سبط حسن گیلانی۔ لندن
کردار اور رویے انفرادی ہوں یا اجتماعی۔اپنے چھوٹے موٹے مظاہر سے ہی پہچانے جاتے ہیں کہ ان میں کتنا دم خم ہے۔ گہرائی اور گیرائی کا مادہ کتنا ہے۔بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھلنے کی سکت کتنی ہے۔جدید تہذیب و تمدن سے کتنا اثر قبول کیا ہے۔تحقیقات و ایجادات سے کتنا استفادہ کیا ہے۔انہی رویوں اور مظاہر سے انسان ،گروہ یا سماج کا ہمعصر دنیا میں مقام کا تعین ہوتا ہے اور مستقبل کی نشان دہی بھی۔
ہمارا موضوع اس وقت پاکستانی سماج ہے یہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے، راتوں رات تخلیق نہیں ہوا۔ جاگیردار، سرمایہ دار ، سول اور ملٹری اشرافیہ کا ملاؤں کے ساتھ اتحاد قائم کر کے ریاست اور دیگر دنیا کو دی گئی سوغات ہے۔یہ ان کی مسلسل نصف صدی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔جس کی سزا ہم جیسے عامی بھی بھگت رہے ہیں اور دنیا بھی۔ لیکن ذہن نشین رہے کہ دیگر دنیا کی بڑی قوتیں اس کام میں معاون رہی ہیں۔چنانچہ انہیں بھی اپنے کیے کا پھل مل رہا ہے۔ان سب نے مل کر اپنے اپنے گروہی مفادات کی خاطر ایک طبقہ پیدا کیا ہے۔
دلیل کیا شے ہے، برھان کس چڑیا کا نام ہے،رواداری کونسی جنس ہے،صلہ رحمی، درگزر ،معافی ،احسان ،محبت ،امن،بقائے باہمی ،اختلاف رائے کا احترام ،بنیادی انسانی حقوق کا اعتراف ۔اس کے اجزائے ترکیبی میں یہ مسالے شامل ہی نہیں۔جس کے نزدیک ساری دنیا غلط اور اس کی تہذیب و تمدن کی حقیقت مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ساری ایجادات و کمالات بکری کے ناک سے بہنے والے نزلے زکام سے بھی زیادہ کراہت زدہ۔
کتابیں اور لٹریچر بے کار ملبے سے بھی زیادہ بے وقعت،علم انسانی ، سائنس و ٹیکنالوجی فریبِ نظر اور شیطانی علوم۔دیگر انسانی کمالات و خدمات کی حیثیت صفر ۔بڑے بڑے انعامات سازش کے ہتھ کنڈے۔دنیا کے تمام مسائل کا حل شریعت اور وہ بھی طالبانی یازیادہ سے زیادہ ایرانی طرز کی ۔جو سکالر انہیں وحی اور عمومی عقل انسانی کے اشتراک سے مسائل کا حل سمجھانے کی کوشش کرے وہ ان کے نزدیک قابل گرفت۔
لبنان کی مٹی سے جنم لینے والے مردِ دانا دنیا جسے خلیل جبران کے نام سے جانتی ہے۔ کیا پتے کی بات کر گیا ہے۔ کہ اس دنیا میں سب سے برا ظلم اورگناہ یہ ہوا ہے کہ مولوی انسان اور اس کے خدا کے درمیان آکھڑا ہوا ہے۔ وہ عظیم نبیؐ جس کے ایک آخری مختصر سے خطبے کو مہذب دنیا حقوق انسانی کا سب سے بڑا چارٹر مانتی ہے۔ آج اس کے لافانی نام پر شرف انسانی کی دھجیاں اُڑائی جا رہیں ہیں۔ جس کی لائی ہوئی الہامی کتاب کا اعلان اور طرہ امتیاز ہی یہ ہے۔ دین میں جبر قابل برداشت نہیں۔سچے ہو تو دلیل لاو۔ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
آج انہی سنہری اصولوں کے مذاق اُڑانے کا نام مسلمانی رکھ چھوڑا ہے۔خدا جس نبی ؐکو مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ میرے حبیب اللہ نے آپ ؐ کو شیریں زبان بنایا ہے۔ آج اپنے منھ سے آگ اُگلنے والے ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ مقام رسول ؐکیا ہے؟۔آج سے چودہ سو سال قبل صحرائے عرب کے ایک چوراہے پر اونٹ کے کجاوے پر کھڑے ہو کر انسانی حقوق کا عظیم درس دینے والے اس نبی آخرالزماں ؐکی عزت کی قسم ہے۔ آج اسلام اور اس کے بانی ؐکی عزت کو کوئی خطرہ لاحق ہے تو اسی طبقے سے ہے۔ جو اپنے مذموم اعمال سے اس عظیم مذہب کا چہرہ داغ دار کر رہا ہے۔
