آصف جیلانی
پاکستان میں کس قسم کا سیاسی نظام ہوگا؟ قائد اعظم نے نہ تو تحریک پاکستان کے دوران اور نہ قیام پاکستان کے بعد اس کی نشاندہی کی۔ البتہ کچھ اشارے تقسیم ہند کے بارے میں آخری وایسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن اور قاید اعظم کے درمیان مذاکرات کے دوران ضرور ملتے ہیں۔
جولائی47ء میں جب تقسیم ہند کے بارے میں کم و بیش فیصلہ ہو چکا تھا تو لارڈ ماونٹ بیٹن نے جو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننے کے بے حد خواہش مند تھے ، اچانک قائد اعظم کو برطانوی حکومت کی طرف سے برطانیہ کے فرماں روا کا مشیر، پریوی کونسلر بننے کی پیش کش کی تھی ۔ مقصد واضح تھا ،کہ اس کے عوض قائد اعظم کو آمادہ کیا جائے کہ وہ ، لارڈ ماونٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر جنرل کے طور پر قبول کرلیں ۔
12جلدوں پر مشتمل ہندوستان کی تقسیم اور انتقال اقتدار کے بارے میں جو کاغذات برطانوی حکومت نے 1981میں شائع کیے تھے ان میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی وہ رپورٹ شامل ہے جو انہوں نے ہندوستان کے امور کے وزیر لارڈ لسٹوویل کو بھیجی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پریوی کونسلر بنائے جانے کی پیش کش پر محمد علی جناح کا چہرہ دمک اٹھا لیکن دوسرے دن جب وہ ملنے آئے تو وہ بجھے بجھے نظر آتے تھے اور انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے انہیں یہ پیش کش قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اس کے بعد لارڈ ماونٹ بیٹن نے تقسیم کے بعد مشترکہ گورنر جنرل کے امکان کے بارے میں قائد اعظم کو ٹٹولنے کی کوشش کی اور بقول لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ کے انہوں نے محمد علی جناع سے دریافت کیا کہ ان کے خیال میں پاکستان کا گورنر جنرل کون ہوگا؟ لارڈ ماونٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ایک لمحہ کے توقف کے بغیرمحمد علی جناح نے کہاِ “میں ہوں گا“۔لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میں نے محمد علی جناح سے کہا کہ لیکن پاکستان تو پارلیمانی جمہوریت ہوگا ۔ اور پارلیمانی نظام میں سب سے اہم اور بااختیار عہدہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔ اس پر محمد علی جناح نے کہا
“Not in my Pakistan.”
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاید اعظم ، روایتی پارلیمانی نظام کے حق میں نہیں تھے بلکہ پاکستان میں ایک بااختیار گورنر جنرل یا سربراہ مملکت کے حامی تھے۔
لارڈ ماونٹ بیٹن نے 12جولائی 47 کو ہندوستان کے امور کے وزیر لارڈ لسٹوویل کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ محمد علی جناح ایسا معلوم ہوتا ہے پاکستان کے ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں اور، تقسیم اور انتقال اقتدار کے حکم نامہ میں ، ترمیم کرنا چاہتے تھے جس کے تحت گورنر جنرل کے اختیارات میں ، حکومت کے وزراء کے انتخاب، نایب صدر کی تقرری اور حکومت کی برطرفی کا اختیار شامل کیا جائے۔ اس پر قائد اعظم کو جواب دیا گیا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ گورنر جنر ل کی حیثیت سے یہ اختیارات خود حاصل کر سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم پاکستان کے با اختیار گورنر جنرل بننا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ نئے ملک کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے اور پر آشوب دور میں ،جب کہ سرحد کے دونوں جانب قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور لاکھوں افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاکستان میں پناہ لینے آرہے ہیں ، سربراہ مملکت کاان اختیارات سے لیس ہونا ضروری ہے۔
قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل کے عہدہ کے ساتھ ساتھ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے صدر تھے اور حکمران مسلم لیگ کے بھی صدر تھے جس سے وہ بعد میں دست بردار ہوگئے تھے اور ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 63ء میں پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاسا نے دلی میں ایک انٹرویو مجھے بتایا تھا کہ جب وہ پنڈت نہرو کی ہدایت پر ، جناح صاحب کی بمبئی کے مالا بار ہل کی کوٹھی کے بارے میں بات چیت کے لئے گورنر جنرل ہاؤس گئے تھے تووہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جناح صاحب کی اسٹڈی فائلوں سے اٹی پڑی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ حکومت کے سارے معاملات وہ خود طے کرتے ہیں اورایک ایک ایک فائل پڑھتے ہیں۔
گو قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ پاکستان میں صدارتی نظام چاہتے ہیں لیکن تمام اشار ے اس بات کے ہیں کہ وہ وسیع اختیارات سے لیس صدر مملکت کے نظام کے حامی تھے اور روایتی پارلیمانی نظام کے حق میں نہیں تھے۔ ممکن کے کہ وہ اس دور کے ہنگامی حالات کا یہی تقاضہ سمجھتے ہوں؟
♠