ڈاکٹر پرویز پروازی۔ ٹورنٹو
اردو کا رومانی ادیب اے حمید وقت خالص کا حصہ بن گیا۔ مدتوں پہلے اس کی کتاب امرتسر کی یادیں پر لکھا ہوا مضمون یاد آیا۔ اب تک اے حمید کی یاد میں جو کچھ پاکستانی رسائل واخبارات میں چھپا ہے اس میں اس کی رومانیت کا کہیں تذکرہ نہیں۔ نئی نسل اے حمید کو جانتی نہیں۔ انہیں یاد دلانے کیلئے اے حمید کے بارہ میں اپنا پرانا مضمون نئی نسل کو سامنے پیش کررہا ہوں۔ یادداشتی ادب پر لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو برسوں پہلے کی چھپی ہوئی اے حمید کی کتاب امرتسر کی یادیں آئی یہ کتاب یادوں حسرتوں آرزوں اور خوابوں کا ایک مرقع ہے یوں لگتا ہے اے حمید اپنی چھوڑی ہوئی جنم بھومی کا نوحہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ کھلی آنکھوں اپنے ماضی اور مستقبل کے خواب دیکھنے میں مصروف ہے۔
امرتسر اس کی خوابوں کا مرکزی نقطہ ہے اے حمید کی ان یادوں کو نو سٹلجیا کہنا بھی مشکل ہے کیونکہ اس نے صرف ماضی کو ہی اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا ہے حال کا احتساب اور مستقبل کی آرزدمندی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اس کا ماضی کا تانا بانا امرتسر سے لے کر اندلس اور غرناطہ تک ممتد ہے۔ امرتسر کے کمپنی باغ کی سرحدیں قصر الحمراء کے باغوں سے جاملتی ہیں۔ امرتسر کی نوحہ خواں اور ویران مسجدوں سے اسے مسجد قرطبہ یاد آتی ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح شوق مری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے! کارجز پڑھنے لگتا ہے۔
اے حمید اردو کا وہ ادیب ہے جس کی تحریر رومانیت کی خوشبوں سے معطر ہوتی ہے میں نے برسوں پہلے اس کاناولٹ زرد گلاب پڑھا تھا اس کا انتساب اب بھی ذہن میں گونجتا ہے اور یہ کوئی شعر نہیں اے حمید کی خوب صورت نثر ہے ’’موتئے کے پھولوں پر گرنے والی شبنم ہمارے پیار میں گھنے جنگلوں کی آگ ہے اور ہماری آواز میں نیلے سمندروں کے گیت ہیں ہم رات کی دہلیز پر بیٹھ کر سورج نکلنے کا انتظار کریں گے!‘‘
اے حمید رات کی دہلیز پر بیٹھ کر سورج نکلنے کا انتظار کررہا ہے اور امرتسر کی یادیں اس کے سفر کا واحد اثاثہ ہیں وہ بات کرتا ہے تو ہر جگہ اس کی خوشبوؤں میں ایک تیسری خوشبو شامل ہوجاتی ہے’’کشمیری چائے کی لطیف بھاپ نے کارنس پر رکھے گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مل کر کمرے کو مہکادیا ریحانہ نیلی پتی دار جاپانی پیالیوں میں چائے ڈالنے لگی اور میں نے پائپ سلگالیا اب کمرے کی فضا میں ایک تیسری خوشبو نے جنم لیا۔ کشمیری چائے گلاب کے پھول اور ایران مورتمبا کوکی فلیور کا ملاپ یہ تھی تیسری خوشبو امرتسر کی خوشبو۔ کمپنی باغ کے بارش میں بھیگتے اور گرم دوپہروں میں نہر کے کنارے اگے ہوئے مرطوب گھاس اور رات کے پچھلے پہرامرتسر کی کسی گلی میں رخصت ہوتی ہوئی دلہن کی خوشبو۔ امرتسر اس وقت میری سبز چائے کی پیالی میں تھا اور میرے پائپ کے فلیور میں تھا اور میرے سامنے بیٹھے ہوئے والد صاحب کی سمٹی ہوئی آنکھوں میں تھا(صفحہ27)۔
