آصف جیلانی
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں نہضت اسلامی کے دفتر میں جماعت کے سربراہ محمد شریف ہمت زادہ سے ملاقات کے بعد میں جب رخصت ہونے لگا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میرے دل میں چھپی ہوئی خواہش بھانپ لی ہو۔ شفقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ دفتر سے تین گلیاں چھوڑ کر، بائیں ہاتھ کو دوشنبہ کی سب سے پرانی مسجد ہے۔ آپ یقیناًوہاں جانا چاہیں گے، ویسے بھی ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
میں نے شریف ہمت زادہ کاتہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور نہضت اسلامی کی دفتر سے نکل آیا۔
یہ بستی ، پرانی بستی نظر آتی تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ اس کے پرانے پن کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جدید بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ گلیاں پتلی پتلی تھیں لیکن پرانے مکانات کو جو غالباً کسی زمانے میں مٹی کے ہوں گے، اینٹوں اور کھپریلوں کا لبادہ اڑا دیا گیا تھا، جس پر ان کے مکینوں نے انگور کی بیلیں چڑھادی تھیں۔
میں نے اس بستی میں مسجد کا پتہ چلانے کے لئے گنبد تلاش کیا لیکن مجھے کہیں گنبد والی کوئی عمارت نظر نہیں آئی ، البتہ ایک طرف ایک کشادہ سڑک دکھائی دی جس کے کنارے پر ایک لمبی ، سفید پتی ہوئی اونچی دیوار کھچی تھی۔ اس دیوار کے پاس ایک ٹیکسی آکر رکی۔ میں یہ پوچھنے کے لئے کہ مسجد کہاں ہے، ٹیکسی کی طرف لپکا۔ ٹیکسی کا دروازہ کھلا ، دیکھا کہ اس میں سے وہی پہلوان نما ڈرائیور اتر رہا ہے، جس نے مجھے دوشنبہ کے ہوئی اڈہ سے ہوٹل پہنچایا تھا۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی باچھیں کھل گئیں ۔ اس بار اس پر کاروبار کی پرچھائی نہیں تھی ۔ خالص عقیدت اور محبت پھوٹی پڑ رہی تھی۔۔ اس نے میری طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔پوچھنے لگا کہ کیا میں مسجد تلاش کر رہاہوں۔ میں نے ابھی اثبات میں پوری طرح سر بھی نہیں ہلایا تھا کہ وہ میرا ہاتھ پکڑے ، اس دیوار میں بنے ہوئے ایک چوبی دروازے کی طرف لے گیا۔
اندر دیکھا تو وسیع و عریض کچا صحن تھا۔ جس کے بیچ میں سرو کا ایک درخت کھڑا تھا اور ایک طرف اونچا مینار تھا ، اذان دینے کے لئے۔
صحن کے دونوں طرف لکڑی کے خوبصورت منقش ستونوں والے بڑے بڑے دالان تھے جن پر دالان کی ایک اور منزل تھی۔ ۔ کٹہرے کے ساتھ۔۔ سامنے چار بہت اونچے اونچے ، چوبی اور خوبصورتی سے ترشے ہوئے ستوں تھے ، جن کے پیچھے مسجد کا اندرونی حصہ تھا۔ ان ستونوں اور دالانوں سے پتہ چلتا تھا کہ یہ مسجد واقعی کافی پرانی ہے ۔ کہا جاتاہے کہ اسے بنے ہوئے دو سو برس سے زیادہ ہونے کو آئے ہیں۔
دالانوں میں قالین بچھے ہوئے تھے اور مارچ کے سورج کی خوشگوار دھوپ میں ، فر کی ٹوپیاں پہنے اور نیلی ، کالی اور ہری پگڑیاں باندھے معمر افراد کچھ مغربی سوٹ میں اور کچھ روایتی ، رنگین دھاریوں والے لمبے روئی بھرے چغوں میں ملبوس ، اذان کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
ٹیکسی ڈرائیور ، شرف جان نے جب ان سے میرا تعارف کرایا تو یہ سب کے سب اٹھ کر خوشی کے مارے مجھ سے یوں لپٹ گئے کہ جیسے میں ان کا برسوں سے بچھڑا ، گم شدہ بیٹا ہوں جو اچانک گھر واپس آگیا ہو۔ اور مجھے بھی ایسا لگا کہ میں نے ان کے دلوں میں پنہاں سوز کہن کے سیل کو تھام لیا ہو۔
