مرزا برادرز : ترقی پسند اور سچائی کھنگالنے والے فلمساز

زاہد عکاسی

maxresdefault


ترقی پسند نظریات کی ترجمانی کرنے والے اور بھارت کی رینگتی،سسکتی او ردم توڑتی ہوئی زندگیوں کو پردہ سمیں پر پیش کرنے والے مرزا برادرز کا اگر فلمی تاریخ میں ذکر نہ کیا جائے تو یہ تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی فلموں میں سماج کے منافقانہ رویوں کو موضوع بنایا ہے ان پر طنز کے تیربرسائے ہیں۔ معاشرے کے دوغلے پن پر تنقید کی ہے اس طرح مرزا برادرز کی فلمیں ناظرین کے لئے تریاق بھی ثابت ہوئی ہیں۔

مرزا برادرز کے روح رواں سعید اختر مرزا ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی عزیز مرزا بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ یہ دونوں معروف مکالمہ نگار اختر مرزا کے صاحبزادے ہیں جنہیں1965 ء میں ’’وقت ‘‘ فلم کی کہانی او رمکالمے لکھنے پر بہترین سکرپٹ رائٹر کا فلم فےئر ایوارڈ ملا تھا۔

سعید اختر مرزا نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک اشتہاری کمپنی سے کیا۔ اس کام کو اس کی اہلیہ جنیفیر نے بہت سراہا۔ اس دوران انہوں نے فلم میکنگ کا کورس فلم اینڈ ٹی وی انسٹی ٹیوٹ پونا سے کیا۔ وہ جون1943ء کو پیدا ہوئے اور فلم گریجوایشن کا امتحان1976ء میں پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے دستاویزی فلمیں بنانے کی طرف توجہ دی۔ ان کی پہلی ڈاکومنٹری بمبئی کی کچی آبادیوں کے بارے میں ہے۔ اس دوران انہوں نے مرڈر، گھاسی رام کو توال، اربن ہاؤسنگ وغیرہ شارٹ فلمیں بنائیں۔

سنہ1978ء میں ان کی فیچر فلم’’ اروند ڈیسائی کی عجیب کہانی‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ ایسے نوجوانوں کے بارے میں تھی جو اونچے اونچے خواب دیکھتے ہیں لیکنفیوڈل کلچر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔فلم کی کہانی ایک 26سالہ نوجوان اروندڈیسائی کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایک بڑے بزنس مین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے خیالات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتا۔ اُس کا کردار تضادات کا مجموعہ تھا کہ اُس کو مختلف رشتوں کی شکل میں دوسروں سے ملاتھا۔

اس کا باپ ایکسپورٹ کا بزنس مین تھا جو کہ دیہات میں تیارہونے والی ہینڈی کرافٹ کی اشیاء کو بیرون ملک برآمد کرتا تھا۔ اروند خود بھی ایک دکان کا منیجر ہے وہ ایک آزاد خیال نوجوان ہے جو کہ اس بزنس میں استحصال کرنے والوں کے خلاف ہے۔ اس کا والد ڈاکٹر شری رام لال دیہات سے سستے داموں ہینڈی کرافٹ کی اشیاء لے کر مہنگے داموں بیرون ملک فروخت کرتا ہے جبکہ بیٹااس استحصال کی وجہ سے خود کو مجرم سمجھتا ہے بس اس بنا پروہ اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے۔ دوسری طرف اردند کی ماں مذہبی خیالات کی حامی ہے لیکن اردند کا دوست اوم پوری بائیں بازو کے خیالات رکھتا ہے جبکہ اردند کے باپ کے تعلقات اپنی سیکرٹری ایلس سے بھی ہیں۔ ایلس پیرس سے آئی ہے اروند خود بھی ایک غریب لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ غرضیکہ وہ نچلے طبقے کے ان محنت کشوں کو لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوپاتا۔ اس فلم کو سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی ملا تھا۔

سعید اختر مرزا نے سماج کے منافقانہ رویے پر بھر پور طنز کرنے کے لئے اپنی ایک اور فلم’’البرٹ پینٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘‘ ریلیز کی۔اس فلم کا سکرین پلے سعید مرزا اور کندن شاہ نے لکھا تھا۔ اس کے مرکزی کرداروں میں نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹل‘ دلیپ دھون‘ سولابھادیش پانڈے اروند دش پانڈے شامل تھے۔ فلم کی کہانی البرٹ پینٹو سے شروع ہوتی ہے یہ کردار نصیر الدین شاہ نے کیا تھا۔ البرٹ پینٹو ایک موٹر مکینک ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور وہ کیتھولک عیسائی ہے۔ وہ ایک لڑکی سٹیلا(شبانہ اعظمی) سے محبت کرتا ہے۔

