انسانی حقوق ۔۔۔ دوسری کڑی

بات چِیت

kamrani

ڈاکٹر سنتوش کامرانی 

حقوق انسانی کے قوانین کا ماخذ وہ دستاویز ہے جس کو عالمی اعلان برائے حقوقِ انسانی کہا جا تا ہے۔ جو 1948ء میں لکھا گیا۔ اس دستاویز کے پیش لفظ کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

انسان فطری طور پر باوقار مخلوق ہے۔ انسان کے اس وقار کو ہر سطح پر تسلیم کیا جائے ۔ انسانی وقار کا تعلق آزادیِ انصاف اور امن سے وابستہ ہے ۔ دنیا میں حقوقِ انسانی کو اس لیے پامال کیا گیا کیونکہ انسانی وقار کے ان بنیادی تصورات (آذادی، انصاف اور امن)کو تسلیم کیا گیا ۔ لہذا ضروری قرار پایا کہ انسانی وقار کے بنیادی تصورات تسلیم کیا جائے اور اقوام متحدہ کے ممبر ممالک ان تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کو شش اور ذرائع کو برو ئے کار لائیں۔

یہ دستاویز 30 شقوں پر مشتمل ہے۔

1۔ تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ ان کو فطرت کی طرف سے عقل اور ضمیر ودیعت کی گئی ہیں لہذا ضروری ہے کہ انسان اخوت کے رشتے میں بندھے رہیں۔

2۔ اس اعلان کی رو سے تمام انسان آزادی اور حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں اور کسی کے ساتھ قوم، زبان، مذہب ، سیاست، رنگ، نسل، جنس، جائیداد یا حیثیت کی بناء پر تمیز نہ برتا جائے۔

3۔ زندگی، آزادی اور ذات کی حفاظت بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔

4۔ کسی انسان کو بطور غلام نہ رکھا جائے اور غلامی کی تمام صورتیں منسوخ کی جاتی ہیں۔

5۔ کسی کو بھی ظلم ، تشدد، بربریت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ایسا سلوک نہیں کیا جائے گا یا سزا نہیں دی جائے گی جو غیر انسانی ہو۔

6۔ فرد انسانی خواہ کہیں بھی ہو قانون کی نظر میں وہ انسانی فرد تصور ہوگا۔

7۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سب کے ساتھ بلا تمیز یکساں برتاو کیا جائے گا۔ قانون سب کو تحفظ پہنچانے کے لیے استعمال ہوگا اور کوئی قانون اس اعلان کے خلاف نہیں بنیا جائے گا۔

8۔ اگر کسی فرد کے بنیادی حقوق مجروح ہوں گے تو قانون یا آئین اس کی حفاظت کے لیے فعال ہوگا۔

9۔ کسی کو بھی بلا جواز گرفتار ، نظر بند یا ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

10۔ ہر ایک کا آزاد اور غیر جانبدار قانونی ادارے تک رسائی کاحق حاصل ہوگا اور ایک آزاد اور غیر جانبدار قانونی ادارہ ہی اس کے حقوق اور فرائض کا تعین کرے گا۔

11۔ (الف) کوئی بھی فرد اس وقت تک معصوم تصور ہوگا جب تک اس پر کوئی جرم قانونی دائرے میں ثابت نہ ہوجائے۔ اس عمل میں اس کو دفاع کرنے کے مواقع اور ذرائع فراہم ہونگے ۔

(ب) کسی کو بھی اس وقت تک مجرم نہیں ٹھہرایا جائے گا جب تک اس نے کسی قومی یا بین الا قوامی قانون کی خلاف ورذی نہ کی ہو اور یہ جرم ثابت نہ ہوا ہو۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس فرد کو وہی سزا دی جائے گی جو اس قومی یا بین الا قوامی قانون کے تحت تجویز کی گئی ہو۔

12۔ کسی فرد کی ذاتی یا خانگی زندگی یا تعلقات میں بزور مداخلت نہیں کی جائے گی اور ہر ایک فرد کو ایسی مداخلت کے خلاف قانونی تحفظ حا صل ہوگا۔

13۔ (الف) ہر ایک فرد کو اس کی ریاستی حدود کے اندر نقل و حرکت یا رہائش کی آزادی حا صل ہوگی۔

(ب) ہر ایک کو یہ حق حا صل ہوگا کہ وہ اپنا ملک چھوڑ دے یا اپنے ملک کو واپس آئے۔

14۔ (الف) ہر فرد کو یہ حق حا صل ہو گا کہ وہ ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے کسی دوسرے ملک میں پناہ حاصل کرے۔

(ب) اس حق سے اسوقت استفا دہ حاصل نہیں کر سکتا جب کسی فرد کو غیر سیاسی جرم/ جرائم کے تحت مجرم ٹھہرایا گیا ہو یا اقوام متحدہ کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔

15۔(الف) ہر ایک کو قومیت کا حق حا صل ہو گا۔

(ب) کسی فرد کو قومیت کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ اپنی قومیت بدلنے سے روکا جائے گا۔

16۔ ( الف) قانونی طور پر بالغ مرد و زن کو یہ حق حا صل ہوگا کہ اس کے حق کو قوم، مذہب یا قومیت متا ثر نہیں کرے گا

(ب) شادی کے دوران یا تنسیخ شادی کے بارے میں مرد و زن کے قوانین یکساں ہونگے۔

( ج) شادی کے لیے باہمی رضا مندی ضروری ہوگی۔

(د) خاندان کو معاشرے کی بنیاد تصور کیا جائے گا جس کو معاشرے اور ریاست کی طرف سے تحفظ حا صل ہوگا۔

