خان زمان کاکڑ
لگتا تو کچھ يوں ہے کہ پاک چائنا اکنامک کاريڈور کی نسبت معاشرے کو ترقی يافتہ بنانے والوں کی دلچسپی پيٹرو ڈالر اسلام اور کئی جنگی اقتصادی زونز پہ مشتمل جہادی کاريڈور ميں زياده ہے ۔ پشتون وطن سے جہادی اقتصادی کاريڈور گزارنے کی تاريخی، سياسی اور دفاعی وجہ ہے۔ يہ روٹ تزويراتی گہرائی کی گہری جنت تک براه راست بڑی آسانی سے پہنچتا ہے اور انتہائی دلچسپ طور پر مرکزی ايشياء، جنوبی ايشياء، مشرق وسطی اور پوری دنيا کو باہم ملاتا ہے۔
یہ جنگی اقتصادی کاريڈور کوئی سيدها ساده نظرياتی مسئلہ نہيں ہے ، يعنی يہ کوئی ساده روڈ يا نيشنل ہائی وے نہيں بلکہ اس جہادی کاريڈور ميں مختلف ‘ترقياتی منصوبے‘ شامل ہيں۔ اس کاريڈور کی بدولت پشتون وطن پچهلے چار دہائيوں ميں اتنا ‘ترقی‘ کرگياکہ اس کو ہم بلا مبالغہ ‘جنت ارضی‘ کا نام دے سکتے ہیں ۔ گزشتہ چاليس سالوں ميں اس وطن ميں سارا کاروبار جنت کی زبان اور ضابطے کے مطابق چل رہا ہے۔
دس دن پہلے چارسده ميں باچاخان يونيورسٹی ميں دہشت گردوں نے جو حملہ کيا وه کسی بهی حوالے سے اس جہادی اقتصادی کاريڈور سے عليحده کوئی عمل نہيں تها۔ فُٹ پاتھوں، چوکوں، مساجد کے منبروں، مذہبی مدرسوں، ٹی وی مذاکروں اور جماعتِ اسلامی کے جلسوں کے علاوه اب تعليمی اداروں کو جنت کی ڈگرياں جاری کرنے کا ٹاسک ديا گيا ہے۔
طلباء کے والدين جو يہ تاثر دينا چاہتے ہيں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو ‘عصری’ تعليم حاصل کرنے کيلئے سکول، کالج اور يونيورسٹی ميں داخل کيا ہے ان کو يہ سمجھنا پڑے گا کہ پاکستان ايک نظرياتی رياست ہے. يہاں ‘عصری’ تعليم کے ساتھ ساتھ ‘دينی’ تعليم بهی دی جاتی ہے. يہاں بچوں کو ‘تعليم’ کے ساتھ ساتھ ‘تربيت’ بهی دی جاتی ہے۔
تربيت کا مطلب صرف ساده اخلاقيات والدين اور بزرگوں کی عزت کرنا، صفائی کا خاص خيال رکهنا نہيں ہوتا بلکہ يہ ايک پورا ضابطہ ہوتا ہے۔ يہ تربيت ايک بچے کو ‘کامل مسلمان’ بنانے کا ايک جامع پراجیکٹ ہے۔ اس کے علاوه علم اور عمل کا تعلق بهی بڑا لازم ہوتا ہے۔
ايک نظرياتی ملک ميں ايک تعليمی ادارے کی صرف يہ ذمہ داری نہيں ہوتی کہ وه جہاد اور جنت کے علمی پہلوؤں سے بچوں کو روشناس کروائے بلکہ اس کی ذمہ داری بچوں کو اس علم کا عملی اطلاق کرنے کا قابل بهی بنانا ہے۔ پاکستان ميں تعليم و تربيت کا نظام کم سے کم پختونخوا ميں تو اس جہادی اقتصادی کاريڈور سے پچهلے چاليس سالوں ميں کبهی بهی الگ نہيں رہا ہے۔