نماز کے بعد ، بہت سوں کا اصرار تھا کہ میں ان کے گھر چلوں اور چائے پیوں لیکن ٹیکسی ڈرائیور شرف جان نے یہ فیصلہ صادر کردیا کہ چونکہ اس کا گھر خیابان رودکی کے قریب ہے جہاں مجھے نماز کے بعد جانا ہے ، اس لئے ان کا حق مجھ پر زیادہ بنتا ہے۔ شر ف جان کا فلیٹ ، کوچہ پروین کے عقب میں ایک اونچی عمارت میں ہے۔ فلیٹ بڑا نہیں تھا لیکن بڑے سلیقہ سے سجا ہوا تھا۔فرش پر قالین بچھے ہوئے تھے اور ان پر فرشی میز، جس پر خشک میوے خوبصورت طشتریوں میں رکھے ہوئے تھے۔
میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ایک ہمارے بر صغیر کے غریب ٹیکسی ڈرائیور جو بوسیدہ خستہ کمروں میں لشٹم پشٹم اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک یہ وسط ایشیا ء کا ٹیکسی ڈرائیور ۔ اچانک ، شرف جان کی بیوی گل رخسار نے بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا اور تھوڑی دیر بعد ان کا ۲۰ سالہ بیٹا ، قناعت اور ۲۵ سالہ بیٹی گل نظر بھی آگئے۔ قناعت یونیورسٹی میں سائنس کا طالب علم ہے ۔ اور گل نظر ، وزارت تجارت میں ایک محکمہ کی نائب سربراہ ہے۔ تعلیم ان کودونوں کی کنڈر گارٹن ہی سے روسی میں ہوئی ہے لیکن گھر میں یہ تاجک بولتے ہیں۔ تاجک زبان اصل میں فارسی ہے لیکن اسٹالن کے دور میں جب روسی ترکستان کو پانچ جمہوریاؤں میں تقسیم کردیا گیا تو تاجکستان کے علاقہ میں بولی جانے والی فارسی تاجک زبان قرا ر دی گئی۔ اس وقت شرف جان کے فلیٹ میں ریڈیو پر فارسی کا نغمہ گونج رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں شرف جان کی بیوی ، گل رخسا ر نے فرشی میز پر چائے کے ساتھ روسی سلاد اور تاج پلاؤ سجایا ۔۔ پچھلے ستر سال کے دوران، روسی اثر تاجکوں کی زندگی پر کس قدرحاوی ہوچکا ہے ۔ یہ بات گل رخسار کی اس فرشی میز پر سجے خوان سے عیاں تھی۔
میں نے گل رخسار سے پوچھا کہ تاجکستان کی آزادی کے بعد یہاں کی خواتین کیا محسوس کرتی ہیں؟ رنگ برنگا ریشمی حجاب پہنے ہوئے گل رخسار کے چہرے پر تشویش کا اظہار نمایاں تھا۔ کہنے لگیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کمیونسٹ دور میں ہمارے مذہبی عقائد اور ہماری ثقافت کو کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن تاجک خواتین کو اس بات کا احساس ہے کہ اس دور میں انہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم کی بھر پور سہولتیں حاصل ہوئیں ۔ خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق ملے اور روزگار کا برابر کا حق نصیب ہوا۔ پھر انہوں نے مسکراتے ہوئے شرف جان کی طرف دیکھا جو باتوں سے زیادہ پلاؤ کھانے میں محو تھے اور کہنے لگیں کہ اس دور میں ایک سے زیادہ شادی ممنوع قرار دے دی گئی تھی اور جہیز کی لعنت ختم ہو گئی تھی۔
تو کیا اب آزادی کے بعد انہیں خطرہ ہے کہ تاجک خواتین ان تمام حقوق سے محروم ہوجائیں گی؟
میرے اس سوال پر گل رخسار محض مسکرا دیں اور پلاؤ کی قاب میرے طرف بڑھادی۔
اچانک میری نظر کونے میں ایک میز پر رکھے رسالہ پر پڑی۔یہ رستا خیز پارٹی کا ہفت روزہ تھا ۔ یہ تھا توفارسی میں لیکن رسم الخط اس کا روسی تھا۔ اس کے سر ورق پر ممتاز قوم پرست تاجک شاعر، بازار صابر کی نظم سرود رستا خیز چھپی ہوئی تھی۔جو یوں شروع ہوتی تھی۔
