مصطفی کمال کا کمال یہ تھا کہ سارا دن اور رات گئے تک پاکستانی ٹی وی سکرین پر کوئی دوسرا نہیں دکھا۔ آج 3مارچ کو تمام میڈیا کی برات کے وہی دولہا تھے۔اس سے بھی حیران کن یہ تھا کہ شام کے تمام اہم ترین ٹی وی ٹاک شوز میں وہ پوری طرح موجود تھے۔اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کا بہت دنوں بعد ایک مصروف ترین دن گزارا۔لیکن انہوں نے جتنی باتیں بھی عوام کو بتائیں۔ان میں کوئی خاص انکشاف نہیں تھا۔سوائے ایک آدھ کے۔ مثلاً رحمان ملک کے متعلق۔جس پر ملک صاحب جیسے ٹھنڈے پیٹ والے انسان نے فوری ردِ عمل دیا۔
اس طویل ترین پریس کانفرنس میں انیس قائم خانی مکمل خاموش رہے اور مصطفی کمال خوب بولے۔ بلکہ بولے کہاں پھٹ ہی پڑے۔ایم کیو ایم کا تین عشروں پر مبنی سیاسی سفر متعدد نشیب وفراز سے اٹا پڑا ہے۔لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ جھٹکا اس کے لیے بہت شدید ثابت ہونے جا رہا ہے۔آج سے تقریباً دو ہفتے قبل اس جماعت کو اعلیٰ مقتدر حلقوں کی جانب سے ایک پیغام ارسال کیا گیا تھا۔کہ اپنے عسکری ونگ سے لاتعلق ہو کر سندھ میں صاف ستھری سیاست کرنے کے لیے تمہارے لیے راستے کھلے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔اب یہ پیغام عملی طور پر دیا گیا ہے۔
چار دن پہلے سرفراز مرچنٹ نے ایک انٹرویو میں مصطفی کمال کے برعکس خاصے انکشافات کر ڈالے تھے۔جس کا وزارت داخلہ نے بڑی سرعت کے ساتھ نوٹس لیا۔گورنر سندھ کی اپنی جماعت سے لاتعلقی اب عام آدمی کو بھی نظر آ رہی تھی کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔یہ مختلف کڑیاں ہیں جو آنے والے دنوں میں ایک زنجیر کی شکل میں دکھائی دیں گی۔اب وہ زنجیر کس کس کے پاؤں کی بیڑی ثابت ہوتی ہییہ منظر بھی بہت جلد دکھائی دینے والا ہے۔مصطفی کمال نے اپنی بے نام پارٹی کے پرچم کے طور پر پاکستان کا قومی پرچم لہرا یا۔جلد یا بدیر انہیں اپنی پارٹی کا پرچم تو بنانا ہی پڑے گا۔ساتھ ساتھ انہوں نے صدارتی طر ز حکومت کے لیے جدو جہد کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
یہ سکرپٹ ان کا اپنا نہیں ہے ۔کسی اور کا ہے ۔میں نے رات گئے بیلجیم میں مقیم اپنے مہربان اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھنے والے عالمی مذاکرات کار جناب محمد فیصل کے دروازے پر دستک دی کہ وہ معلوم کریں جس سے ہم جیسے بھی بے خبر ہیں؟۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک لہر ہے جو صرف کراچی کے ساحل سے پلٹنے والی نہیں۔یہ کراچی میں سونامی کی طرح داخل ہو گی۔ اور پھر’’ اندرون سندھ ‘‘کا رخ کرے گی۔اور پھر ’’ پنجاب‘‘ میں بھی داخل ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے مستقبل قریب میں چوہدری نثار بھی کچھ دیر کے لیے ایک اعلیٰ ترین منصب پر دکھتے ہیں۔لیکن اس وقت ہمارا اصل موضوع ایم کیو ایم ہے۔
ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ شروع دن سے ایک مسئلہ رہا ہے۔وہ معروضی سیاسی حالات سے زیادہ نفسیاتی قسم کا تھا۔کسی بھی اعلیٰ ترین قیادت پر فائز فرد واحد کا عالمی تاریخی اور نفسیاتی مسئلہ کہ وہ ناگزیر ہے۔حالانکہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الطاف حسین صاحب آج سے دو تین سال پہلے ہی سیاست سے ریٹائرڈ ہو جاتے۔کم از کم اس حد تک کہ انتخابات کے ذریعے ایک نئی قیادت سامنے لے آتے۔خود سرپرست کی حیثیت سے حالات پر نظر رکھتے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اور جہاں تک میرا خیال ہے وہ اب بھی ایسا نہیں کریں گے۔گاؤں کے اس چوہدری کی طرح جو سیلاب میں خود تو بہہ جاتا ہے لیکن اپنی پگڑی درخت پر لٹکا جاتا ہے تا کہ یہ اس کے بعد بھی اونچی رہے۔
مصطفی کمال کا یہ سوال بالکل بجا تھا کہ تین عشروں کے سفر کے بعد منزل کہاں ہے؟۔جو مسلسل اقتدار کے بعد بھی ہنوز آنکھوں سے اوجھل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اردو بولنے والے ایک طبقے کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔سوائے ایک قلیل سے گروہ کے۔اس ناکامی کی بنیادی وجہ وہی ہے۔جمہوری اصولوں سے انحراف۔ورنہ یہ واحد جماعت تھی جس نے پہلی مرتبہ گلی محلے کے عام لوگوں کو قانون ساز اسمبلیوں میں بھیجا۔ جس کے منشور اور پیغام میں جان تھی اور اس بات کا پورا پورا امکان تھا کہ یہ تمام محروم طبقات کی نمائندہ جماعت بن جاتی۔لیکن وائے بدقسمتی کہ اسے جمہوری طور طریقوں کی بجائے ایک مافیا کے طور طریقوں سے چلایا گیا۔
نتیجہ سامنے ہے۔اب بھی الطاف حسین صاحب کے پاس وقت ہے۔ لیکن بہت ہی قلیل۔وہ چاہیں تو اب بھی کراچی کے لوگوں پر احسان کر سکتے ہیں۔اس سے ان کا ذاتی بھلا ہو گا اور عوام کا بھی۔ورنہ تو اُفق پر کچھ اور ہی دکھ رہا ہے۔سیدھی سی بات ہے ۔مقتدرہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔انہوں نے سابقہ تجربات سے اتنا تو سیکھ لیا ہے کہ کسی پارٹی پر قدغن عائد کرنا مفید ثابت نہیں ہوتا۔اب ان پارٹیوں کے اندر احتساب ہو گا۔اس حکمت عملی کے تحت آنے والے دنوں میں عدلیہ کا کردار خاصا اہم ہوگا۔ججوں کو سکیورٹی دے دی گئی ہے۔
ایم کیو ایم نے ’’ وقت‘‘ کے تقاضوں پر دھیان نہ دیا تو ان پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ متبادل کا انتظام تو ہو ہی چکا۔تواتر سے مختلف شخصیات اور اداروں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو پایہ ثبوت تک پہنچانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
♠