تعليمی اداروں ميں جہاد اور جنت استادوں کا پسنديده مضمون رہاہے جو وه سالوں سے پڑها رہے ہيں۔ پہلے تو صرف جہاد اور جنت کی تهيوری پڑهائی جاتی تهی، اب اس کا فيلڈ ورک بهی کراتے ہيں۔ پختونخوا ميں جہاد اب ايک اپلائيڈ مضمون ہے جس کو پڑهانے کيلئے صرف چاک اور مارکر سے کام نہيں چلتا بلکہ استادوں اور طالبعلموں دونوں کو بندوقيں تهمانے کی ضرورت پڑی ہے۔ موجوده دور ميں يہی ايک طريقہ ہے جس سے جہادی اقتصادی کاريڈور کے منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جاسکتا ہے اور پشتون خطے ميں آباد ‘جنت ارضی‘ کو سازشِ ابليس سے محفوظ رکها جاسکتا ہے۔
تاريخ ميں یہ ہماری والی نسل کا امتياز ہے کہ اس کو زندگی کے ہر شعبے ميں اس جہادی کاريڈور سے ہوکے گزرنا پڑتا ہے. يہ کاريڈور بڑا وسيع اور پهيلا ہوا ہے۔ اس کاريڈور کی بڑی توسيع پسندانہ خصوصيات ہيں۔ اس نے اب ايک اِمپائر کی شکل اختيار کی ہوئی ہے۔ يہ خطے ميں اس دور کا سب سے حاوی اور قوی ڈسکورس ہے۔
یہاںانگريز بهی ‘ترقی‘ دينے کے غرض سے آئے تهے ليکن وه اپنے اس کام ميں اتنا کامياب نہيں ہوئے۔ البتہ انہوں نے يہاں سے چلتے ہوئے دنيا ميں کميونزم کی وجہ سے آنے والی ‘پسماندگی‘ کی روک تهام کے لیے جس منصوبے کا آغاز کيا تها اس کو ان کے باصلاحيت تنخوادار طبقے نے ايک ايسے کاريڈور ميں تبديل کرديا جس کی وجہ سے پورا پشتون علاقہ ‘ترقی يافتہ‘ بن گيا۔
پشتونوں کو ‘ترقی يافتہ‘ بنانے کيلئے ان کے اپنے ‘پسمانده‘ تاریخی، تہذيبی، ثفافتی اور سياسی سفر کے تسلسل کو توڑنا ضروری تها جو کہ اس جہادی کاريڈور نے کرکے دکهايا۔
انگريزوں کے خلاف چلنے والی پشتونوں کی قومی اور مقامی تحريک خدائی خدمتگار کے کردار کی نشاندہی تو انگريزوں نے خود ہی کی ہوئی تهی اور اپنے جانشينوں کو بتايا تها کہ پشتونوں کو ‘ترقی‘ دينے کے عمل ميں آپ کو اس تحريک سے نمٹنا پڑے گا۔ پاکستان بنتے ہی ايک ہفتے کے اندر اندر جناح صاحب نے اس وقت کے صوبہ سرحد (موجوده خيبر پختونخوا) ميں خدائی خدمتگاروں کی منتخب حکومت کو برطرف کرايا اور وہاں پہ مسلم ليگ کو غيرجمہوری طريقے سے اقتدار حوالے کيا۔
تحريک کے بانی باچاخان اوران کے خدائی خدمتگار وں کو جيلوں ميں ڈالا گيا. پاکستان بننے کا ايک سال بهی اب پورا نہيں ہوا تها۔ جناح صاحب ابھی زنده تهے کہ ۱۲ اگست ۱۹۴۸ کو صوبے کی مسلم ليگی حکومت کے حکم کے مطابق چارسده ميں بابڑه کے مقام پر خدائی خدمتگاروں کے ايک پرامن مظاہرے پر گولياں چلائی گئيں جس ميں سينکڑوں خدائی خدمتگار قتل ہوئے۔
اس وقت کے سب سے مشہور خدائی خدمتگار شاعر استاد عبدالمالک فدا نے واقعہ بابڑه پر ايک زبردست نظم جس لکهی تهی جس کا ايک بند کچھ يوں تها:۔
