پاکستان کی ہندوستانی تہذیب کے خلاف جاری جنگ

طفیل احمد

azhar

کوئی تیرہ صدیاں پہلے712 عیسوی کو ایک غیر ملکی طاقت نے ہندوستانی تہذیب پر دھاوا بولا۔اور پھر اگلے کئی ہزار سالوں سے ہندوستانی لوگ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے ساتھ (اکاموڈیٹ) رکھتے چلے آرہے ہیں۔ 1947 میں ان کا خیال تھا کہ وہ ہندوستان سے اپنا علیحدہ ٹکڑا لے کر وہاں ایک پرامن ریاست بنالیں گیا اور انہوں نے پاکستان بنالیا ۔ اب 2015 میں ایک بار پھر سیاسی تجزیہ نگار اس غیرملکی طاقت کی سائیڈ لیتے ہوئے بھارتی حکومت کو قائل کررہے ہیں ہمیں اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔

دس جولائی کو اوفا میں نریندر مودی نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے سال ہوائی جہاز پر امن مشن کے لیے پاکستان جائیں گے۔ (یاد رہے کہ اس سے پہلے اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے امن مشن پر آئے تھے جسے پاکستان آرمی نے کارگل کی صورت میں سبوتارژ کر دیا تھا)۔ جہاز کی بات کی جائے تو بھارتی میڈیا اپنے نوجوانوں کو بتاتا ہے کہ 1999 میں کچھ دہشت گردوں نے انڈین ائیر لائنز کا طیارہ اغوا کرکے قندھار میں اتار لیا تھا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ جہاز پاکستانی ریاست نے اغوا کروایا تھاتاکہ بھارتی کشمیر کی جیل میں موجودجیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو رہا کروایا جا سکے۔ (مولانا مسعود اظہر نے بھارت سے رہائی کے بعد جیش محمد کے قیام کا اعلان کیا تھا) ۔ جیش محمد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ذیلی شاخ ہی کہی جا سکتی ہے۔ تین دہشت گرد کمانڈروں نے اپنے انٹرویوز میں یہ تسلیم کیا کہ جیش محمد آئی ایس آئی کا ذیلی ادارہ تھا۔

پچیس جون کو القاعدہ کے ہندوستانی شاخ کے نمائندے آدم غادھن نے، جو وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مارا گیا، اپنے ایک انٹرویو میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور جیش محمد کے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔1998 میں جب وہ آخری مرتبہ پاکستان گیا تو وہ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے کویت ہاسٹل میں ٹھہرا۔غادھن کے مطابق کویت ہاسٹل سے اسے دو پاکستانی برادرز لینے آئے جن کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق مولانا مسعود اظہر کے گروپ سے ہے جو اس وقت بھارتی جیل میں قید تھا۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ دوبڑے گروپ ہیں جو بھارتی کشمیر میں دہشت گردی میں مصروف ہیں۔

دو افراد عدنان رشید اور شمس کشمیر ی کے انٹرویو بھی ہیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ کیسے جیش محمد آئی ایس آئی سے ہدایات لیتی ہے۔جیش محمد کے سابقہ ڈپٹی چیف شمس کشمیری نے پچھلے سال انکشاف کیا تھا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے عالمی دباؤ پر جہادی تنظیموں کے دفاتر بند کیے تو جنرل اشفاق کیانی ، اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ، نے جیش محمد، لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین اور دیگر عسکریت پسندوں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ جنرل کیانی نے بعد میں آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا تھا جن کی نگرانی میں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

دوہزار تیرہ میں پاکستانی طالبان کے کمانڈر عدنان رشید نے انکشاف کیا کہ ائیر فورس کی ملازمت کے دوران اسے جیش محمد کے تربیتی کیمپ میں بھیجا گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ ہم تو یونیفارم والے سپاہی ہیں جبکہ جیش محمد بغیر یونیفارم کے سپاہی ہیں ۔ ہمیں اور جیش محمد کو براہ راست آئی ایس آئی سے ہدایات ملتی تھیں۔عدنان رشید نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان ائیر فورس میں وہ اس یونٹ کا حصہ تھے جس کا نام ادارۃ الپاکستان تھا۔ جس کا مقصد پاکستانی افواج میں جہادی نیٹ ورک کی تشکیل کرنا تھا اور  القاعدہ ان انڈین سب کانٹینٹ اس کی نئی شاخ تھی۔

پریشانی اس بات کی ہے کہ پاکستان مسلسل جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی اسی طرح حفاظت کررہاہے جیسا کہ اسامہ بن لادن یا مُلا عمر یا پھر ایمن الظواہری اور حافظ سعید وغیرہ کی کررہا ہے۔ جیش محمد کے الرحمت ٹرسٹ کی جانب سے ایک ہفت روزہ القلم شائع کیا جاتا ہے جو پاکستان بھر میں بھاری تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔ چودہ جولائی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بھارتی کشمیر کے ناؤ گام سیکٹر میں دو ہفتوں کی کامیابی کا جشن منایا ۔

