ایک قبائلی کا جنرل راحیل شریف کو پیغام

زیب محسود

1213

ہمارے سادہ لوح نوجوانوں کوطالبان کس نے بنایا ؟ااور فاٹا میں دنیا بھر کے جنگجووّں کو کس نے آباد کرایا ؟کیا ہم جیسے ان پڑھ اور غریب لوگ اُسامہ بن لادن کے بزنس پارٹنر تھے یا ازبک اور چیچن کے ساتھ ہم کوئی ٹریڈ کر رہے تھے۔ کس نے فاٹا کو دنیا بھر کی جاسوس ایجنسیوں کے پراکسی وار کا زون بنا یا اور یہی نہیں بلکہ کس نے ڈالروں کے عوض فاٹا کو انسانوں کی شکار گاہ بنا دیا ؟ بالکل ایسے ہی جیسے عرب شیخوں کو پاکستان کے ریگستانوں میں درہم و ریال کے لالچ میں معصوم پرندوں کی شکار کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے ۔

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش اور بلوچستان کے اس حال کا کون ذمہ دار ہے اور فاٹا کے قبائلیوں کو کس نے جنگ کا ایندھن سمجھ کر جب چاہا استعمال کیا اور 9 / 11 سے لیکر اب تک یہ جونوے ہزارسے زائد لوگوں میں سے کتنے فوجی جوان شہید ہوئے اور کتنے پشتون جوان،بچے خواتین اور بوڑھے شہید ہوئے اور اب تک کتنے ملین قبائلی بے گھر و بے در ہوئے۔ آپ کے پاس پنجاب اور سندھ کے یوتھ فسٹیول کے ناچ گانوں پر خرچ کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرنا قومی خدمت ہے ۔ مگر ان پشتونوں کے لیے حق بات کہنے کی بھی ہمت اور وقت نہیں یا پھر جنرل ٹکا خان کی طرح جیسے کہ اُس نے آج کے بنگلہ دیش اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے لیے کہا تھا (کہ ہم کو لوگ نہیں زمین چاہیے ) پھروہ لوگ تو رہے ۔

مگر وہ زمین جنرل ٹکا خان کے بجائے اُن لوگوں نے بنگلہ دیش کی شکل میں خود حاصل کر لی ۔ اب اگر آج کے جرنیلوں کا بھی یہ ارادہ ہے تو مرد بنیں اور اعلان کریں کہ ہم کو فاٹا کا علاقہ چاہیے یہ نام نہاد وار آن ٹیرر کے بہانے نہ بنائیں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم بنگالیوں سے بھی کمزور ہیں ( دا گز دا میدان) آزمالیں خود کو بھی اور ہم کو بھی! کیونکہ یہ ملک جتنا آپکا ہے ہمارا بھی اتنا ہے اس لیے گزارش ہے کہ ہمارے صبر اور برداشت کو کمزوری نہیں حب الوطنی سمجھیں۔

شکریہ راحیل شریف اآجکل پاکستان میں شکریہ راحیل شرف کا وردکیا جاتاہے، اس لیے ہم بھی اگر جان کی امان پائیں تو ایک قبائلی کا آپکو پیغام دینے کی سعادت حاصل کریں۔اصولی طور پر تو عوام کو گزارشات حکمرانوں یعنی سیاستدانوں سے کرنی چاہیے پر فاٹا میں تو اُن کا کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ وہ فاٹا کو اور قبائلیوں کو پاکستان کا حصہ اور لوگ نہ سمجھتے تھے نہ ہیں اور نہ سمجھیں گے۔ جس کی قدم قدم پر انہوں نے ہزاروں ثبوت دیے مثلاً جب نام نہاد ضرب عضب شروع ہوا تو پنجابیوں اور سند ھیوں نے جس طرح اپنے صوبوں کی سرحدیں بند کیں اسطر ح تو یورپ نے مہاجرین پر نہیں بند کیں ۔آج رائیونڈ محل،بلاول ہاوس ،بنی گالا اور شہزا د ٹاؤن کے محلات کے لیے بجٹ کی نہ کمی تھی نہ ہوگی۔

اس طرح رنگ برنگی ٹرینوں ،پاور پلانٹس۔ موٹر ویز اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بنانے کے لیے قرضوں پہ قرضے لے سکتے ہیں ۔کیونکہ وہ ان کے اپنے لوگ اور ملک کا معاملہ ہے ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے لہذا یہ آ پکا اندرونی معاملہ ہے ہم غیروں کو کوئی حق نہیں کہ دخل دیں۔ اس لیے تو پاکستان کے ستر سے زیادہ TVچینل آیان علی کی کیٹ واک،ڈاکٹر عاصم کے کارناموں اور عمران ریحام کے طلاق جیسے عظیم ملکی معاملات پر دن رات مغز کھپاتے تھے ۔ اور کبھی اتنا فالتو وقت ہی نہیں کہ ان پالتو جانوروں قبائلی لوگوں کی بات کریں۔