17۔ ( الف ) ہر ایک کو جداگانہ یا اشتراک کے تحت جا ئیداد بنانے کا حق حا صل ہو گا۔

( ب) کسی کو جبراًجا ئیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

18۔ ہر ایک کوفکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی حا صل ہوگی۔ یہ آزادی مذہب یا عقیدہ بدلنے کے لیے یا مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے ہوگی۔

19۔ ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی ہوگی۔

20۔ (الف) ہر ایک فرد کو پر امن اجتماع کا حق حا صل ہو گا۔

(ب) کسی کو جبراًکسی انجمن میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

21۔ (الف) ہر ایک کو یہ حق حا صل ہو گا کہ وہ اپنے ملک کی حکومت سا زی میں بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حصہ لے۔

(ب) ہر ایک کو عوامی خدمات سے استعفادہ حاصل کرنے کا حق حا صل ہو گا۔

(ج) حکومت سازی کے لیے لوگون کی مر ضی کو بنیاد قرار دیا جائے گا۔ حکومت کے لیے وقتا ًفوقتاً صاف اور شفاف انتخا بات کرائے جائیں گے اور انتخاب کے لیے خفیہ راے دہی کا طریقہ کار استعمال ہوگا۔

22۔ معاشرے کے ہر فرد کو یہ حق حا صل ہو گا کہ وہ ملکی ذرائع، سہولیات اور بین الاقومی تعارف کے ذریعے معاشی، ثقافتی اور معاشرتی حقوق سے فا ئدہ اٹھائے۔

23۔ (الف) ہر ایک کو روزگار کے لیے کام کرنے، کوئی پیشہ اختیار کرنے، سازگار ماحول میں کام کرنے اور بے روزگاری کے خلاف تحفظ کا حق حا صل ہوگا۔

(ب) ہر ایک کو بلا تمیز مساوی کام کے بدلے مساوی اجرت کا حق حا صل ہو گا۔

(ج) روزگار کے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو عزت و احترام کا ماحول مہیا کیا جائیگا تا کہ انسانی وقار پر حرف نہ آئے۔

(د) ہر ایک کو اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے تجا رتی یونین میں شمولیت کا حق حا صل ہو گا۔

24۔ ہر ایک ملازم کو معقول وظیفہ دینے کے ساتھ ساتھ معقول حدود کے اندر چھٹی کرنے، آرام کرنے یا تفریح کرنے کا حق حا صل ہو گا۔

25 ۔ہر ایک فرد کو اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے معقول معیار زندگی کا حق حا صل ہو گا ۔ جس میں صحت، خوراک، گھر ، طبی سہولیات، ضروری معاشرتی خدمات، بے روزگاری، بیماری، ناکاری، بیوہ پن، بڑھاپایا ناگہانی حالات کے خلاف تحفظ شامل ہیں۔ اس ضمن میں مرد، زچہ وبچہ خصوصی نگہداشت کے حامل ہیں۔ بچے خواہ ازدواجی یا غیر ازدواجی تعلق کے نتیجے میں ہوں، یکساں تحفظ کے حقدار ہونگے۔

26۔ (الف) ہریک کو تعلیم کا حق حاصل ہے۔ تعلیم، خصوصا ًابتدائی مر حلوں میں مفت ہو۔ ابتدائی تعلیم فرض تصور ہوگی۔ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کوعام کیا جائے اور اعلی تعلیم میں قا بلیت کی بنیاد پر سب کے لیے دستیاب ہو۔

(ب) تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی بھر پور ترقی ہوگی۔ تعلیم کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کے تصور کو مظبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

(ج) تعلیم کا مقصد اقوام عالم میں بھائی چارے، اخوت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینا ہے۔ جو اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں کی تعبیر ہوگی اور عالمی امن کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔

(د) والدین کو یہ حق حا صل ہوگا کہ وہ اپنے اولاد کے لیے تعلیمی صنف کا انتخاب کریں۔

27۔ (الف ) ہر فرد کو یہ حق حا صل ہوگا کہ وہ برادری، ثقا فتی سرگرمیوں ، فنی لطا ئف اور سائنسی تخلیق کاریوں میں حصہ لے۔

(ب) ہر فرد کو یہ حق حا صل ہوگا کہ وہ اس کام کے اخلاقی اور مادی پہلووں کی حفاظت کرے، جس سائنسی ادبی یا فنی کا م کا وہ خا لق ہو۔

28۔ ہر ایک کو یہ حق حا صل ہو گا کہ وہ اس معاشرتی اور بین الا قوامی ماحول کا حصہ بنے جس کے تحت یہ حقوق اور آزادیا ں بھر پور طور پر حا صل کی جا سکیں۔

29۔ (الف) ہر ایک فرد پر اس کی برادری کے حقوق یہ فرض عا ئد کرتے ہیں کہ وہ اس برادری میں رہتے ہوئے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرے۔

(ب)جہاں حقوق کی آزادی متعین ہو وہاں فرائض اور حدود کا تعین بھی ضروری ہے۔ تاہم یہ حدود و قیود، اخلاقیات، عوامی امن اور خوشحالی کی روشنی میں متعین ہوں جو ایک جمہوری معاشرے کی ضامن ہیں۔

(ج) یہ حقوق و آزادیاں اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزی کے لیے استعمال نہ ہوں۔

30۔ کسی فرد، ادارہ یا ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مندرجہ بالا اعلان کی ایسی تشریح کرے جو اس اعلان کے تحت متعین حقوق اور آزادیوں کو سلب کرے۔

انسانی حقوق۔۔۔پہلی کڑی

Comments are closed.