آج سے کئی صدیاں پہلے محمد بن قاسم کی قیادت میں جو بیرونی قوت ہندوستان آئی تھی وہی قوت آج جیش محمد اور آئی ایس آئی کی رہنمائی میں کام کر رہی ہے۔کشمیر میں وہ انڈیا کی مل جل کررہنے کی پالیسی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یکم جولائی سے انیس جولائی تک پاکستانی افواج نے لائن آف کنٹرول کے پار گیارہ بار فائرنگ کرکے سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے اور جیش محمد اور لشکر طیبہ کے دہشت گردوں نے بھارتی فوج کے ساتھ لڑائی کی۔ تیرہ جولائی کو ایک پاکستانی جوکہ لشکر طیبہ کا رکن تھا ضلع پونچھ میں لڑتے ہوئے مارا گیا ۔ تین اور چار جولائی کواری سیکٹر میں پانچ عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔اگر کوئی ادارہ ان واقعات کی فہرست بنائے تو دنیا کو پتہ چل سکے گا کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے کتنے حملے اور دراندازی کے واقعات ہوئے ہیں۔

اس بیرونی قوت کو پنجاب کی تقسیم تو منظور ہے لیکن کشمیر کی تقسیم منظور نہیں کیونکہ وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ ہندوستانی تہذیب کے خلاف جو بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان میں پاک فوج ، لشکر طیبہ، جیش محمد اور انڈین مجاہدین سر فہرست ہیں ۔ آخری تین کو پہلی والی مدد کر رہی ہے۔ یہ قوت ایسے غیر مسلم دہشت گردوں کی بھی مدد کرتی ہے جو خالصتان کے قیام کے نام پر آزادی چاہتے ہیں۔یہی وہ قوت ہے جس نے ملالہ یوسف زئی کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر گولیاں ماریں۔ پاکستان ائیر فورس کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام جنگیں پاکستان نے شروع کی تھیں۔

اس بیرونی قوت کے نزدیک امن کی کوئی اہمیت نہیں ۔ امن کو صرف ایک چال کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے۔ واجپائی کی تاریخی بس ڈپلومیسی کا نتیجہ کارگل پر حملے کی صورت میں نکلا۔ جب جنرل مشرف امن کی بات چیت کر رہے تھے تو اس وقت دہشت گرد ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ جب نواز شریف پاک بھارت بات چیت کا اعادہ کر رہے تھے تو دہشت گردوں نے(اگست 2013میں) جلال آباد کے بھارتی قونصلیٹ پر حملہ کر دیا۔

پاکستان کے ساتھ امن بات چیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کرتا یعنی پاکستانی آئین میں ترمیم کی جائے کہ غیر مسلم بھی ریاست کا سربراہ بن سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں کوئی غیر مسلم ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتاکیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ کشمیر میں جو جہادجاری ہے وہ دراصل ہندوستانی تہذیب کے خلاف جنگ ہے ۔ راقم سے ٹوئٹر پر کئی حضرات سوال کرتے ہیں کہ کیا ہندوستانی تہذیب ، اسلامی انتہا پسندی کو ختم کر سکتی ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک غیر ملکی طاقت ہندوستان کے تاریخی عمل کو بدل رہی ہے۔ ملتان ایک ہندو شہر تھا اور لاہور سکھوں کا دارلحکومت۔ اگر ہم اپنے بچوں کو یہ پڑھائیں کہ ہم سب کا تعلق ہڑپہ کی تہذیب سے ہے تو ہم میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ سلمان خان نے اپنی نئی فلم بجرنگی بھائی جان میں امید کی مشعل اٹھا رکھی ہے جس میں وہ ایک گونگی لڑکی کو پاکستان میں واپس اس کے والدین کے پاس بھجواتا ہے۔ سلمان خان نے ٹویٹ کیا کہ مودی اور نواز شریف دونوں کو یہ فلم دیکھنی چاہیے۔ بجرنگی (سلمان خان) یقیناًہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے ۔ پاکستان کی تہذیب ایک مصنوعی تہذ یب ہے جس کی کوئی جڑیں نہیں ہیں۔

پاکستان کی شناخت ہندوستانی تہذیب سے جڑی ہے۔ جہاد کا نظریہ ہندوستانی تہذیب کے لیے ایک بیرونی طاقت کا نظریہ ہے ۔ اسی بیرونی طاقت سے امن کی بات چیت کرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ،شام کی دولت اسلامیہ بھی محمد بن قاسم کی طرح ہندوستان میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس وقت اس کی قیادت شامی اور عراقی لڑاکا جنگجو کر رہے ہیں۔

طفیل احمد، مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، واشنگٹن ڈی سی، میں ساؤتھ ایشیا پراجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔بشکریہ نیو انڈین ایکسپریس، 30 جولائی 2015۔

Comments are closed.