پنجاب میں ایک عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے ملک بھر سے آوازیں اٹھتی رہی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف دہشت گردوں کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔اگر پنجاب میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کاروائیاں کر لی جاتیں تو اس سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔
گلشن اقبال میں دھماکے سے مرنے والے مسیحی افراد کی آخری رسومات کے موقع پرپادری جاوید اشنائیز کا کہنا ہے کہپنجاب میں ہونے والے حالیہ بڑے بڑے دہشت گردی حملوں سے بظاہر ایسا ثابت ہوگیا ہے کہ اس صوبے میں شدت پسند تنظمیں منظم طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔ ’بظاہر ایسا نظر آرہا کہ دہشت گردوں نے اب پنجاب کو اپنا ہدف بنایا لیا ہے اور اگر ان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا گیا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ریاست بہت طاقت ور ہوتی ہے جس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی لہذا حکومت اور تمام ریاستی اداروں کو مل کر دیگر شہروں کی طرح پنجاب میں بھی بھر پور کارروائی کرنی چاہیے تاکہ دہشت گردی کے ناسور کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکے‘‘۔
ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر پنجاب میں واقعی دہشت گردوں کی بڑے بڑے نیٹ ورکس موجود ہیں تو پھر حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی سے گریز کیوں کی جارہی ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شاید کسی مصلحت کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آپریشنز کی شدید مخالف رہی ہیں۔
سنہ2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد انتہا پسندی کے خاتمے کے جو بلند وبانگ دعوے کیے گئے تھے وہ سب ہوا میں اڑ چکےہیں ۔ایک تجزیہ نگار کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ پاکستان آرمی کی مہم جوئی پر مبنی پالیسیاں ہیں۔ مذہبی انتہاپسند تنظیمیں اور ان کے ادارے پاکستان آرمی کے دفاعی اثاثے ہیں جن کو وہ ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں کھلے عام پاکستان میں دندناتی پھر رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے کاروائی نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ممتاز وکیل عاصمہ جہانگیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان میں اصل فیصلے فوج کرتی ہے اور فوج کے ہاں شفافیت نہیں پائی جاتی، اسی لیے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا دایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے اور بایاں ہاتھ کدھر جا رہا ہے۔‘دہشت گردی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور حکومت کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کیونکہ ’فوج ہر چیز کا کریڈٹ لے لیتی ہے، لیکن جب دہشت گردی کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ردعمل سامنے آتا ہے تو الزام سویلین حکومت پر لگا دیا جاتا ہے۔‘
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پنجاب میں بھی دینی مدارس اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعلق موجود ہے۔’اگرچہ حکومتی وزرا کاا صرار ہے کہ مدرسوں میں عسکریت پسندی نہیں پائی جاتی، لیکن جب بھی کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے اس کے تانے بانے مدرسوں سے جا ملتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت مدرسوں کے معاملے میں مبہم حکمت عملی ختم کرے کیونکہ اس سے لوگوں کا حکومت پر اعتبار ختم ہو رہا ہے۔حکومت کو مدرسوں کے معاملے میں گومگو کی پالیسی ترک کرنا پڑے گی کیونکہ لوگ اب آدھا جھوٹ آدھا سچ قبول نہیں کریں گے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے۔’ایک طرف وہ کہتی ہے کہ اچھے برے طالبان میں کوئی فرق نہیں کیا جا رہا، لیکن دوسری جانب حکومت کے اپنے ہی ادارے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ تمام دہشت گردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن ان لوگوں کو مکمل آزادی ملی ہوئی ہے جو مذہب کو استعمال کر کے لوگوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔‘’اگر حکومت واقعی دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے تو انھیں مدرسوں پر سختی کرنا پڑے گی کیونکہ مدرسے انتہا پسندی کی ترویج کر رہے ہیں‘۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق اگر حملہ آوروں کے فخریہ نقطہء نظر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ حملے گویا حکومت اور سکیورٹی فورسز کے لیے باعث شرمندگی تھے۔ دہشت گرد نو ملین نفوس پر مشتمل لاہور کے ایک پارک میں ایسٹر کے اہم دن کے موقع پر مسیحی برادری کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے کے مطابق اس حملے کا ابتدائی نتیجہ یہ ہے کہ ستر سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 29بچے بھی شامل ہیں جبکہ مسیحی ’’صرف‘‘ دس ہیں۔
حملہ آوروں کا یہ دعویٰ کہ وہ لاہور میں مسیحیوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اپنی تشہیر کے لیے چلی جانے والی ایک شرمناک چال تھی۔ طالبان کا یہ دھڑا بجا طور پر یہ امید کر سکتا ہے کہ دنیا بھر میں، خاص طور پر مغربی مسیحی دنیا میں، انہیں کافی حد تک توجہ حاصل ہو گی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان انتہاپسندوں کے اہداف کچھ بھی ہوں، بڑے پیمانے پر ان کا شکار مسلمان ہی بن رہے ہیں، چاہے یہ داعش کے زیر قبضہ شام یا عراق، افریقہ، انڈونیشیا یا پھر افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کریں۔
News Desk