پاکستان کی سول خفیہ ایجنسی انٹیلجنس بیور (آئی بی) کے سربراہ کی جانب سے ملک میں دہشت گرد تنظیم داعش کے نیٹ ورک کی موجودگی کے انکشاف کو ملکی سلامتی کی صورتحال کے لئے ایک اہم چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔
آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان نے بدھ کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امورکو بتایا تھا ’دولت اسلامیہ‘ کہلانے والی تنظیم کا پاکستان میں نیٹ ورک موجود ہے۔ تاہم انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک میں ’دولت اسلامیہ‘ کے نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لاتے ہوئے اس کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا ہے۔
آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ بعض مذہبی جماعتیں ’دولت اسلامیہ‘ جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، کی سوچ کی حمایت کرتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اس تنظیم کی حمایت کرتی ہے جبکہ افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پاکستان میں داعش کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دہشت گرد تنظیم کی پاکستان میں موجودگی کے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔
تاہم آفتاب سلطان کے مطابق کراچی میں گزشتہ سال مئی میں ہونے والے سانحہ صفورہ گوٹھ کے بعد پنجاب بھر میں داعش کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور تنظیم کے متعدد اراکین گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ آئی بی کے سربراہ نے داعش اور دیگر جہادی تنظیموں کے اثرات کو روکنے کے لئے ’’جہادی عناصر کی بحالی‘‘ اور سوشل میڈیا اور سائبر اسپیس کی نگرانی کے لیے پالیسی کے مؤثر عمل کے لیے ایک جامع پالیسی کا مطالبہ بھی کیا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی بی کے سربراہ کے انکشاف کے بعد کم ازکم یہ واضح ہے کہ اب حکومتی سطح پر بھی داعش کے خطرے کی موجودگی کا ادراک پایا جاتا ہے۔
شدت پسند جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ کئی حلقے کافی عرصے سے داعش کے خطرے کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن ریاست یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید داعش کا خطرہ تب ہو، جب شام یا عراق سے اس تنظیم کا کوئی گروپ یہاں آئے گا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا، ’’یہاں پر شدت پسند تنظیموں کا ڈھانچہ تو پہلے سے موجود تھا تو اس میں سے کچھ تنظیموں نے آگے بڑھ کر داعش کے ساتھ وفاداری کا حلف لیا۔اس کے علاوہ کچھ غیر مسلح لیکن شدت پسند سوچ رکھنے والی تنظیموں اور افراد کی ہمدردیاں بھی داعش کو حاصل ہیں تو یہ اس سوچ سے ایک الگ معاملہ ہے جو حکومت نے اب تک داعش کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں اپنا رکھی تھی‘‘۔
انہوں نے کہاکہ اب اہم بات یہ ہے کہ اس بحث سے آگے بڑھا جائے کہ داعش یہاں موجود ہے یا نہیں ؟ بلکہ اب یہ سوچا جائے کہ اس اتنے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لئے کیا سکیورٹی اپروچ اپنانی چاہیے؟ عامر رانا کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ ضرورت ایسی مذہبی جماعتوں اور افراد کی نگرانی ہے، جو داعش کے شدت پسندانہ نظریات کی طرف راغب ہیں یا ممکنہ طور پر راغب ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں داعش کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی تھی تاہم حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا صرف خوف وہراس پھیلانے کے لئے کیاجارہا ہے۔
اس ضمن میں شدت پسند مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں کا دعوی بھی کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ پاکستان سے ایک سو کے قریب شدت پسند ’دولت اسلامیہ‘ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے شام پہنچے ہیں۔
دو ماہ قبل ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ افغانستان کے شمالی صوبے ننگر ہار سے داعش کے زیر انتطام چلنے والے خلافت ریڈیو کی نشریات پاکستان کے اس صوبے سے متصل قبائلی علاقوں میں بھی با آسانی سنی جاسکتی ہیں۔ تاہم پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ان نشریات کو اپنے علاقوں میں بند کردیا ہے۔
DW