عظمی اوشو
موسمی تبدیلیاں سیاست پر بھی اثر انداز ہورہی ہونے لگی ہیں اور اب اک پانچواں موسم بھی چپکے سے ہماری سیاسی زندگیوں کا حصہ بنتا جا رہا ہے یہ پانچواں موسم ضمیر جاگنے کا موسم ہے اس موسم کا کمال ہے کہ برسوں گہری نیند سوئے ضمیر اچانک جاگ اٹھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ تالی بجاؤ پارٹی بھی ساتھ آکھڑی ہوتی ہے جن کا کام برسوں سوئے ہوئے ضمیر کے اچانک جاگ جانے پر واہ واہ کا گیت گانا ہوتا ہے ۔
ہمارے بچپن میں جب الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں شامل نہیں تھا اس وقت ایک کھیل بہت مقبول ہوتا تھا پتلی تماشہ یہ کھیل کبھی گلی محلوں میں دیکھنے کو ملتا تھا تو کبھی سکول کالجوں کی مختلف تقریبات میں سکول کے زمانے تک مجھے ا س کھیل کی ہر گز سمجھ نہیں آئی اور میں یہ سمجھتی رہی کہ سٹیج پر ناٹک کرنے والی پتلیاں اپنی مرضی سے ناچ رہی ہیں ،رو رہی ہیں ،ہنس رہی ہیں ۔
مگر جیسے جیسے شعور پختہ ہونا شروع ہوا یا یوں کہہ لیں ہم ہوشیار ہونا شروع ہوئے تو سمجھ میں بات آئی کہ اصل کھیل اسٹیج کے پیچھے ہورہا ہے اور ان پتلیوں کو ناچانے والا دراصل وہ شخص ہے جو لکڑی کے بڑے سے صندوق میں ان رنگ برنگی پتلیوں کو لے کر آتاہے پھر ڈھول کی تھاپ اور گیتوں میں ایک ایک پتلی منظر پر لائی جاتی ہے پھر ان پتلیوں کو نچایا جاتا ہے ،کبھی لڑایا جاتا ہے،تو کبھی بحث و مباحثہ اور مکالمہ بھی ہوتا ہے۔ اسٹیج کے پیچھے بیٹھے اصل فنکار ان کو حرکت میں رکھتے ہیں اسٹیج کے پیچھے سے آواز بدل بدل کر بولا جاتا ہے کبھی قہقے لگائے جاتے ہیں تو کبھی رونے کا نا ٹک ہو تا ہے اس کھیل کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اسٹیج کے سامنے بیٹھے مجھ جیسے نادان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے بس یہی کھیل ہے پس پردہ کچھ نہیں ۔
یہ پتلی تماشے تو اب ماضی کا قصہ ہو گئے مگر آج کل سیاست کے لالہ زار میں ایسے پتلی تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی ایک مثال حال ہی میں کراچی میں ملتی ہے ویسے تو کافی عرصہ سے ضمیر جگاؤمہم سندھ میں شروع ہے اس میں کبھی صولت مرزا کا ضمیر جاگتا ہے تو کبھی ذوالفقار مرزاکا ،کبھی آفاق احمد تو کبھی مصطفی کمال ۔اچانک ان کو ضمیر جگاؤ قطرئے پلائے جاتے ہیں اور وہ برسوں کے بند بھید کھولنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر واہ واہ کی گردان سننے کو ملتی ہے۔
اس واہ واہ میں یہ سوال بھی کہیں گم ہو جاتا ہے کہ بھائی اتنا عرصہ لمبی تان کے سونے کا عادی ضمیر کتنا عرصہ جاگا رہے گا یا پھر اقتدار کی دیوی اس کا دل لبھا لیے گی ۔متحدہ قومی موومنٹ پر بھارت سے خفیہ تعلقات کا پہلا باقاعدہ الزام میاں نواز شریف کے دور میں لگا اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق تھے اور جنرل اسلم بیگ مسلح افواج کے سر براہ تھے کراچی کی ایک خفیہ ایجنسی کے مقامی سربراہ نے جنرل اسلم بیگ کوبتایا کہ ایم کیو ایم کو نہ صرف را کی طرف سے سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ پیغام رسانی کے جدید آلات بھی مہیا کیے جاتے ہیں ۔