سلمان تاثیر محمد دین تاثیر کا بیٹا تھا۔اس کی قبر کے کتبے پر لکھا ہوا کلمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک مسلمان تھا۔ ایک مسلمان گُستاخی کی سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔اس نے قرآن وسنت پر کوئی انگلی نہیں اُٹھائی تھی۔ ایک ڈکٹیٹر کے دؤر میں بنائے گئے مسلمان علما کے نز دیک بھی متنازع ایک قانون پر بات کی تھی۔ اور وہ بھی اس کے بدلنے پر نہیں بلکہ اس کے ناجائز استعمال کو روکنے پر توجہ دلائی تھی۔ وہ مُلا جن کی روزی روٹی فرقہ پرستی،فساد فی الارض جن کا پیشہ ہے۔ اس کے خلاف آگ بھڑکائی۔ جس سے ایک سیدھا سادا اور نیم خواندہ نوجوان متاثر ہو کر قتل جیسے انسانیت کش فعل کا شکار ہوکر پھانسی پر جھول گیا۔
اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ اس پر نادم بھی تھا اور معافی کا طلب گار بھی۔اس نے ایک گناہ کیا تھا۔ جس کی اس نے سزا پالی۔اب اس کا حساب رب کے سامنے ہے۔اس سے دو بڑے گناہ سرزد ہوئے تھے۔ایک بے گناہ انسان کا قتل جس کی سزا قرآن نے جہنم بتائی ہے۔دوسرا جو کام اس کے سپرد کیا گیا تھا۔ جس کی وہ ریاست سے تنخواہ لیتا تھا۔ اس عہد کی خلاف ورزی۔ جس سے قرآن نے واضح طور پرمنع کیا ہے۔ اب دعا کی جانی چاہیے کہ اللہ اس پھانسی کے بدلے اسے بڑی اُخروی سزا سے معافی دے دے۔
لیکن ملاؤں کا طبقہ اس سادہ لوح نوجوان کو جس سے قتل جیسا جرم سرزد ہوا، اسے مسلمانوں کا ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے۔قابل ذکر علما و فقہا کا یہی موقف ہے جو ہم نے یہاں پیش کیا ہے۔ مثلاً برصغیر ہندوستان کے نامور عالم علامہ وحیدالدین خان، جاوید احمد غامدی، علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور دعوت اسلامی کے سربراہ مولانا الیاس قادری کا یہی موقف ہے۔اس کے علاوہ دیگر بین الاقوامی شہرت کے حامل اسلامی سکالرز کی بھی یہی رائے ہے۔
لیکن چند مٹھی بھرملاؤں کا گروہ نوجوان نسل کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر گمراہ کر رہا ہے۔جس کی زبان اور راستہ روکنا اب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ریاست نے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر یقیناًدرست سمت قدم اٹھایا ہے۔ وہ مُلا جس کی نفرت و فساد پر مبنی تقاریر سے شہ پاکر قادری اس انجام سے دوچار ہوا۔ جس نے سپریم کورٹ میں جاکر اس سے لا تعلقی کا حلفیہ بیان لکھ کر دیا۔ اب قادری کی قبر پر بیٹھ کر پھر سے اپنی دکان چمکا رہا ہے۔
جب تک ایسے شر پسند عناصر پر ریاست اپنی گرفت یقینی نہیں بناتی، قادری کی طرح اور نوجوان اس کا شکار ہوتے رہیں گے۔قادری اس کا فعل اور اس کا انجام دراصل ہمارے سماج کا وہ مظہر ہے۔ جو پچھلے پچاس سالوں میں ایک سازش کے تحت تخلیق کیا گیا تھا۔ اس طرح کے سماجی چہرے کے ساتھ پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کو بدلنے کے لیے کم از کم دو عشروں پر مبنی محنت درکار ہو گی۔
مقام شکر ہے کہ مقتدر قوتوں کو بہت دیر بعد سہی لیکن اس کا احساس تو ہوا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی اور باشعور شہری کو اس مشکل وقت پر حکومت اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ تب ہی پاکستان آگے بڑھ سکے گا۔
♠