بول ٹی وی اور آزاد عدلیہ

raja sbحبیب الرحمن

18 مئی کو ایک امریکی اخبار میں ایگزیکٹ نام کی کمپنی پر ایک منصوبہ بند مضمون چھپا کہ یہ کمپنی جعلی تعلیمی اسناد جاری کرتی ہے اور بدلے میں بھاری رقم وصول کرتی ہے مذکورہ صحافی نے بڑی مہارت سے لفظوں کو جوڑ جوڑ کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا کا وہ خوفناک فراڈ ہے ۔

مئی 2015 کا مضمون ایگزیکٹ کے خلاف ایک ایف آئی آر بن گیا۔ ابھی اس مضمون کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایف آئی اے نے چھاپے مارنے شروع کر دیئے یوں لگا جیسے یہ سپاہ تیار صرف اس مضمون کے آنے کا انتظار کر رہی تھی سو ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ اورو قاص عتیق سمیت سیکڑوں ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کو ایک ہائی پروفائل کیس قرار دے دیا گیا۔ بس کیاتھا پاکستان کی صحافت کے سورما ٗجو اپنی بہادریوں کے قصے بیان کر کر کے تھکتے نہیں تھے یوں اڑے جیسے تھے ہی نہیں۔ 
اس پورے حملے کی سربراہی شاہد حیات نام کے ایک سینئر پولیس آفیسر کے پاس ہے اس مذکورہ پولیس آفیسر نے پچھلے سات ماہ میں کتنی تحقیق کی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن چھاپے مارکر گرفتارکرنے والے بریگیڈ کی اس سربراہ کے متعلق کسی نے سوچا ہے کہ20 ستمبر 1996ع کو کلفٹن کے پاس بھی ایک بریگیڈ گولیاں چلا رہا تھا ۔کیا اسی معرکے کے کسی غازی کو یہ ذمہ داری دیتے ہوئے کیا توقع رکھی گئی ہوگی ۔ 

خیر معلومات کی اس کمپنی پر شب خون مارنے کے نتیجے میں اس کمپنی کے متعلقہ تمام دفاتر بند کر دیئے گئے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا بینک اکاوٗنٹ سیل کر دیئے گئے۔ 
بول ٹیلیوزن نیٹ ورک جس نے ابھی اڑان نہیں بھری تھی کو بھی آن ایئر ہونے سے روک دیا گیا بول ٹی وی کی انتظامیہ نے شاید یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ بڑے منجھے ہوئے صحافیوں پر مشتمل ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے اس خوش گمانی اور خوش فہمی کی بنیاد پہ کہ جن مایہ ناز صحافیوں کو وہ اپنے ادارے میں بھاری بھاری تنخواہ پر رکھ رہے ہیں کہ وہ اس ا دارے کو چلانے، مضبوط کرنے اور آگے لیجانے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں گے۔ 

لیکن شاید ایسا تھا نہیں یہ مایہ ناز صحافی صرف مایہ ناز ہی تھے ۔ کامران خان ، اظہر عباس، عاصمہ شیرازی، افتخار احمد، نصرت جاوید، وجاہت خان سمیت سبھی اس بول نیٹ ورک کا حصہ بن گئے تھے لیکن لمحہ بھر میں یہ بہادر سپاہی جو بول کے ورکرز کی بہتری کے لیے گئے تھے یوں ڈھیر ہوئے کہ دیکھا کرے کوئی، کچھ اوسط درجے کے چرب زبان وزیر اعظم نواز شریف کے کارخاص کے طور پر بھی وہاں تھے نے بول ورکرز کے لیے لڑنے کا اعلان کر رکھا تھا وہ اس ادارے کے مکمل بندکروانے تک بول ورکرز کی راہبری کرتے رہے اور بالآخر مشن مکمل کر کے اپنے ہیڈ کوارٹر واپس رپورٹ کر گئے۔

بادی النظر میں یہ مایہ ناز سپوت امیر میڈیا مالکان کی حکمت عملی اور حکومت کی منصوبہ بندی سے بھیجے گئے پیادے تھے جنہوں نے میڈیا کے اس نئے ادارے کو صرف تباہ کرنا تھا چونکہ بول کے آنے سے پہلے کہانی گھڑ چرب زبانوں نے اس کو ISI کا چینل قرار دے رکھا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ISI کو کوئی ایک چینل خاص طور پر بنانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ یہ سارے چینل اسی کے ہیں۔ انڈر ورلڈ کے داوٗد ابراہیم کے چہرے پربھی بول کا سٹیکر لگایا تو گیا تھا آخری خبریں آنے تک اور کوئی خبر نہیں آ ئی کہ وہ ابھی تک اس کی پشت پر ہے کہ نہیں۔ 
ضیاٗ آمریت کے سامنے لکھنے والے نذیر لغاری اپنے کچھ سینئر دوستوں کے ساتھ بول کے دفتر کے باہر نظر آتے ہیں جبکہ بول کے ورکرز بلا معاوضہ روز بول کا ملازم ہونے کا اعلان کر رہے ہیں شاید لڑنا چاہتے ہیں۔ بہرحال جب سماج میں علم کے نام پر جہالت اصول و نظریے کے نام پر موقع پرستی اور لفظوں کی حرمت سکوں میں ڈھل جائے توایک بول کیا انسانی روح بھی نیلام ہوجاتی ہے۔