اسی دور میں آرمی چیف کی ہدایت پر کچھ اعلیٰ افسران نے الطاف حسین سے عباسی شہید ہسپتال میں ملاقات کی جہاں وہ زیرعلاج تھے ۔ان دنوں ایم کیو ایم مرکز اور سندھ میں مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت تھی اورسندھ کا بینہ میں ایم کیو ایم کے وزراء بھی شامل تھے ۔ان دنوں ایم کیو ایم کے ایک وزیر موصوف بدر اقبال پر کرپشن کا الزام لگا جس کی تصدیق کے بعد الطاف حسین نے وزیر بدر اقبال سے استعفٰی کا مطالبہ کیا جس پر وہ کافی سیخ پا ہوئے مگر فوج کے کچھ اعلیٰ افسران کی مداخلت پروزیر صاحب استعفی دینے اور ملک سے باہر جانے پر آمادہ ہو گئے اور بلآخر عباسی شہید ہسپتال کے کمرے میں ہی بدر اقبال سے استعفی لے لیا گیا۔
مگر اس کمرے میں موجود ایک دوسرے شخص کو ضمیر جگاؤ قطرئے پلا دیے گیے اور پھر آفاق احمد سے وہ ہی کام لیا گیا جو آج کل مصطفی کمال سے لیا جا رہا ہے۔جنرل آصف نواز کے دور میں بھی ایم کیو ایم سے جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے ٹارچر سیل پکڑے گئے ۔آ فاق احمد اور بدر اقبال نے را سے رابطوں کا انکشاف کیا مگر اس کے باوجود 1993 کے انتخابات میں ایم کیو ایم بھر پور قوت سے سندھ اسمبلی میں براجمان رہی ااور اس کے بعد یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
حالیہ بغاوت میں فرق ہے تو صرف صدارتی نظام کی حمایت کا ہے دراصل تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پنڈی والوں کی اکثریت صدارتی نظام کی حمایتی ہے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بھٹو صاحب کا تاریخی بیان ہے جو انہوں نے 1978 چھ مارچ کو لا ہور ہائی کورٹ میں دیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ 28اگست 1977 کو جنرل ضیا الحق نے راولپنڈی میں جنرل فیض علی چشتی کی موجودگی میں ان سے ملاقات کی اور کہا کہ پارلیمانی نظام قومی مفاد میں نہیں ہے براہ کرم مجھے ایک نئے نظام کا نقشہ بنا دیں۔
جس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ اس کام کے لیے آپ کے پاس شریف الدین پیرزادہ ، اے کے بروہی اور مولوی مشتاق حسین مو جودہ ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1973کاآئین ایک متفقہ دستاویز ہے اس آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے لیکن آئین کے پارلیمانی اور جمہوری ڈھانچے کوبدلا نہیں جاسکتا ۔پچھلے کچھ عرصہ میں صدارتی نظام کے حماییتوں میں جنرل شجاع پاشا اور افتخار چوہدری بھی شامل ہیں اور ابھی تک دل ناتواں میں یہ خواہش پالے ہوئے ہیں کہ ملکی مفاد کے لیے صدارتی نظام رائج ہو نا چاہیے ۔
اس صورت حال میں سمجھ جانا چاہیے کہ لکڑی کے صندوق میں رنگ برنگی پتلییاں بھرے کون پتلی تماشہ کر رہا ہے گو کہ آج کل اس کا مرکز سندھ ہے کبھی صولت مرزا ،کبھی ذوالفقار مرزا،تو کبھی مصطفی کمال تک سب مہرے اسٹیج پر اتارے جا رہے ہیں ۔مگر یہ تماشہ یہاں ختم نہیں ہو گا۔ صندوق والے باقی صوبوں کا رخ بھی کرسکتے ہیں وقت کی اس دسخت کو جمہوری طاقتوں کو سمجھنا چاہیے ۔اس پتلی تماشہ کی دھول میں سابق جنرل مشرف کو بھی الوداع کہہ دیا گیا اور آرٹیکل 6 کا پلے کارڈ لیے قوم کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
نوازگورنمنٹ نے جنرل مشرف کے ٹرائل کے بلندوبانگ دعوئے کیے تھے جن کی سزا دھرنوں کی صورت میں پائی تھی میاں نواز شریف اس بات کو فراموش کر رہے تھے کہ جنرل تو جنرل ہو تا ہے چاہے اس کے نام کے ساتھ سابق ہی کیوں نہ لگتا ہو ۔اور جنرل مشرف کے توموجودہ ٓرمی چیف سے خاندانی روابط ہیں ۔ سو آئین پاکستان ایک بار پھر گھر کی چاردیوای میں ہی بے آبرو ہو گیا اور جنرل مشرف نے دوبئی میں سگار کے کش لگا کر آئین کی بیچارگی کا جشن منایا ۔
♣