ جہاں تک مذہبی حقوق کی کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بھارت صدیوں سے ایک کثیرالمذاہب سماج رہا ہے۔یا کئی مذاہب نے پر امن بقاہے باہمی کے اصولوں کے تحت فروغ پایا اور ترقی کی۔
دو ہزار سال پہلے اشوکا نے سرکاری سطح پر مختلف مذاہب کو یکساں تسلیم کیا اور ان کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے۔پانچویں اور دسویں صدی کے دوران یہاں پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعمیر کی جاتی رہی۔تاریخی طور پر بر صغیر اور پورے جنوبی ایشیا میں عوام کو مذہبی آزادی میسر رہی ہے۔اور ریاست رعایا کو ان کے مذہبی عقائد سے قطع نظر ان کو برابر کی شہریت دیتی رہی ہے۔بدھ مت، جین اور ہندو مت سے برابری کا سلوک کیا جاتا رہا۔
یہ سلسلہ کسی حد تک مغلوں کے دور تک جاری رہا۔مغل شہنشاہ اکبر کے علاوہ دوسرے حکمرانوں نے بالخصوص اورنگ زیب کے زمانے میں اس اصول کی خلاف ورزیاں ہوئیں، مگر انگریزوں نے اس کا کسی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے سب مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کے اصول کو سرکاری سطح پر اپنانے کی کوشش کی۔اگرچہ انہوں نے ریاست کو مذہب سے مکمل طور پر جدا نہیں کیا۔اس کے برعکس انہوں نے مختلف مذاہب کے پرسنل لاز کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا۔شادی، طلاق اور وراثت وغیرہ کے معملات میں مختلف مذاہب کے عائلی قوانین کو سرکاری حیثیت دی گئی۔
آزادی کے بعد بھارت میں سیکولرازم کو تسلیم تو کر لیا گیا لیکن بھارتی سیکولرازم مغربی سیکولرازم سے یکسر مختلف ہے۔بھارت میں سیکولرازم سے مراد ریاست کی طرف سے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔جبکہ مغرب میں سیکولرازم سے مراد ریاست کی مذاہب سے علیحدگی سمجھا جاتا ہے۔بھارت میں سیکولرازم کا تصور یہ ہے کہ ریاست سرکاری طور تمام مذاہب کے قوانین کو تسلیم کرتی ہے۔اور تمام مذاہب کے معملات میں یکساں طور پر شرکت کرتی ہے۔
اگرچہ بھارت کے آئین کے دیباچہ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن بھارتی آئین اور قانون میں ریاست اور مذہب کے درمیان رشتے کا کوئی واضح تعین نہیں ہے۔تاہم قوانین ریاست سے تمام مذاہب کو یکساں طور پر تسلیم کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔گویا ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ بھارت کے تمام عوام اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔
اور کشمیری مسلمان تو اس معاملے میں دوسری ریاستوں سے بھی زیادہ آزاد ہیں۔وہ چاہیں تو اپنے آپ پر جمہوری طریقے سے اور عوام کی آزادنہ مرضی سے مکمل اسلام نافذ کر سکتے ہیں۔جیسے گوا کے لوگوں نے بھارت کی مرکزی حکومت کے بر عکس وہاں پر سیکولر قوانین کا نفاذ کیا ہوا ہے۔
تو گویا کشمیر کے لوگ اگر خاص اسلامی قوانین اور اصولوں کی روشنی میں ایک خاص طرز زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں تو بھارت ان کو ایسا کرنے سے قانونی ،آئینی یا انتظامی طور پر نہیں روک سکتا۔وہ اپنی پارلیمنٹ میں اکثریتی رائے سے جو قوانین چاہیں اپنی ریاست کے لیے بنا سکتے ہیں۔جو طرز زندگی چاہیں اپنا سکتے ہیں۔تو اس سلسلے میں وہ کس بات کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔اگر ان کو آزادی مل جائے یا وہ پاکستان کے ساتھ مل جائیں تو پھر بھی آخر کار جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں وہ ان کو پارلیمنٹ میں اکثریتی رائے سے ہی کرنا پڑے گا۔تو وہ ایسا اب کیوں نہیں کرتے ؟
قارئین اس خط میں اٹھائے گئے سوالات کو آپ سے بانٹنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اگر کوئی اس بحث میں حصہ لینا چاہے تو اس کے لیے یہ نیا زمانہ کے صفحات حاضر ہیں۔