اظہر سلیم
انسان جہاں بہت سے معروضی اور موضوعی عوامل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے انہی میں مذہب بھی شامل ہے۔یہ وہ عوامل رہے ہیں جن کا سہارا لے انسان نے کبھی صبر و برداشت کے طویل سفر طے کیے تو کبھی تباہی کا منہ دیکھا۔مذہب کے ساتھ انسان کا تعلق کافی پرانا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذہب کے ساتھ انسان کی وابستگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مذہب کی شان کسی انسان کی جان سے بھی زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔
مذہب نے انسان کو کیا دیا اور انسان نے اس سے کیا پایا یہ ایک الگ بحث ہے،اصل بات یہ ہے کہ انسان نے مذہب سے سیکھا کیا ہے۔ اگر مذہب اخلاق،قربانی،ایثار اور محبت کا سرچشمہ ہے تو آج ہر معاشرہ نفسا نفسی کا شکار کیوں ہے،کیوں کسی کی جان،مال محفوظ نہیں،کیوں محبت اورخلوص کی جگہ خود غرضی نے لے لی ہے،کیوں قربانی اور ایثارکا مطلب کسی دوسرے کا امتحان لینا ہے اور خود کو اس سے بری الذمہ سمجھنا ہے۔
یہ وہ سوال ہیں جو مکمل وجود رکھتے ہیں مگر وہ لوگ جو خود کو مذہب کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں،ان سے نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ جو یہ سوال اٹھائے توانہیں مذہب کا دشمن سمجھ کر انکو قتل کرنا واجب سمجھتے ہیں۔ماضی میں دیکھا جائے تو مدرسری دور سے پدرسری دور کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب بھی معاشرے کے بالادست طبقوں کاایک ہتھیار رہا ہے جس کامقصد اقتدار چند لوگوں کے ہاتھ میں رکھ کر باقی تمام لوگوں پر حکومت کرنا تھا۔
انہیں اچھائی برائی ،نیکی بدی،جنت اور دوزخ کے جال میں پھنسا کر انہیں تقدیر کے دھاگے میں قید کرنا تھااور خود ہر طرح سے آزاد رہنا تھا ،اور یہی وقت نے ثابت بھی کیا۔مذہب بقول مارکس کے وہ افیون ہے جس کے نشے میں انسانوں کو مبتلا کرکے ان کی سوچوں کے سوتے خشک کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ انسان کے سماجی معاشی مسائل کے ذمہ داران کا تعین کرسکیں بلکہ ان کو اس نشے میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ سماجی ،معاشی مسائل ریاست اور حکمرانوں کے پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ مافوق الفطرت قوتوں کی جانب سے ہیں اور یہ ان کی آزمائش ہے۔
اگر دنیا میں ان کو مسائل ملے ہیں تو آخرت میں وہی قوتیں ان کو جنت دیں گی۔ پدرسری دور کے بعد سب سے پہلے استحصال کاجو زیادہ شکار ہوئی وہ عورت تھی،جوآج بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔مذہب کا سہارالے کر عورت کی زندگی کو جس قدر نشانہ بنایا گیا کوئی بھی قابل فہم انسان اس سے انکار نہیں کر سکے گا۔مدرسری دور کا خاتمہ کرتے ہوئے عورت کو یہ جھانسہ دیا گیا کہ کہ مرد اور ریاست عورت کو تحفظ فراہم کریں گے اور انہیں ہر طرح کے حقوق مہیا کریں گے۔
عورت کو کس قدر استحصال اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا وہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر سچ اور حقائق کی بات کرنے والوں اور ان کو ثابت کرنے والوں کے ساتھ کیا گیا۔ اس سے بھی دنیا واقف ہے۔سقراط کوزہر کاپیالہ پینے پر کس نے مجبور کیا،ارسطو،افلاطون پر کاذب ہونے کے فتوے کس نے لگائے۔دنیاکو ترقی دینے والے لوگوں کو صفحہ ہستی سے کس نے مٹایا؟مذہب کا پرچار کرنے والی قوموں اور ممالک کا آج دنیا میں کیا مقام ہے اور انہوں نے مذہب کے نام پر کتنا عالمی امن اور محبت قائم کی وہ بھی دنیا دیکھ چکی ہے۔
یہی نہیں بلکہ عورت کو اپنی ضروریات کے تحت فرمانبرداری اور تابعداری کا جو درس دیا جاتا ہے وہ بھی مذہب کے نام سے دیا جاتا ہے ۔ہمارے جیسے پسماندہ معاشرے کی عورت کو جوتے پالش کرنے کا درس اس لیے دیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہب میں عورت کو خاوند کی تابعداری کا درس دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ جوتے پالش کرو ۔استحصال کی تمام بنیادوں کو مذہب کے نام سے ہی تحفظ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
عورت کو معاشی سرگرمیوں سے روکنے کا عمل ہویا ،یا سیاسی عمل سے روکنا مقصد ہو یا تعلیم سے دور رکھنا مذہب کی ہی آڑ لی جاتی ہے ۔قبائلی ،طبقاتی و جنسی تفریق کو تحفظ مہیا کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے ۔سائنس و تحقیق کا راستہ روکنے کے لیے بھی مذہب سہارا لیا جاتا ہے ۔تمام تر انسانی آزادیوں کے راستے میں مذہب کو کھڑا کیا جاتا ہے ۔یہ سب ایک مخصوص طبقہ اپنے مفادات کے لیے کرتا ہے ۔
اور جب سوال اٹھایا جائے تو ان کی جنونیت وحشت میں بدل جاتی ہے ۔پھر انسان محفوظ نہیں رہتے بلکہ یہ جنونی انسان سے سوال کا حق ہی چھین لیتے ہیں ۔بلکہ تابعداری اور فرمانبرداری کا درس دیتے ہیں۔اس کی مثال آئی ایس آئی ایس،دولت اسلامیہ ،القاعدہ،شیو سینا ان تمام تنظیموں نے مذہب کے نام پر آج دنیا کا امن کس قدر تباہ کر دیا ہے کہ اس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا۔
مذہب کے نام پر دنیا میں امن اور محبت کا درس دینے والے جس روپ میں اب نظر آ رہے ہیں اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مذہب کا مقصد کیا تھا ،کیا مذہب بھی ریاست کے استحصالی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار نہیں ہے۔ جس کا مقصد سماج میں اپنی بالادستی قائم کرنا تھا ،جس طرح مختلف مذاہب کے ماننے والے آج اپنے اپنے مذہب کا جھنڈا دنیا میں سب سے اونچا اڑنا چاہتے ہیں،اور اس کی قیمت بے شک لاکھوں کروڑوں مظلوم عوام کا خون ہی کیوں نہ بہانا ہو۔
ایسے حالات اور صورت حال کے بعد کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب ،خاص کر آج کے دور کا مذہب،جس کا چرچا کیا جاتا ہے وہ امن و محبت ،سلامتی اور ایثار کا پیغام دنیا میں پھیلا رہا ہے۔مذہب جو کسی دور میں اخلاقیات،امن اور محبت کا ضامن سمجھا جاتا تھا،وہی مذہب آج جس بھیانک روپ میں دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔ کیا اسکے بعد یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل جگہ رہے گی۔
مذاہب کے اندر مختلف رحجانات کے تحت فرقہ بندیاں اور بین المذاہب فرقہ بندیاں بھی صرف اور صرف سماجی تفریق اور تقسیم کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور ہمارے جیسے معاشروں میں وسیع تر انسان جو سماجی و تاریخ شعور نہیں رکھتے اس میں الجھے رہتے ہیں۔
♠