زمانہ آتش
زمانہ رستا خیز ۔زمانہ سرخ
زمانہ تیز۔
شرف جان کے بیٹے قناعت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو روسی رسم الخط میں فارسی کے اس رسالہ پر تعجب ہو رہا ہے؟ بات یہ ہے کہ کمیونسٹ دور میں 1926میں آذربائی جان کے دار الحکومت باکو میں ایک کانگریس ہوئی تھی جس میں روسی ترکستان کی تمام زبانوں کا عرب رسم الخط بدل کر لاطینی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن 39ء میں آخر کار روسی رسم الخط اختیار کیا گیا۔ اب آزادی کے بعد دوبارہ فارسی کا رسم الخط اپنایا جا رہا ہے۔
قناعت کہہ رہے تھے کہ عربی رسم الخط ترک کئے جانے سے تاجکستان کے لوگ، خاص طور پر نوجوان، رودکی، جامی، حافظ ، اور فردوسی کی شاعری سے بے بہرہ ہوگئے اور اس کے ساتھ مذہبی لٹریچر سے بھی ان کا کوئی ربط نہیں رہا۔ قناعت نے فارسی رسم الخط والا ایک ہفت روزہ “پیوند“مجھے دکھایا ۔
“پیوند“۔ میں ٹھٹکا۔ جی ہاں ۔، قناعت نے کہا کہ اس کے معنی اتحاد کے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ایک ہی لفظ کے فارسی اور اردو میں کس قدر مختلف معنی ہیں۔
ہفت روزہ پیوند کے اس شمارے میں ، حافظ شیرازی کی ایک غزل اور فردوسی کے شاہنامہ کی تشریح تھی اور قرآن پاک کے بارے میں ایک مضمون تھا۔ دوشنبہ میں حال میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک ناشر ادارے نے کتب خانہ کھولا ہے۔ پیوند کے شمارے میں اس کے بارے میں بھی ایک مضمون شامل تھا۔
فارسی کے تعلق سے تاجکستان، ایران سے خاص جذباتی قرب محسوس کرتا ہے اور غالباً اسی بناء پر ایران نے دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں سب سے پہلے یہاں اپنا سفارت خانہ کھولاہے۔ پارلیمنٹ کی عمارت کے بالکل بغل میں ہے ۔ اس سڑک کا نام بھی تہران اسٹریٹ رکھا گیا ہے۔
گو تاجکستان کی ایران کے ساتھ سرحد نہیں ملتی لیکن اقتصادی طور پر ایران ، تاجکستان کے لئے بے حد اہم ہے۔ لیکن اس سے پرے تاجکستان کا پاکستان کے ساتھ علامہ اقبال کے ناتے سے گہرا تعلق ہے۔ میں جب دوشنبہ آیا تھا تو بیچ شہر میں پارلیمنٹ کو مظاہرین نے گھیرے میں لے رکھا تھا ۔ اور مظاہرین اقبال کا کلام بے حد جوش اور عقیدت سے سرشار، گا رہے تھے۔
اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز۔۔۔کاشانہ ما رفت بہ تاراج غماں خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگ اذاں خیز۔۔۔از گرمی ہنگامہ آتش نفساں خیز
از خواب گراں ، خواب گراں، خواب گراں خیز
مظاہرین کو نہایت والہانہ انداز سے علامہ اقبال کا یہ ترانہ پڑھتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں لاہور سے سینکڑوں میل دور ۔ راوی۔ چناب اور جہلم کے سر سبزکناروں کے پار درہ خیبر کی سنگلاخ چٹانوں سے پرے اور پامیر کے آسمان بوس پہاڑوں کے مغرب میں دریاے دوشنبہ کے کنارے اس شہر میں اقبال کی صدا سن رہا ہوں۔ اقبال کی یہ نظم تاجکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت رستاخیز نے اپنے ترانے کے طور پر یوں اپنائی ہے جیسے یہ ان کے اپنے قومی شاعر کی نظم ہو، مجھے ایسا لگا کہ راوی کے کنارے ، دریاے دوشنبہ سے آن ملے ہوں ۔۔۔ برسوں کی بچھڑی ہوئی دو بہنوں کی طرح۔
♠