بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

گردوپیش: آصف جیلانی

0,,16909585_303,00

غداری کے سنگین الزام اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ کے دوران ، آناً فاناً جس طرح پاکستان کے معزول آمر جنرل پرویز مشرف کو ملک سے فرار ہونے کی اجازت دی گئی ہے ، اس کے بعد یہ بات ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ پاکستان میں کسی حاضر ڈیوٹی یا سابق فوجی جنرل کو اس کے کرتوت پر چاہے یہ کتنے ہی سنگین ہوں ، انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا اور نہ ان کے خلاف احتساب کی انگلی اٹھائی جا سکتی ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے فوجی جرنیل ما فوق الفطرت ہیں ۔

پاکستان میں فوج کے طالع آزماؤں نے چار بار جمہوریت پر حملہ کیا اور اقتدار پر قبضہ کیا ، لیکن ان میں سے کسی ایک پر ملک اور عوام سے غداری کے الزام میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ملک میں فوجی طالع آزماؤں کے لئے دروازہ کھولنے والے ، خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان ، جنہوں نے جمہوریت پر پہلا حملہ کیا تھا،اپنے جانشین جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر ان کی اوٹ میں الگ ہوگئے اس یقین کے ساتھ کہ یحییٰ خان ان کوپورا تحفظ دیں گے کیونکہ سن 58 کے مارشل لاء کے نفاذ میں وہ بھی شریک جرم تھے۔ 

جنرل یحییٰ خان کا دور نہایت المناک دور ثابت ہوا جس میں ایک طرف فوجی حکمران اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر ملک کے دونوں حصوں کی سیاسی قوتوں کو لڑاتے رہے ، اپنے پڑوسی کے فوجی عزائم سے یکسر آنکھیں بند کئے ہوئے ، نتیجہ یہ کہ سیاسی بساط پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور فوجی میدان میں بھی شکست فاش کھانی پڑی اور وہ ملک جو مشرق میں بنگال اور مغرب میں پنجاب ، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے مسلمانوں نے متحدہ جدو جہد اورلاکھوں افراد کی جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا پچیس سال بھی پورے نہ کرپایا کہ دد لخت ہوگیا۔

بلا شبہ ملک کی سیاسی قوتیں ، اس شکست کے دوش میں ساجھے سے دامن نہیں بچا سکتیں لیکن المیہ کے اصل ذمہ دار فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان قرار پاتے ہیں جن کے خلاف عوام کی طاقت سے لیس ہونے کے دعوی دار ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مقدمہ چلانے کی ہمت نہیں ہوئی۔

گو انہوں نے فوج کی شکست کے اسباب کی تحقیقات کے لئے حمود الرحمان کمیشن قائمکیا تھا لیکن انہوں نے عمداً اس کمیشن کی رپورٹ سرکاری تجوری میں بند کردی اور جیتے جی اس کو ہوانہیں لگنے دی۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو چھپانے میں خود بھٹو صاحب کی مصلحت تھی کیونکہ اگر یہ رپورٹ شائع ہوتی تو فوج پر سنگین الزامات کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رول پر بھی کڑے سوالات اٹھتے کہ آخر ۷۰ کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو انہوں نے اقتدار سے کیوں محروم رکھنے کے جتن کئے۔

مجھے یاد ہے کہ 73 میں لندن میں اکیلے میں ایک طویل گفتگو میں جب میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ اتنی بڑی شکست اور ملک کے دو لخت ہونے پر آپ نے جنرل یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا۔

اس وقت اس شرط پر کہ میں ان کی زندگی میں یہ بات شائع نہیں کروں گا ، بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ امریکا نے صاف صاف خبر دار کیا تھا کہ جنرل یحییٰ کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ کیوں ؟ مجھ سے یہ سوال کرنے سے نہ رہا گیا۔بھٹو صاحب نے کہا کہ چین اور امریکا کے درمیان مصالحت کے عمل میں یحییٰ خان نے جو کردار ادا کیا تھا ، امریکی ان کے احسان مند تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یحییٰ خان کو مشکل میں نہ ڈالا جائے۔ بھٹو صاحب کا استدلا ل تھا کہ ملک کے دو لخت ہونے کے بعد اتنے سنگین مسائل تھے جن کے لئے کئی محاذوں پرامریکا کی مدد درکار تھی ، اس لئییحییٰ خان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

یحییٰ خان کے سنگین جرم کو جس طرح مصلحت کی بھینٹ چڑھا دیا گیااور ان کا احتساب نہیں ہوا شاید یہی وجہ تھی کہ سن77 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جنرل ضیا ء الحق کو شہہ ملی ۔بلا شبہ انہیں یقین تھا کہ اقتدار پر قبضہ کے بارے میں ان کا کوئی احتساب نہیں ہوگا۔ انہیں غالباً اس بات کا بھی یقین تھا کہ فوج کی طاقت کے سامنے عدلیہ بھی گھٹنے ٹیک دے گی اور نظریہ ضرورت کے پھریرے لہرائے گی۔ 

جب ملک اور عوام کے خلاف ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے جرائم نظر انداز کر دیے گئے توایک اور فوجی طالع آزما پرویز مشرف نے جب اکتوبر ۱۹۹۹میں ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا تھا تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ فوج کی قوت اور اس کے دبدبے کے سامنے ان سے کسی کو باز پرس کر نے کی ہمت ہوگی۔ 

اور 2001میں جب مشرف نے امریکا کی ایک دھمکی پر ملک کو امریکا کی جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تو اس وقت بھی ایک لمحہ کے لئے انہوں نے نہیں سوچا کہ ان کے اس اقدام پر ان کی باز پرس ہوگی اور ان ۲۸ ہزار پاکستانیوں اور بارہ ہزار فوجی جوانوں کی جانوں کا حساب مانگا جائے گا جو اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے اور ملک خونریز دہشت گردی کی آگ میں جھلس گیا۔

اور غالباً طاقت کے اسی نشہ میں انہوں نے عدلیہ پر اپنی ہیبت طاری کرنے کے لئے چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ لیکن عدلیہ کی آزادی کے لئے عوامی تحریک نے ایک فوجی طالع آزما کی بساط الٹ دی۔

بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب مشرف کے زخم کھائے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک جرنیل کو غداری کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی۔ فوج نے اسے اپنی انا کا مسلہ بنا لیا اور جب جب مشرف کو عدالت میں طلب کیا مشرف نے فوج کے ہسپتا ل میں پناہ لے کر بیماری کی چادر اوڑھ لی ۔ اور آخر کار ایک طویل عرصہ کے بعد غداری کے مقدمہ میں ایک دن بھی حاضری کے بغیر نواز شریف نے مشرف کو نہایت سرعت اور عجلت میں وطن سے باہر علاج کیلئے جانے کی اجازت دے دی۔

اس فیصلہ کے بارے میں مختلف تاویلیں پیش کی جارہی ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ نواز شریف ، عسکری قیادت کے ساتھ کشیدگی سے آزاد تعلقات استوار کرنے کی سعی کر رہے ہیں اور اس تناؤکو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مشرف کے خلاف مقدمات کی وجہ سے طاری ہے۔ پہلے ہی یہ خبریں تھیں کہ حکومت مشرف کے خلاف کیس عمداً کمزور کر رہی ہے تاکہ مقدمہ کی سماعت کے دوران فوج پر چھینٹے نہ اڑیں۔

کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے بعد وطن لوٹ آئیں گے لیکن اس نوعیت کا وعدہ تو امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی کیا تھا جو طویل عرصہ گذرنے کے بعد ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ ۔۔پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا۔۔۔پھروہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی ۔

Comments are closed.