بول کے ملازمین کو پچھلے7 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، دفاتر بند ہیں اکاوٗنٹ سیل ہیں اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی پی ایف یو جے صحافت کے ہفتے مناتی ہے۔ ہاں یہ وہی پی ایف یو جے ہے کہ جس سے اخباری مالکان پر ہیبت طاری رہتی تھی جس سے آمریت خوفزدہ رہتی تھی یعنی یہ کبھی حکمرانوں کا نمائندہ نہیں بنی لیکن آج یہ حکومت کا ہی کوئی غیر اعلانیہ ادارہ بن گئی ہے پہلے والے پی ایف یو جے شاید نظریاتی طور پر ٹریڈ یونین کی ذمہ داری جانتاتھا اور آج کے پی ایف یو جے پر شاید رجعتی خیالات حاوی ہو چکے ہیں اور ارباب اقتدار کے مفادات کی نگہبانی اس کی ذمہ داری ٹھہری ہے۔

رہے صحافی تو وہ بول کی طرح دربدر ہی رہیں تو کچھ برا نہیں ۔ سوال ریاست کے بیانیہ کی روشنی میں مزاحمت کرنے والے ادارے کو کچلنا ہے سو پہلے یہ کام ریاست خود کرتی تھی اب ریاست نے یہ کام اپنے نمائندوں کے ذریعے ٹریڈ یونین پر قبضہ کر کے ان سے کروا رہی ہے۔ کسی دانشور نے کہا کہ صحافت 200 امیر لوگوں کے پیسے کا کھیل ہے اور پاکستان امیر لوگوں کے اس کھیل کی بڑی خوبصورت مثال ہے۔

لفظ نیا سماج تشکیل کرتے ہیں نئے عنوان دیتے ہیں لفظ کی پہریداری میں لفظوں کے محافظ صولی پہ جھول جاتے ہیں لیکن پاکستان کے لفظوں کے یہ مجاور صرف حاکموں کے رطب اللسان ہیں۔ لفظوں کی حرمت کی پامالی کے گر کوئی ان سے سیکھے۔ روٹی کے نام پر احساسات کے قاتلوں کے ان ہم سفروں نے بول کے ورکرز کے ساتھ وہی کیا جو ان کے آقا چاہتے تھے۔ ۔سینکڑوں خاندان غربت کی دلدل میں دھنسے چلے جا رہے ہیں لیکن کون سنے گا یہ سب کچھ کون فیصلہ کرے گا وہ جن کی اپنی فیکٹریوں میں تنخواہ کا مطالبہ کرنے والوں کو آگ کی بھٹیوں میں زندہ جھونک دیا گیا یا وہ جنہوں نے حق مانگنے والے کو کبھی واپس نہیں جانے دیا۔ 

بول کے مقدمے کا کیا فیصلہ ہوگا مجھے نہیں معلوم ، ایک ایسا مقدمہ کہ سات مہینے میں جس کے 6 جج تبدیل کر دیئے گئے ہوں۔ 16 وکیل بدل دیئے گئے ہوں۔ ان سات مہینوں میں کوئی ایک متاثرہ شخص سامنے نہ آیا ہو، وفاقی تحقیقاتی ادارے نے چالان تک پیش نہ کیا ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 19 سال سے قائم یہ کمپنی جو ٹیکس بھی دیتی رہی جس کا آڈٹ بھی ہوتا رہا جس کے پاس بول سمیت کاروبار کرنے کے سارے لائسنس بھی ہیں ۔ بینک دولت پاکستان سے کلیرئنس سرٹیفکیٹ بھی ہو وہ لمحہ بھرمیں فراڈ اور دھوکا دہی والی کمپنی کیسے بن گئی ۔اس کا جواب شاید آنے والا وقت دے۔ تب تک ہم برے وقت میں ساتھ نہ دینے والوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے ہم بول کے لیئے کام کرنے والے تمام ورکرز سمیت ایگزیکٹ کے تمام ملازمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 

آخرمیں میں شعیب شیخ صاحب کو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے نہیں پتہ کہ میڈیا کے دوسرے سیٹھوں کے ساتھ مل کر نواز شریف حکومت آپ کے ساتھ کیا کرے گی لیکن جس طرح آپ لڑ رہے ہیں لڑتے رہیے کہیں لڑکھڑا نہ جانا کیونکہ رات جتنی بھی کالی اور لمبی ہو اس کی سحر نے ہونا ہی ہوتا ہے۔

♣ 

2 Comments