افغان خواتین کا محبت کے موضوع پر بات کرنا ہی ان کے قتل کا باعث بن سکتا ہے لیکن پھر بھی وہاں کچھ نوجوان شاعر خواتین دیگر موضوعات کے علاوہ اس روایتی مضمون پر بھی طبع آزمائی کر رہی ہیں۔
کاجل سے بھری آنکھوں کو جھکا کر بیس سالہ نادیہ پشتو زبان میں لکھی اپنی نظم سناتی ہے:۔
’شمع کے مانند تمام رات جلتی ہوں
میں اپنے محبوب سے جدا ہوں
اس غم میں
گرم موم کی طرح پگھلتی رہتی ہوں
اور بالآخر بجھ جاتی ہوں‘
یونیورسٹی اسٹوڈنٹ نادیہ قندھار شہر میں قائم کی گئی خواتین کی ادبی سوسائٹی ’میرمن بھیر‘ کی ممبر بھی ہیں۔ یہ سوسائٹی ایک ایسے شہر میں خفیہ طور پر اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے، جو ’خواتین کو حقیر‘ تصور کرنے والے طالبان کی تحریک کی جائے پیدائش تصور کیا جاتا ہے۔
اس سوسائٹی کی رکن خواتین زیادہ تر رومانوی محبت سے متعلق موضوعات پر شاعری کرتی ہیں۔ کبھی کبھار ان کی شاعری میں محبت کا تعلق جنس، شادی اور ٹوٹے ہوئے دل سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ یہ ایسے موضوعات ہیں، جو افغان معاشرے کی قدامت پسند روایت کے بالکل برعکس ہیں۔
نادیہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ایک ایسی لڑکی سے کون شادی کرے گا، جو شاعری کرتی ہے۔‘‘ ان کا اشارہ اپنی ماں کی طرف تھا، جس نے نادیہ کو اس ادبی انجمن سے دور رہنے کی تاکید کی تھی۔ انہوں نے افغان معاشرے میں رچے بسے فرسودہ خیالات و نظریات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ فوری طور پر منفی رائے قائم کر لیتے ہیں، ’’ یہ لڑکی محبت کے بارے میں شاعری کرتی ہے، ضرور یہ بُرے کردار کی مالک ہو گی۔‘‘
سخت سزاؤں کے خوف کے باوجود اس ادبی سوسائٹی کی رکن خواتین اپنے ادبی ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کی خاطر جمع ہوتی ہیں۔ تاہم خواتین کے اس طرح کے اجتماعات کی خبریں کہاں چُھپی رہ سکتی ہیں، اس لیے ان محفلوں میں شرکت کے لیے جانے والی لڑکیاں اور خواتین اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ واپس گھر لوٹتے ہوئے وہ یہ بہانہ کر سکیں کہ وہ تو کسی دوست سے ملنے گئی تھیں۔
’میرمن بھیر‘ کی رکن ایسی خواتین، جو کسی خوف کی وجہ سے باقاعدہ محلفوں میں شریک نہیں ہو سکتی ہیں، انہیں ٹیلی فون لائنز پر ہی محفل میں شریک کر لیا جاتا ہے۔ ایسی شاعر خواتین اپنی شاعری ٹیلی فون پر ہی سناتی ہیں، جنہیں محفل میں موجود خواتین دل کھول کر داد دیتی ہیں۔
افغان خاتون شاعر اور مصنفہ وحیدہ واراستہ نے اے ایف پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان مرد تصور کرتے ہیں کہ وہ اگر اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر دیتے ہیں تو ان کی عزت محفوظ رہے گی، ’’ایسی خواتین، جو گھر سے نکل کر اپنی شاعری سنائیں گی تو انہیں بہرحال یہ خطرہ لاحق ہو گا کہ وہ معاشرے میں طوائف قرار دے دی جائیں گی۔‘‘
سن 2010ء میں زرمینہ نامی ایک نو عمر شاعرہ نے اس وقت خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی تھی، جب اس کے بھائی نے اس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ٹیلی فون پر کسی لڑکے کو شاعری سنا رہی تھی۔ دراصل ہلمند صوبے کی رہائشی زرمینہ ’میرمن بھیر‘ سوسائٹی کی مستقل رکن تھی، جو ایسی شاعرانہ محفلوں میں ٹیلی فون کے ذریعے شرکت کرتی تھی۔
کابل میں اس سوسائٹی کی کوآرڈینیٹر پاکیزہ آرزو کا کہنا ہے، ’’ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں محبت سے لطف اندوز ہونے پر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔‘‘ کابل میں اس ادبی سوسائٹی کی محلفیں ہفتہ وار بنیادوں پر کھلے عام منعقد کی جاتی ہیں، جن میں یونیورسٹی کی اساتذہ، وکلاء، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے لیے ایسی خصوصی محلفوں کے انعقاد سے افغان معاشرے میں انہیں نہ صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے گا بلکہ اس سے معاشرے کی فرسودہ اور قدامت پسند روایات کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
DW