بیرسٹر حمید باشانی
ممتاز قادری کی موت پر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ میں سزائے موت کے سخت خلاف ہوں۔میرے نزدیک کسی انسان کو کسی انسان کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔جان کے بدلے جان لینے کا تصورہی بنیادی طور پر غیر انسانی ہے اور یہی بات ریاست پر بھی صاد ق اتی ہے۔اگر ایک انسان کو دوسرے انسان کی جان لینے کا اختیار نہیں تو ریاست کو تو یہ اختیار بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
چونکہ ریاست تو انسانوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے عوام کی اجتماعی دانش ہوتی ہے۔اس کو یہ قدیم وحشیانہ اور غیر انسانی تصور بالکل زیب نہیں دیتا۔یہ میری رائے ہے۔یہ رائے جانبداری پر مبنی ہیاور جانب داری یہ ہے کہ میں بنیادی طور سزائے موت کے خلاف ہوں۔مگر میں جب اس تعصب سے اوپر اٹھ ہو کر سوچتاہوں تو مجھے ماننا پڑتا ہے کہ یہ سزا درست، جائز، قانونی، لازمی اور ناگزیر تھی۔اس سزا کے لیے یہ جو پانچ لفظ میں نے استعمال کیے ہیں ان کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس مقدمے کو ریاستی نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا۔
یہ ریاست کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا تھا۔اگر ریاست سزائے موت کے علاوہ کوئی فیصلہ کرتی تو اس واضح مطلب یہ ہوتا کہ ریاست اپنی رٹ اور اختیارات سے دستبردار ہوگئی ہے۔اس سے ملک وسیع مذہبی حلقوں میں پائے جانے والے اس غلط خیال کو تقویت ملتی کہ مذہب اور عقیدے کے نام پر کسی بھی شہری کو کسی دوسرے شہری کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔ہر مذہبی جنونی کو خود ہی تفتیش کار اور خود ہی جج بننے کا اختیار مل جاتا۔اور ہزاروں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں کئی سرکاری اہلکاروں، دانشوروں، اساتذہ کرام، صحافیوں ، سیاست کاروں اور عام لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑھ جاتیں۔
یہ ان مذہبی جنونیوں پر منحصر ہوتا کہ وہ کسی کے منہ سے نکلے ہوئے کن الفاظ کو توہین رسالت یا توہین مذہب قرار دیں، پھر خود ہی اپنے ذہن میں اس شخص کی سزا کا تعین کریں اور پھر خود ہی اس پر عملدرآمد بھی کریں اور اگر ریاست ان کو گرفتار کر بھی لے تو وہ ایک ہیرو کی طرح جیل میں بیٹھے رہیں۔یہ ریاست کے لیے لٹمس ٹیسٹ تھا۔ریاست کی بقا کا مسئلہ تھا۔لہذا وہ اس کیس کا اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کر بھی نہیں سکتی تھی۔بے شک یہ ناکام ریاست ہو۔اس میں بے پنا ظلم و نا انصافی ہو۔ طبقاتی لوٹ کھوسٹ، سماجی و سیاسی جبر ہو۔ مگر ہے تو یہ ایک ریاست ہی ۔
اگر یہ ریاست اس کے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار مذہبی جنونیوں کو دے تو اسکی کہانی یہاں ہی ختم ہو جاتی ہے۔یہ اس ریاست کی ہی نا اہلی اور ناکامی ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر ہزاروں لوگوں کی جان چلی گئی۔ان ہزاروں لوگوں کی جان بچ سکتی تھی، اگر ریاست بہت پہلے ہوش کے ناخن لیتی۔مذہبی جنونونیت، فرقہ واریت اور قتل غارت گری کے اس دھندے کا حصہ نہ بنتی جو 1979میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پر شروع کیا گیاتھا۔جہاد کے نام پر خود کو یرغمال نہ بننے دیتی۔اور اپنے اپ کو بطور ریاست مذہب جیسے ذاتی اور مقدس معاملات سے علیحدہ رکھتی۔لوگوں کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت سے باز رہتی اور ان کو ڈنڈے کو زور پر جنت میں پہچانے کا ٹھیکہ نہ لیتی۔
مگر ریاست مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئی۔اپنے آپ کو ایسی دلدل میں دھنسا لیا جو اب اس کے سینے تک پہنچ چکی ہے۔ ممتاز قادری کا جنازہ اور اس کے بعد کا رد عمل ریاست کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔یہ اس کو خواب خرگوش سے جگانے کے لیے ایک اونچی اور ڈروانی آواز ہے۔یہ آواز اس بات کی غماز ہے کہ ملک میں بنیاد پرستی اب عام لوگوں کے ایک وسیع حلقے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیاور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے آئین، قانون اور ریاست کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔
سزائے موت کا یہ فیصلہ ملکی آئین، قانون اور آزادانہ عدالتی طریقہ کار کے تحت ہوا۔مقدمے کے ہر مرحلے پر قانون و انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔ملزم کو اپنی صفائی کا پورا بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی موقع دیا گیا۔اسے عدالتوں کے اندر بڑے بڑے وکلاء اور سابقہ ججز کی مفت خدمات حاصل رہیں۔عدالتوں کے باہر وکلا کے روپ میں تشدد، غنڈہ گردی اور گل پوشی کرنے والے بھی اس ساتھ ساتھ رہے۔واقعے کے پہلے دن سے لے کر سزا تک مجرم سے وی آئی پی کی طرح کا سلوک کیا جاتا رہا۔
ملزم کے کسی وکیل یا ہمدرد نے مقدمے کی کسی بھی مرحلے پر کسی قسم کی بے ضابطگی یا نا انصافی کی کوئی شکایت نہیں کی۔سزا کے بعد جو لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں ان کے روحانی پیشوا اور اکابر اس آئین پر طویل بحث اور دستخط کر چکے ہیں جس کے تحت ملزم کو مجرم قرار دیا گیا۔اسی آئین کے تحت یہ لوگ پارلیمنٹ اور کمیٹیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ملک پر مستقبل میں حکمرانی کے دعوے کرتے ہیں۔یہ صورت حال سماج اور ریاست میں موجود تضادات کی عکاس ہے۔
یہ تضادات مزید گہرے ہوتے جائیں گے اگر ریاست اپنے اپ کو عوام کے ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات سے الگ نہیں کرتی۔قادری کی سزائے موت اور پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل ریاست کی طرف سے درست سمت میں پیش قدمی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست اس سمت میں پیش قدمی جاری رکھتی ہے یا بنیاد پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاست کے کام ملک کے آئین و قانون کے تحت ہوں گے یا ہر آدمی کے اپنے ذاتی مذہبی عقائد اور نظریات کے تحت۔اس سوال کا جواب اب ریاست کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔
♠
One Comment