مقبول ملک ۔بون، جرمنی
کل رات میں سویا ہوا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھلی۔ وجہ کوئی ڈراؤنا خواب نہیں بلکہ کمرے کے ایک کونے سے سنائی دینے والی سسکیاں تھیں۔ میں ڈر گیا، لیٹا رہا اور لائٹ جلانے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ میں سہما سہما سوچنے لگا کہ یہ کون ہے اور سسکیاں کیوں لے رہا ہے؟
میں نے دم سادھے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو صرف دو آنکھیں نظر آئیں، دو سرخ آنکھیں جو وحشت زدہ تھیں۔ میں نے ہمت کر کے سرگوشی میں پوچھا، ‘کون؟‘ ”میرے بہت سے نام ہیں؛ ابوبکر، بشریٰ، فاطمہ، علی، عمر، اسماعیل، جیمز، کرسٹوفر اور ڈورِس۔” مجھے کچھ سمجھ نہ آئی، ”تم کہاں سے آئی ہو،” میں نے پوچھا۔ ”لاہور کے ایک پارک سے، چارسدہ کی یونیورسٹی سے، پشاور کے اسکول سے، کراچی کی ایک بس سے، بہت سی مسجدوں سے اور کئی گرجا گھروں سے۔” اس جواب نے مجھے اور بھی پریشان کر دیا۔
میرے لیے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ جس انسان کی یہ وحشت زدہ آنکھیں ہیں اور جس کے لہجے سے اس کا کرب واضح ہے، اس کی عمر کیا ہو گی۔ مجھے صرف وہ آنکھیں ہی کچھ کچھ دکھائی پڑتی تھیں۔ ”یہاں کیا لینے آئی ہو،” میں بمشکل پوچھ پایا۔ ان آنکھوں نے بہت سرد لہجے میں کہا، ”دو باتوں کے جواب دو گے؟ میں بھی پاکستانی ہوں اور تم بھی، میں خون میں لتھڑی ہوئی کیوں ہوں اور تم سو کیوں رہے تھے؟ اور میں نے تاریکی میں اپنے لہو کے جو بیج بوئے ہیں، ان سے اجالوں کی فصل کب اُگے گی؟”
اس سے پہلے کہ میں ان دو سوالوں میں سے کسی کا بھی کوئی جواب دے سکتا، سرخ آنکھیں کمرے کے کونے سے یکدم غائب ہو گئیں۔ میں نے کافی کوشش کی لیکن گھپ اندھیرے میں کچھ بھی نہ دیکھ سکا۔ رات کے دو تین بجے ہوں گے۔ اس انہونے سے تجربےکے بعد میں دوبارہ سو نہ سکا۔ میں صبح ہونے تک جاگتا رہا۔
دن چڑھنے تک میرے اندر احساسِ جرم سر اٹھا چکا تھا۔ یہ احساس کہ میرا سویا رہنا ہی میرا جرم تھا۔ دوسرے سوال کا کوئی جواب ابھی تک مجھے نہیں سوجھا۔ اندھیروں میں بوئے گئے لہو کے بیجوں سے اجالوں کی فصل کب اُگے گی؟ سارا دن گزرنے کے بعد اگلی رات بھی آدھی سے زائد گزر چکی ہے۔ میں ابھی تک نہیں سویا۔ میری آنکھیں سرخ ہو چکی ہیں۔ بیج کب پھوٹیں گے؟
♣
2 Comments