یہ اقتباس کسی رومانوی افسانہ کا حصہ نہیں بلکہ جلیا نوالہ باغ کے خونیں حادثہ سے متعلق باب کا حصہ ہے اے حمید نے اس حادثہ پر لکھنے کی ابتدا بھی امرتسر کی کوخوشبو سے کی ہے یہی اے حمید کی انفرادیت ہے یہی خوشبو ہے جس سے اس کی تحریر مہکتی ہے اس نے خود بھی تو یہی کیا ہے کہ’’ وہ قلم سے نہیں لکھتا گلاب کی ٹہنی سے لکھتا ہے!‘‘ (صفحہ88)۔
کتاب‘ چند یادیں چند باتیں!سے شروع ہوکر عنوان بہ عنوان‘ امرتسر میں چودہ اگست!‘ امرتسر کا جلیانوالہ باغ! امرتسر کا کمپنی باغ!‘ امرتسر کی ایک گلی!‘ امرتسر کی مسجدیں! غرض امرتسر کے ہر پہلو کو بیان کرتی ہے حتیٰ کہ امرتسر کے جن بھوت! تک اے حمید کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہتے مگر کتاب محض رپورتا ژبن کر نہیں رہ گئی ہے اس کتاب میں یادنگاری کی تمام خوبیاں جوبن پر ہیں۔ بیانیہ میں دل آویزی ہے وہی دل آویزی جو اے حمید کی رومانی تحریر کا طرہ امتیاز ہے۔ دروازہ مہمان سنگھ کا ذکر ہے مگر آغاز باغوں اور پھولوں سے ہوتا ہے ’’باغ میں یوکلپٹس کے نو عمر چھر یرے درخت ہؤا کرتے تھے جن کی لمبوترے پتوں والی ٹہنیاں گرمیوں کی صبح کی ٹھنڈی ہوا میں جھولا کرتی تھیں!‘‘ قیام پاکستان کے پانچ سال بعد جب میں امرتسر گیا تو ان درختوں نے دور سے مجھے آتا دیکھ کر اپنی شاخیں ہلا ہلا کر مجھے اپنی طرف بلایا مجھے اپنی بے زبانی میں خاموش آوازیں دیں۔ اپنی سونفی خوشبوں میں میرا نام لے لے کر پکاراً‘‘ ’’میں نے ایک درخت کے تنے پر ہاتھ رکھا اس کا دل دھڑک رہا تھا درخت کی ایک ٹہنی نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا میرا دل بھی دھڑک رہا تھا!(صفحہ 13۔14جستہ جستہ)۔
جب درختوں اور انسانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکنے لگیں توپیار کا جو رشتہ جنم لیتا ہے وہ امر ہوتا ہے۔ اس مٹی میں بوئے ہوئے بیج اب تناور گھنے درخت بن کر میری محبتوں کے پرانے درختوں پر سایہ کئے ہوئے ہیں ان درختوں کی چھاؤں میں کہیں موتئے کے جھاڑہیں اور کہیں جنگلی گلاب کھلے ہیں زندگی کے سٹیج پر جب آخری پردہ گرے گا تو میں واپس موتئے کی خوشبوں سے مہکتے ہوئے اپنی محبتوں کے ان پرانے رستوں پر نکل جاؤں گا!‘‘(صفحہ94) ’’جہاں پرندے ہیں جو محبت کرنے والوں کو نہیں بھولتے!