“ايک طرف حکومت کی ساری فوج تهی جوتوپوں اور مشينوں سے مسلح تهی اور دوسری طرف قوم خالی ہاتهوں کهڑی تهی۔ اس مقابلے کو ديکهتے ہوئے ميں حيران ہوتا تها“۔
یہ تشدد اور عدمِ تشدد کا مقابلہ تها۔ دنيا کو حيرت ميں ڈالنے والا مقابلہ تها۔ يہ مقابلہ ابهی تک اپنے اختتام تک نہيں پہنچا ہے۔ ابهی چارسدے ميں جس يونيورسٹی کے طلباء کو دہشت گردوں نے نشانہ بنايا وه بهی باچاخان کے نام سے منسوب تهی۔ سياسی طور پر اس جہادی کاريڈور کو کامياب بنانے کے سلسلے ميں سب سے زياده باچاخان کی تحريک کے ساتھ وابستہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنايا گيا ہے۔ پہلے ان کو جيلوں اور ٹارچرسيلوں ميں ڈالا جاتا تها اب صرف سٹائل تبديل ہوچکا ہے. کہنا يہ چاہتا ہوں کہ اس دہشت گردی کی ايک تاريخ ہے۔ اس کی ايک نظرياتی بنياد ہے۔ يہ وسيع جہادی کاريڈور کا ايک لازمی حصہ ہے۔
بعض لوگوں کے بقول یہ جہادی کاريڈور جنرل ضياء کے دور ميں شروع ہوا، بعض لوگوں کے خيال ميں اس منصوبے کاجناح صاحب نے خود ہی آغاز کيا تها جبکہ ايک اور طبقے کی نظر ميں اس منصوبے کا سنگِ بنياد اس دن ڈالا گيا جس دن محمد بنِ قاسم نے برصغير کی سرزمين پہ قدم رکها۔
يہ جہادی کاريڈور اس پاک چائنا اقتصادی کاريڈور کی طرح راز کا معاملہ نہيں جس پہ سرکاری سطح پہ انتہائی محدود معلومات تک عوام کی رسائی ممکن ہے۔ جس طرح پہلے کہا گيا کہ جہادی کاريڈور ايک حاوی اور قوی ڈسکورس اپنے ساتھ شامل رکهتا ہے۔آئين کا ايک حصہ، تعليمی نصاب، ليٹريچر اور کتابيں، پريس، ٹی وی شوز، دانشوروں کے مباحثے اور سيمینارز اس جہادی کاريڈور کا حصہ ہے۔
اس جہادی کاريڈور ميں شامل سب سے بڑا منصوبہ کابل کو جلانا تها جو کہ بڑے خوفناک طريقے سے ‘کامياب‘ ہوگيا۔ صرف کابل کو نہيں بلکہ پورے افغانستان کو جلايا گيا اور اعلان کيا گيا کہ ہم نے ڈهاکہ کهويا جبکہ کابل پايا۔ پاکستان ميں دس سال تک کابل پانے کا بهرپور جشن منايا گيا ۔
ليکن بعد ميں پتہ چلا کہ افغان سرزمين کو ‘جنت ِ ارضی‘ ميں بدلنے ميں اگرچہ کچھ کاميابی ملی ہے ليکن کابل پانے کی بات ايک غلط فہمی تهی۔ عوام ميں اس غلط فہمی کے اثر کو زائل کرنے کے لئے ايک بڑی سطح پہ يہ مہم شروع کی گئی کہ کابل کو ہم نے نہيں بلکہ ہمارے سب سے بڑے ازلی دشمن انڈيا نے پاليا ہے۔
اس جہادی کاريڈور کی داستان ميں يہ بهی شامل ہے کہ کابل کے متعلق بات ہميشہ پالينے اور پالنے کی زبان ميں کی جائے گی۔ کابل کو کبهی بهی ايک آزاد رياست افغانستان کا دارالخلافہ تسليم نہيں کيا جائے گا۔
