تبصرہ : جاوید اختر بھٹی
ایس ایس عمرعالم کی کتاب ’’بہاریوں کا مقدمہ‘‘ جنوری 2011ء میں شائع ہوئی ۔مصنف 1996ء سے کینڈا میں مقیم ہیں۔اس لیے یہ کتاب پڑھنے والوں تک تاخیر سے پہنچی ۔ مصنف اس کتاب کا جواز یوں پیش کرتے ہیں۔
’’اس کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ بہاریوں سے متعلق پاکستان کے لوگوں کے اذہان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور دوسرے یہ کہ بہاریوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو یہ بتانا ہے کہ جس صوبے کی مناسبت سے انہیں بہاریوں کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اس صوبے کے مسلمانوں کا فروغِ اسلام ٗ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی ٗپاکستان کی آزادی کی تحریک ٗنیز مشرقی پاکستان کی تعمیرو ترقی میں کردار رہا‘‘۔
جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا ٗاس وقت یعنی جنگ اورفوج کشی کے وقت میری عمر 13سال تھی۔جنرل ایوب کا آخری دور اور جنرل یحییٰ کامکمل دور میری آنکھوں کے سامنے ہے۔1970ء کا الیکشن ہونا اور اس کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کا زور پکڑنا ٗفوج کشی اور قتل عام کی اطلاعات روزانہ سنائی دیتی رہیں۔
ان دنوں ہرشخص کہہ رہا تھا کہ غدار بنگالی مارے جارہے ہیں۔فوج چڑھائی کرتی رہی۔لوگ مرتے رہے۔اور جو زندہ رہے۔انہیں مرنے والوں نے طاقتور کر دیا۔بہاری بنگلہ دیش کے مخالف تھے اور پاکستان کے حامی تھے۔بنگالی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہے گا۔ بہاری پاکستان کا حامی اور فوج کا دوست تھا۔بنگالی ان سے خوف زدہ تھا۔
دو نظریے تھے لیکن فتح تو ایک نظریے کی ہوتی ہے ٗجو دھرتی سے وابستہ ہوتا ہے۔بنگالی جیت گیا اور بہاری ہار گیا ۔1971ء سے آج تک بہاری زیر عتاب ہیں اور کیمپوں میں پڑے ہیں۔ابتداء میں تو بہت سے بہاری پاکستان آئے ۔یہ بھٹو کا زمانہ ہے جب بہاریوں کے لئے کالونیاں سرکاری طور پر بنائی گئیں۔پاکستان کے تمام شہروں میں انہیں آباد کیا گیا۔پھر یہ سلسلہ روک دیا گیا۔جوباقی رہ گئے وہ بنگلہ دیش میں پڑے ہیں اور بنگالی کی نفرت 40برسوں میں ختم نہیں ہوئی۔
کچھ محبِ وطن دانشوروں نے بھٹو ٗمجیب اور جنرل یحییٰ کو غدار قرار دیا اور ان کو غدار ثابت کرنے کیلئے کتابیں لکھیں ۔لیکن جس جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے اس کو خصوصی رعایت دی گئی اور اس کی غداری کی چرچا کم ہوا۔ اس امتیازی سلوک کی وجہ معلوم نہیں ہوئی۔
ایک زمانے میں صوبوں کے مقدمے لکھے جاتے تھے۔اس کی ابتداء حنیف رامے نے ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ لکھ کر کی۔اس کے بعد’’سندھ کا مقدمہ‘‘ اور اسی طرح کی دو چار کتابیں شائع ہوئیں۔اب بہت عرصے بعد ’’بہاریوں کامقدمہ‘‘ آیا ہے جسے پاکستان نے داخل دفتر کر دیا ہے۔ایس ایس عمر عالم کی کتاب اس المیے کو ضرور بیان کرتی ہے لیکن یہ کبھی موثر نہیں ہوگی۔
اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حصہ اول میں 1۔مشرقی بنگال۔ 2۔بہاریوں کی مشرقی بنگال ہجرت اور ان کے خلاف نفرت کی وجوہ 3۔بہاریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم۔ 4۔بہاریوں کے بارے میں حکمرانوں ٗسیاستدانوں کے بیانات اور اداریے۔ 5۔بہاریوں کی پاکستان واپسی کا مسئلہ ۔
حصہ دوم۔1۔بہار کی تاریخ۔ 2۔بہار کی اہم ریاستیں اور اضلاع۔ 3۔بہار کے اہم مقامات۔ 4۔بہار کے مسلمانوں کی علمی وادبی خدمات5۔بہار میں فروغ اسلام۔ 6۔مختلف تحریکوں میں بہار کا کردار۔7۔قومی اور آزادی کی تحریک میں بہار کا کردار۔ 8۔بہار کی علاقائی پارٹیوں کا قومی تحریک میں کردار۔حصہ اول میں بہار کا پس منظر بیان کیاگیا ہے۔میرے نزدیک حصہ اول زیادہ اہم ہے۔جس میں بہاریوں پر مظالم کا ذکر ہے۔جو بنگلہ دیش میں ان پر کیے گئے تھے۔
سنہ1947ء میں تمام مسلمان ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان نہیں آ سکے تھے۔پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ تمام بہاری مغربی پاکستان میں آباد ہوجاتے۔اتنی بڑی تعداد کی مکمل ہجرت کسی طرح ممکن ہی نہیں تھی۔بہاریوں کا قصور یہ کہ انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا ورنہ وہ آج محفوظ ہوتے لیکن اب حالات اس سے کہیں آگے گزر چکے ہیں ۔اذیت کا یہ سفر جاری ہے ٗدیکھیے کب ختم ہوتا ہے۔
چند اقتباس پیش کرتا ہوں۔اس طرح واقعات بنگلہ دیش کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔اس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ بنگالی کابہاری پر اعتبار کیوں ختم ہوا۔