‘‘(صفحہ24)’’اور ایک بڑی پیاری آنکھوں والی گلہری ہے جو شیشم کے پتوں پر بیٹھی سورج کی تابناک روشنی میں اس کی طرف دیکھ رہی ہے!‘‘ (صفحہ26)’’گھنی بیلیں ہیں جن کی شاخیں موسم بہار میں گلابی پھولوں کے جھومروں سے لد جاتی ہیں! اور ہر طرف گہری ٹھنڈی شبنم آلود خاموشی ہے!‘‘ (صفحہ123۔ 124) اے حمید کایہی رنگ ہے کہ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہوکر زندگی گزاررہا ہے اور مرکر بھی اسی فضا کا جزوبن جانا چاہتا ہے۔
یہ کتاب امرتسر کی تمدنی اور تہذیبی زندگی کا بڑا شفاف آئینہ ہے اس شہر میں امیر بھی ہیں غریب بھی ہیں مسلمان بھی ہیں ہندو بھی ہیں سکھ بھی ہیں مگر سب ’’امبر سری!‘‘ ہیں جن کے نام اے حمید نے اپنی کتاب معنون کی ہے مگر تقسیم کا غلغلہ ہوا تو مسلم غیر مسلم تفریق ابھر کر سامنے آگئی اور امرتسر واضح طور پر دوگروہوں میں بٹ گیا۔ وہ جو کلمہ گو تھے اور وہ جو کلمہ گو نہیں تھے۔ مارچ1947ء میں فسادات شروع ہوگئے انسان انسان دشمن ہوگیا اور اس دشمنی میں انسانیت نے دم توڑدیا مسلمانوں نے غیر مسلموں کو لوٹا غیر مسلموں نے مسلمانوں کی تکابوٹی کردی جو بہیمیت ہوئی اسے اے حمید نے بڑی دیانت داری سے بیان کیا ہے۔
اس نے اپنے ابا جی سے لوٹ مار کی جو داستان سنی وہ اس نے بے کم وکاست بیان کردی ہے وہ بھی جو مسلمانوں نے کی وہ بھی غیر مسلموں نے روارکھی۔ اے حمید نے خود جو لوٹ مار کی اسے بھی نہیں چھپایا’’ہال بازار میں سکھ اور ہندو اپنی دکانیں بند کرکے بھاگ گئے۔ مسلمانوں نے ان دکانوں کو لوٹ کر آگ لگادی ہمارے محلے میں کیسر سنگھ اور لکھی ٹال والے کی منیاری کی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ کیسر سنگھ سے جب کوئی گاہک نمبر آٹھ مارکہ ڈور کی گوٹ لینے آتا تو وہ سیڑھی لگا کر بندر کی طرح اوپرچڑھتا اورایک ڈبے میں سے گوٹ نکال کر لے آتا۔ لوٹ مار کے دن میں نے بھی اسی طرح سیڑھی دیوار کے ساتھ لگائی بندر کی طرح پھرتی سے اوپر چڑھا او رنمبر آٹھ کی ڈور کی پوری درجن گوٹیں لے کے نیچے آگیا۔ لکھی والی دکان سے میں نے جیلٹ بلیڈ کے کتنے ہی پیکٹ لوٹے اور گھر سنبھال کر رکھ دئے یہ سب کچھ وہیں پڑے کا پڑارہ گیا!‘‘ (صفحہ37)۔
اے حمید فروری1947ء کے اخیر یا مارچ کے شروع میں کولمبو سے واپس آیا اور مارچ میں اپنی امی اور بہنوں کو لاہور چھوڑ کر واپس کولمبو چلا گیا جہاں سے اس کی واپسی13اگست کوہوئی اس لئے مارچ سے اگست تک کے حالات کا اے حمید عینی گواہ نہیں۔