جہادی کاريڈور کا ايک اور منصوبہ ‘امتِ مسلمہ‘ کی تشکيل ميں پاکستان کے کردار کو بنيادی حیثيت دينے کا تها جو کہ بڑی حد تک وه بهی کامياب دکهائی ديتا ہے۔ فاٹا ميں تقريباً ساری امت مسلمہ آباد ہے۔ ازبک، تاجک، عرب، چيچن، پاکستانی اور باقی سارے ۔۔۔
اس کے علاوه جناح صاحب کا ايک ارمان تها کہ انہوں نے پاکستان کو اسلامی نظريات کيلئے ايک تجربہ گاه بنانا ہے۔ اس جہادی کاريڈور کی بدولت بانی پاکستان کا وه ارمان پورا ہوگيا۔ اسلامی نظريات پہ جتنے تجربے يہاں اب کيے جارہے ہيں دنيا ميں کہیں اور اس کی مثال نہيں ملتی۔ اب يہ صحيح معنوں ميں جناح کا پاکستان ہے جس کو آپ پختونخوا اور فاٹا ميں بہت واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں۔
اس جہادی کاريڈور ميں شامل ايک اور بڑا منصوبہ ڈيورنڈ لائن والے مسئلے کو دفنانا تها ۔ اس منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کيلئے طويل وقت اور سخت محنت درکارہے.۔يہ افغان لوگ کچھ بهی آپ کے ساتھ مان سکتے ہيں، حتی کہ آپ کی اسلام کی جنوبی ايشيائی تشريح بهی مان سکتے ہيں ليکن ڈيورنڈلائن کو ايک بين الاقوامی سرحد کبهی نہيں مانتے۔.
اس جہادی کاريڈور کی بدولت پشتون معاشرے ميں قوم پرستی کی ‘پسماندگی‘ کم ہونے کے اثرات واضح ہونا شروع ہوگئے ہيں اس لئے انڈيا پهر سے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ پختونخوا ميں قوم پرستی کی ‘پسماندگی‘ کو ابهارنے کی سازش ميں مصروف ہوگيا ہے۔انڈيا کو کبهی بهی يہ جہادی کاريڈور ہضم نہيں ہوا ہے۔وه مسلمانوں کی اس ‘ترقی‘ سے جلتا رہتا ہے۔
جو لوگ پشتون وطن ميں اس جہادی کاريڈور کی مخالفت کرتے آرہے ہيں وه بلا شک و شبہ انڈيا کے ايجنٹ ہيں اور پاکستان کو توڑنے کے درپے ہيں۔ باچاخان شايد اس جہادی کاريڈور کے سب سے پہلے بڑے مخالفت تهے اور انڈيا کے ساتھ ان کی دوستی تاريخ کا حصہ ہے۔
البتہ اس راز پہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ انڈيا نے کيوں اپنے ‘کانگريسی باچاخان’ يا ‘سرحدی گاندهی’ کے نام سے منسوب يونيورسٹی کو نشانہ بنايا؟ اگر يہ حملہ افغانستان نے کيا ہے تو بهی يہ سوال اٹهتا ہے کہ افغانستان کس مقصد کيلئے اپنے ‘فخرِافغان’ کی يونيورسٹی کو خون ميں ڈبونے کا منصوبہ بنا سکتا ہے؟
آخر ميں اس نکتے کو واضح کرنا ضروری ہےکہ جو لوگ پاک چائنا اکنامک کاريڈور کے مغربی روٹ کو بحال کرنے کا مطالبہ کررہے ہيں کيا ان کو پتہ نہيں کہ مغربی روٹ پہ چاليس سالوں سے کام جاری ہے، جہادی اقتصادی کاريڈور ميں شامل درجن بهر منصوبے پايہ تکميل تک پہنچ چکے ہيں اور يہ مغربی روٹ اب کسی ‘جنتِ ارضی‘ سے کم نہيں؟
Twitter: @khanzamankakar
One Comment