جرمنی کے شمال مشرقی علاقے میں سائنسدان آج بدھ تین فروری کو ایک ایسے تجربے کا آغاز کر رہے ہیں جس کے بارے میں انہیں توقع ہے کہ وہ جوہری توانائی کےمقابلے میں مستقبل میں محفوظ اور صاف توانائی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہو گا۔
گرائفس والڈ کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں ریسرچرز ابھی تھوڑی مقدار میں ہائیڈروجن اس تجرباتی مشین میں داخل کر رہے ہیں جو اسے اس حد تک گرم کرے گی کہ یہ پلازما کی شکل اختیار کرے گی۔ یہ ایک طرح سورج کی سطح جیسی صورتحال ہو گی۔
یہ تجربہ دراصل بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ان کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے توانائی حاصل کرنا ہے۔ نیوکلیئر فیوژن دراصل ایک ایسا پراسیس ہے جس میں بہت ہی بلند درجہ حرارت پر ایٹم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں اور بہت ہی زیادہ توانائی پیدا کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق توانائی کے لیے اس ٹیکنالوجی کا حصول شاید کئی دہائیاں دور ہے مگر جب یہ کامیابی حاصل ہو گئی تو یہ نہ صرف فوصل فیول بلکہ روایتی جوہری ری ایکٹرز کی بھی جگہ لے لی گی جو نیوکلیئر فشن کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ نیوکلیئر فشن میں ایٹموں کو توڑا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بڑی مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے فرانس کے جنوبی حصے میں ایک انٹرنیشنل ریسرچ ری ایکٹر کی تعمیر کا کام پہلے ہی سے شروع ہو چکا ہے۔ اس ری ایکٹر میں ڈونٹ کی شکل کی ایک مشین میں طاقتور الیکٹرک کرنٹ کے ذریعے پلازما کو اس قدر ضروری وقت تک روکا جائے گا کہ فیوژن کا عمل شروع ہو سکے۔ اس ڈیوائس کو ’ٹوکاماک‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا خیال سوویت دور کے ایک ماہر طبیعات نے 1950ء میں پیش کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس ڈیوائس کی تیاری تو نہایت آسان ہے مگر اس کو آپریٹ کرنا انتہائی مشکل ہے۔
تاہم جرمنی کے بندرگاہی شہر گرائفس والڈ کے ماہرین ’ٹوکاماک‘ کی حریف ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال 1950ء میں امریکی ماہر طبیعات لیمان اسپٹزر نے پیش کیا تھا اور اسے ’اسٹیلیریٹر‘ یا stellarator کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بھی دراصل ڈونٹ ہی کی شکل کی ایک ڈیوائس ہے مگر اس میں پلازمہ کو قید رکھنے کے لیے انتہائی پیچیدہ، طاقتور مقناطیسی کوائلوں پر مبنی نظام کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ہائیڈروجن کو گرم کر کے اسے پلازمہ میں تبدیل کیا جائے گا تو اس کا درجہ حرارت 100 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا
اس پراجیکٹ کے سربراہ تھوماس کلِنگر کے مطابق یہ ڈیوائس پلازمہ کو ٹوکاماک کے مقابلے میں کہیں زیادہ وقت تک اپنی جگہ پر برقرار رکھنے کے قابل ہونی چاہیے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ٹیلیفونک انٹرویو میں کلنگر کا کہنا تھا، ’’اسٹیلیریٹر کہیں زیادہ کم آواز بھی ہے۔۔۔ اس کو تعمیر کرنا بہت زیادہ مشکل ہے لیکن اس کو آپریٹ کرنا بہت آسان ہے۔‘‘
اس ڈیوائس کو وینڈیلسٹائن سیون ایکس اسٹیلیریٹر یا W7-X کا نام دیا گیا ہے اور اس کی تیاری پر 400 ملین یورو لاگت آئی ہے۔ اس ڈیوائس میں بہت کم مقدار میں ہائیڈروجن داخل کر کے تجربے کا آغاز آج بدھ تین فروری کو شروع ہو رہا ہے اور اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی وہاں موجود ہوں گی جو خود فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس ڈیوائس میں لگے مائیکرویو اوون جب ہائیڈروجن کو گرم کر کے اسے پلازمہ میں تبدیل کریں گے تو اس کا درجہ حرارت 100 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ فی الحال اس ڈیوائس سے توانائی حاصل نہیں کی جائے گی بلکہ ان حالات کا جائزہ لیا جائے گا جو توانائی کے حصول کے وقت درپیش آسکتی ہیں۔
DW