جلیاں والا باغ پر پورا ایک باب ہے مگر اس باب کے راوی اس کے والد صاحب ہیں جو اس حادثہ خونچکاں کے موقع پر اس باغ میں موجود تھے یہ اے حمید کی ادبی دیانت ہے ورنہ یوپی کے جلیل قدوائی صاحب نے اپنی خودنوشت ’’حیات مستعار‘‘ میں جلیانوالہ باغ کے واقعات یوں بیان کئے ہیں گویا وہ اس وقت اس ’’رینگنی گلی‘‘ میں بذات خود موجود تھے۔ حمید نسیم نے بھی اپنی خود نوشت ’’ناممکن کی جستجو‘‘ میں امرتسر کا ذکر کیا ہے مگر اس کے امرتسر اور اے حمید کے امرتسر میں پوری ایک نسل کا فرق ہے۔ حمید نسیم کے ہاں رشید جہاں ہیں رشید الظفر ہیں، ڈاکٹر تاثیر ہیں فیض احمد فیض ہیں، چراغ حسن حسرت ہیں۔ اے حمید کے ہاں ان میں سے کوئی موجود نہیں مگر اس کی امرتسر کی یادوں میں محض باغ پھول اور شگوفے ہی نہیں امرتسر کے چھوٹے بڑے سارے عام لوگ شامل ہیں۔
سینڈوہے جو تنور پر کلچے لگاتا ہے۔ راجپوتی شان کی سفید گپھے دار مونچھوں والے شیخ حبیب ہیں۔ سیف الدین سیف کی ’’پر سکون نیم و اگرم آنکھیں‘‘ ہیں ۔بابوغلام محمد بٹ ہے جو سمر قندوالوں کے اس قالین کے جواب میں جس پر میکسم گورکی کی تصویر بنی ہوتی ہے ایسا قالین بناکر بھیجتا ہے جس پر قائداعظم کی تصویر بنی ہوئی ہے اور سمر قند والوں سے اپنے فن کی داد پاتا ہے۔ امرتسر کارجز گو نفیس خلیلی ہے۔ موٹی موٹی نشیلی آنکھوں والا اور دبلا پتلا نازک احساس شاعر علاؤ الدین کلیم ہے۔ سنہری داڑھی او رلمبے لمبے سنہری بالوں والا ظہیر کاشمیری ہے جو تانگہ ڈرائیور یونین کا جنرل سکرٹری ہے۔ آغا خلش کا شمیری ہیں جو ’’شعر کی زمین ختم ہوجائے تو پانی میں اتر جاتے ہیں اور وہاں سے بھی شعر نکال لاتے ہیں!‘‘ (صفحہ204)۔
اور سب سے اہم کامریڈ موہن سنگھ بجلی ہے جو جلتے سلگتے شہر میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک معصوم شہید لڑکی رضیہ کی دی ہوئی امانت اے حمید کو پہنچانے آتا ہے۔ رضیہ نے شہید ہونے سے پہلے یہ امانت کامریڈ کے سپرد کی تھی یہ ایک تعویذ ہے جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے۔
رضیہ نے یہ تعویذ کا مریڈ کے سپرد کیا تھا اور اسے وصیت کی تھی کہ وہ اسے کسی مسلمان کو پہنچادے(صفحہ194) غرض یہ کتاب امبر سریوں کی معاشرت کی نہایت اعلیٰ تصویر ہے وہ معاشرت جو اے حمید کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔
اے حمید نے محض یادوں کو ہی قلمبند نہیں کیا اپنی نئی نسل کو یاد دلانے کی سعی بھی کی ہے کہ’’کیا کیا کچھ پاکستان پر قربان ہوگیا۔ کیسے کیسے انمول موتی خاک میں مل گئے۔ ہماری تاریخ کا یہ ایک الم انگیز باب ہے جس کا ہر ورق ہمارے عظیم شہدا کے خون سے سرخرو ہے جس کی ہر سطر ایک دیوار گر یہ ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کو اس دیوار گر یہ کے سامنے لے جاؤں‘‘(صفحہ120) یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کے اس باب کو اپنی قومی زندگی کی تاریخ سے سے پھاڑ کر علیحدہ نہیں کرسکتے اور جو قو میں ایسا کرتی ہیں تاریخ انہیں دیوار گر یہ بنادیا کرتی ہے۔ر
♠