ویسے اسکا فائدہ بھی نہیں تھا کیونکہ آپ آزادانہ طور پر کسی بھی جرنلسٹ کو فاٹا جانے نہیں دیتے اور جن مخصوص صحافیوں کو لے جاتے بھی ہو تو سر پر انکے ( دولے شاہ کے چوہوں والی ٹوپی) اور آنکھوں پر مخصوص کولہو کے بیل والی پٹی یعنی عینک پہنا کر وزٹ کراتے ہو پھر یہ حضرات وہی فرماتے ہیں ۔ جو آپ کہلوانا چاہتے ہو ! لہذا ان کو آیان اور ریحام کے جیسے قومی مسئلے پر ہی توجہ دینی چاہیے یا حمزہ اور بلاول کے ناچ گانے کے یوتھ فیسٹیول کی کوریج کرنی چاہیے ۔ خیر ہمارے ان پڑھ اور عقل سے عاری بزرگوں نے اسلام کے نام پر پاکستان سے الحاق جو کیا تھا تو کیا اب قیامت تک ہم قبائیلیوں کو اس کا خراج دینا پڑے گا ۔ہو سکتا ہے اُن کے زمانے میں یہ واقعی پاکستان ہو مگر اب تو یہ مکمل پنجابستان بن چکا ہے یا تھوڑا بہت بچاکچا سندھو دیش بھی ہو شاہد ! جن کے ہیڈ آفس ، دوبئی ،لندن، انْقرہ اور ریاض میں ہیں۔ ماشاء اللہ اب تو یہ ملک خلیج اور یورپ تک وسیع و عریض ہوگیا ہے ایسے میں فاٹا جیسے بے کار علاقہ اور لوگ آپکے کس کام کے۔

مگر آپ کا اور آپکی فوج کا ہم سے براہ راست تعلق ہے کیونکہ ہم تو آپ کے اصطبل کے وہ گھوڑے اور خچر ہیں جن کو آپ خاص موقعوں پر یاد کرتے ہو اور یہ قربانی کے جانور جن کو عرف عام میں قبائلی کہتے ہیں یہ نادان ابھی تک خود کو صرف انسان ہی نہیں بلکہ پاکستانی بھی سمجھتے رہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو یہ پاکستانی ہیں اور نہ ہی انسان یہ تو جنرل ضیاء الحق اور فخرکمانڈوز مشرف جیسے جرنیلوں کے قربانی کے جانور تھے اور اب آپ جیسے جلیل القدر جنرل ان کے مالک ہیں۔اس لیے ہم جیسے بزدل اور بے وقوف لوگ جن کو جب چاہو قربانی کے جانور بنا کر کشمیر میں 1947انڈیا کے خلاف ، 1979 افغانستان میں روس کے خلاف اور پھر 2001 سے آج تک امریکہ کے خلاف کے گڈ اور بیڈ طالبان کی ڈبل گیم سے قربان کرتے رہے اور بدلے میں ڈالر بٹورتے رہے۔

کیونکہ ہم تو ہیں ہی اس قابل ! لیکن آپ نے اُپنے پیشرو جنرلوں کو اس لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا اور ہونا بھی چاہیے کہ آپ تو دو دو نشان حیدر کے والی و وارث ہو اس لیے تو آپ نے تو یہ کمال کرنا ہی تھا بلکہ اب تو اسکے عوض آپکو بھی نشان حیدر ملنا بنتا ہے ! آپکو شاہد معلوم نہ ہو کہ کسی زمانے یعنی دہشت گردی کی جنگ سے پہلے ان قبائلیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی خودداری اور غیرت پر کبھی بھی کمپرو مائز نہیں کرتے ۔یہی وجہ تھی کہ خیبر سے ساؤتھ وزیرستان تک سات ملین کی آبادی میں ایک بھی بھکاری نہیں ملتا تھا۔ مگر آپ کی جراَت اور ہمت کو سلام کہ اپ نے قبائلیوں کو بے گھر تو کیا ہی اور سینکڑوں قبائلی بچوں بوڑھوں کو کشکول تھما دیا ۔ یہ اور بات کہ آج بھی لاکھوں قبائلی اپنے بل بوتے پر روکھی سوکھی کھا کر یا عزیز رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے کر اپنی خودداری کا بھرم رکھے ہوئے ہیں ۔

آپکو شاہد یقین آے یا نہ آئے کہ قبائیلی کے لیے کشکول اُٹھانا اتنا ہی ذلت آمیز اور اذیت ناک ہے جیسے 16 دسمبر 1971کو جنرل نیازی کا جنرل اروڑا کے سامنے سرنڈر کرنے پر قبائلیوں کو ذلت کا احساس اور اذیت ہونا یہ ایک برابر تھا اور ہے ۔ آج بھی جب کبھی بھول کر یو ٹیوب پر وہ کلپ نظر آجا ئے تو آج بھی ہر پشتون خواہش کرتا ہے، کہ کاش پوری کی پوری 90 ہزار فوج شہید ہو جاتی پر تاریخ کا وہ شرم ناک منظر ہم کو نہ دکھاتی مگر یہ بات پاکستان کے دولت اور طاقت کے حرص میں مبتلا جرنیلوں کو سمجھ نہیں آتی ۔ جو کراچی میں اپنی عوام کی لاشوں پر فخریا مُکے لہراتے تھے۔ کیونکہ کہیں اور تو جھنڈے لہرانے سے رہے ۔لے دے کہ بلوچستان اور فاٹا میں جھنڈے لہرا کر اپنی تسکین کر سکتے ہیں یا پھر ڈراموں اور فلموں کے زریعے اپنی عظمتوں کی داستانیں بیان کرسکتے تھے۔

میرے خیال میں جس طرح فوج نے پراپرٹی کا کاروبار میں ترقی کی ہے اگر وہ فلم پروڈکشن ہاؤس بھی کھول لیں تو زبردست کمائی ہوسکتی ہے ۔گزارش یہ ہے کہ ہمیں آپ کی یہ بھیک نہیں چاہیے جو آپ کے یہ نام نہاد حکمران آئی ڈی پیزکے نام پر دنیا بھر سے اربوں ڈالر کشکول میں لے کر آتے ہیں اور سب سے پہلے یہ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں کیونکہ یہی بھکاری تو اصل حقدار ہیں اور جو بچ جائے تو ڈی ایچ اے میں کھپا دیں ۔ لہذا ہمارے نام پہ مزید بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں اور دوسری بات یہ کہ مزید ہم کو حب الوطنی کا فریب دینا بھی بند کریں ۔

3 Comments