’’4اپریل1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی ٗجنرل یحیی خان کی جانب سے مشرقی کمانڈ کا سربراہ مقرر کیے جانے کے بعد مشرقی پاکستان پہنچے۔10اپریل 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے نیازی کو اختیارات سونپ دئیے۔جس کے بعد جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔میجر جنرل راؤ فرمان علی ان کے فوجی مشیر تھے۔
دوسری جانب بھارت نے 21نومبر1971ء کو مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔بنگالی صرف مخالف ہی نہیں تھے بلکہ پاکستان فوج کے خلاف بھرپور جنگ لڑ رہے تھے اور بھارتی فوج کی ہرطرح سے مدد کر رہے تھے۔
آخر کار 16دسمبر1971ء کو پاکستانی فوج کے ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے آگے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دئیے اور اس طرح بنگلہ دیش کاقیام عمل میں آ گیا۔بہرحال اس اقتدار کے حصول کی کشمکش میں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔فوج کو بھارت کے آگے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اور سب سے بڑھ کر پاکستان جسے ہم نے بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا اس کے دوٹکڑے ہوگئے۔
بیس دسمبر1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے زیڈ اے بھٹو کو اختیارات منتقل کر دئیے اوربھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر اورصدر بن گئے۔
دوسری جانب بھٹو کی حکومت نے 8جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیا۔وہ پاکستان سے براستہ لندن نئی دہلی پہنچے ٗجہاں انہوں نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی۔وہ 10جنوری 1972ء کو اپنے نئے ملک بنگہ دیش پہنچے اور ڈھاکہ میں مسز اندراگاندھی کے ہمراہ ایک بڑے مجمع سے خطاب کیا‘‘۔
(مشرقی بنگال)
’’23مارچ 1971ء کو عوامی لیگ کی جانب سے یوم مزاحمت کا اعلان کیا گیا۔اس روز مشرقی پاکستان کے تمام علاقوں میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا۔لیکن بہاریوں نے اپنے مکانوں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا۔انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب بنگالی پورے مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے زورشور سے نعرے لگا رہے تھے۔نتیجے کے طور پر بنگالی جو بہاریوں سے پہلے ہی نفرت وعداوت رکھتے تھے بہاریوں کے اس عمل کی وجہ سے ان کے اندر بہاریوں کے خلاف نفرت کی آگ مزید بھڑک اٹھی‘‘۔
’’سب سے زیادہ متاثرہونے والے وہ لوگ تھے ۔جنہوں نے 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور اس کے بعد مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی۔اس طویل عرصے میں وہ اپنا گھر بار اور سب کچھ لٹا چکے تھے ایسے لوگوں کی تعداد دس لاکھ یا اس سے کچھ کم تھی۔ان میں سے چند لاکھ افراد جو قیام پاکستان سے قبل پرانے ڈھاکہ وغیرہ میں آباد تھے اور جنہوں نے بنگالی تہذیب کو پوری طرح اپنا لیا تھا۔وہ بنگلہ دیش کے اکثریتی لوگوں یعنی بنگالیوں میں ضم ہوگئے۔باقی بچ جانے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو ان کے گھروں سے نکال کر مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا‘‘۔(بہاریوں کی مشرقی پاکستان ہجرت اور ان کے خلاف نفرت کی وجوہ)۔
ڈھائی سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں بہت سے دردناک واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ایسے واقعات 1947ء میں تقسیم ہند پر بھی نظر آئے ۔گجرات کے فسادات میں انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔جب کبھی نفرت کی آگ جلتی ہے تو مظلوم لوگ دردناک موت مرتے ہیں۔یہ مقدمہ کتنے ہی خلوص اور دردمندی سے لکھا گیا ہو۔یہ اتنا طاقتور نہیں ہے کہ بہاریوں کو جینے کا حق لے کر دے۔ہماری آتی جاتی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اگر انہیں لے کر نہیں آ سکتیں تو کم سے کم بنگلہ دیش میں ہی انہیں زندہ رہنے کا حق لے دیں۔ان بہاریوں نے پاکستان کے جھنڈے لہرائے اور پھر بنگلہ دیش کی زمین ان پرتنگ ہوگئی۔پاکستانی جھنڈے کااعتبار قائم رکھنے کے لئے پاکستان کی مسلم لیگی حکومت کو پیش رفت کرنی چاہیے۔
ذوالفقار علی بھٹو 90ہزار سے زائد فوجی اور دیگر سویلین کو ہندوستان سے لے کر آیا۔ضیاء الحق کی فوجی آمریت نے امریکہ کے حکم پر اسے نشان عبرت بنا دیا۔اور پھر بہاریوں کاکوئی مددگار نہ رہا۔