ان کی بھرپور دوستی ہے دونوں چھٹی کے وقت اکثر ملتے ہیں۔ سٹیلا کسی فرم میں پی اے ہے۔ اُس کا باس اس پر بڑا مہربان ہے۔ ایک روز وہ کسی کام کے سلسلہ میں سنگاپور جاتاہے۔ واپس پر سٹیلا کے ماں باپ بیٹی کے باس کے اعزاز میں دعوت کرتے ہیں۔ شبانہ اپنے دوست نصیرالدین شاہ(البرٹ پینٹو) کو بھی بلالیتی ہے۔ سب کھانا کھارہے ہوتے ہیں کہ باس شیشے کا ایک گلدان تحفہ کے طور پر سٹیلا(شبانہ) کو دیتا ہے او رکہتا ہے کہ یہ گلدان ان بریک ایبل ہے۔ گلدان البرٹ پینٹو بھی پکڑتا ہے۔ دیکھتا ہے اور اُسے فرش پر گرادیتا ہے۔ گلدان ودٹکڑے ہوجاتا ہے تو البرٹ پینٹو فوراً بولتا ہے’’ہاں یہ واقعی (ان بریک ایبل) نہ ٹوٹنے والا ہے۔ اس پر باس کو غصہ آتا ہے اور وہ دعوت میں سے اُٹھ کر چلا جاتا ہے۔ سٹیلا کے ماں باپ اس نوجوان سے سخت ناراض ہوتے ہیں۔ اسی طرح البرٹ پینٹو ان سیاستدانوں اور مزدور لیڈروں کے بھی خلاف ہے جو کہتے کچھ او رکرتے کچھ ہیں۔ وہ ان کے منافقانہ رویوں پر احتجاج کرتا ہے۔ اس کو بھی بہترین فلم کا ایوارڈ ملا تھا۔

سعید اختر مرزا نے اپنی فلم’’موہن جوشی حاضر ہو‘‘ میں بھارتی عدالتوں میں غریبوں کو انصاف نہ ملنے پر بھی احتجاج کیا ہے۔ یہ فلم1984ء میں ریلیز ہوئی تھی۔اس میں مکان کے کرائے دار کا کردار بلراج ساہنی کے بھائی بھیشم ساہنی نے کیا تھا جبکہ اس کی بیوی کے کردار میں وینا پاٹھک تھی دیگر فنکاروں میں نصیر الدین شاہ، دپتی نول، امجدخان، ستیش شا ہ اور پنکھج کپور تھے۔ اس فلم میں ایک بوڑھے جوڑے کو کرپٹ عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگتے اور کچہریوں کے چکر لگاتے لگاتے دم توڑتے دکھایا گیا ہے۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن عدالت کے باہر کھڑا چپڑاسی جب آواز دیتا ہے’’موہن جوشی حاضر ہو‘‘ تو پتہ چلتا ہے کہ انصاف مانگنے والے خالی ہاتھ ہی راہی ملک عدم ہوچکے ہیں۔

سنہ1989ء میں مرزا نے ایک اور مسلمان نوجوان ناراض نسل پر فلم’’سلیم لنگڑے پر مت رو‘‘ تیار کی۔ اس میں بتایا گیا کہ کس طرح ایک نوجوان جو محرومیوں کا شکار ہے او رغربت میں پلا بڑھا ہے جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں آجاتا ہے۔ یہ کہانی غربت کے مارے ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے۔

اس طرح1995ء میں اُس کی فلم ’’نسیم‘‘ ریلیز ہوئی جو بابری مسجد کو گرانے کے پس منظر میں تیار کی گئی تھی۔ اس میں نسیم کا کردار میوری کانگونے کیا تھا جبکہ اس لڑکے کے دادا کا کردار مشہور شاعر کیفی اعظمی نے نبھایا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ کبھی ہندوستان کے لوگ برداشت کا مادہ رکھتے تھے اور ایک دوسرے سے بھائی چارہ قائم تھا مگر 6دسمبر1992ء کو16 ویں صدی کی تعمیر کردہ بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں تباہ کرنے کے بعد ہماری ثقافت تہذیب او رتمدن میں دارڑ پڑگئی۔ مرزا اس کی عکس بندی کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومے۔ انہوں نے فلم کے ذریعے بتایا ہے کہ اس واقعہ میں صرف بابری مسجد ہی تباہ نہیں ہوئی بلکہ ہمارا کلچر ، شاعری اور ادب بھی تباہ ہوا ہے۔

ہدایت کار سعید اختر مرزا نے فلموں کے علاوہ ٹی وی سیریل نکڑ(1986ء) بھی دوردرشن کے لئے تیار کی۔ یہ سیریل ان دنوں لاہور کے ایک ٹی وی چینل’’راوی‘‘ سے ٹیلی کاسٹ کی جارہی ہے۔ یہ بھی نچلے طبقہ کے مسائل پر مبنی کہانی ہے اس کی ہدایات میں ان کے بھائی عزیز مرزا بھی شامل تھے۔1988ء میں دوردرشن سے ان کی سیریل’’ انتظار‘‘ ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ اس میں بتایا گیا کہ کس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کے انتظار میں روزانہ سٹیشن پر آتی ہے جو کہ کبھی بے روزگاری سے گھبرا کر کسی بڑے شہر بھاگ گیا تھا۔ کئی سالوں بعد وہ شخص واپس آتا ہے تو انتظار کی گھڑیاں دم توڑتی ماں کے لیے ختم ہوتی ہے۔

سعید اختر مرزا کے چھوٹے بھائی عزیز اختر مرزا نے ان ساتھ ہی کام شروع کیا۔ انہوں نے بھی بڑی مقبول فلمیں تیار کی ہیں جن میں سرکس(1989ء) راجوبن گیا جنٹل مین(1992ء)یس باس(1997ء) پھر بھی دل ہے ہندوستانی(2000ء) چلتے چلتے(2003ء) قسمت کنکشن(2008ء) قابل ذکر ہیں جبکہ سعید اختر مرزا نے2009ء میں فلم’’اک تھو چانس‘‘ تیار کی۔ ان کا ناول’’امّی‘‘ (لیٹرٹواے ڈیموکرٹیک مدر) بھی پسند کیا گیا۔ ان دنوں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ گوا میں رہائش پذیر ہے جبکہ دو بیٹے صفدر اور ظہیر نیویارک او ردبئی میں ہیں۔

One Comment