پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا تجزیہ

anb

ارشد نذیر

کئی دنوں سے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں اور ان کے نشیب و فراز کی سیاسی، ثقافتی اور نفسیاتی وجوہات پر غور کر رہا ہوں ، دل چاہ رہا ہے کہ اس پر ایک دفعہ سیر حاصل بحث کا آغاز کیا جائے اور برِصغیر پاک و ہند میں ابھرنے والی بائیں بازو کی تمام تحریکوں کا جائزہ پیش کیا جائے۔ پھر پاکستان کی بائیں بازو کی تحریکوں کے نشیب و فراز کا بھی مفصل جائزہ لیا جائے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں برِصغیر میں وہ بنیادی تبدیلی نہیں لاسکیں یا کم ازکم تبدیلی لانے کے لئے جتنا’’ عوامی دباؤ‘‘ درکار ہوتا ہے ، وہ بھی پیدا نہیں کر پائیں۔ موضوع چونکہ دقیق بھی ہے اور ہمہ جہتی بھی ۔اس لئے یہ جتنا ذہنی یکسوئی کا متقاضی ہے ، وہ نصیب نہیں ہو پارہی۔ کہاں بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاست دانوں سے غلطیاں سرزد ہوئیں اور وہ غلطیوں کی تصحیح کس حد تک کی گئی۔

یا پھر انہوں نے بھی صرف یہی سوچا کہ غلطیاں ہوتی ہی صرف دوہرانے کے لیے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ٹی رحجان اور عوامی ورکرز پارٹی جیسی بائیں بازو کی تنظیموں کا بھی غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہاں کے بائیں بازو میں مختلف گروپ یا ٹوٹ پھوٹ کی وجوہات سیاسی ہیں، سماجی اور ثقافتی ہیں یا نفسیاتی اور انفرادی نوعیت کی ہیں ۔ کیا یہاں ابھرنے والی بائیں بازو کی تحریکوں کے کرتا دھرتا اپنی انا کے قیدی ہیں اور خو د پسندی کے حصار کو پھلانگ ہی نہیں سکتے یا واقعاتی طور پر ’’ثقافتی پسماندگی‘‘ جیسی کوئی چیز ہے جو انہی کرتا دھرتا اور ان ٹوٹ بتوں‘‘ کو لاشعوری یا شعوری طور پر اپنی ذات سے اوپر اُٹھنے کی جرات ہی فراہم نہیں کرتی۔

اس تجزیہ کی بھی آج بھی ضرورت موجود ہے آیا کہ ان رحجانات کے تعمیر کردہ تنظیمی ڈھانچوں میں ہی ’’بیوروکرٹک رویوں‘‘ جیسی نامیاتی خرابی موجود ہے یا یہ محض ایک انفرادی نفسیات کا مسئلہ ہے۔

تمام تر صورتحال کے باوجودآج پاکستان کا سماج جن تضادات کا شکار ہے وہ بہت گہرے بھی ہیں اور تبدیلی کے اس عمل میں پورے سماج اور بالخصوص نظام کے استحصال زدہ طبقات کی براہِ راست شمولیت اور دخل اندازی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ جب تک اس نظام کے گزیدہ استحصال زدہ لوگ ’’سماجی اور سیاسی تبدیلی‘‘ کے اس عمل میں خود نہیں اترتے، کوئی بھی ترکیب کارگر ثابت نہیں ہوگی۔

یہ میری انتہائی سوچی سمجھی رائے ہے کہ بالادست طبقات کی کاسمیٹکس تبدیلیاں حقیقی سماجی مسائل اور عوامی مصائب کا علاج کرنے میں بالکل ناکام ہیں اور ناکام رہیں گی۔ اگر سماج کو اس زوال اور پژمردگی سے نکالنا ہے، تو اسے سیاسی عمل کا شرکت دار اور دخیل بنانا ہوگا۔ ایسا اس نظام سے مستفید ہونے والے نہ کبھی کرتے ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے۔

اس لئے آخری تجزیے میں جو بات صاف ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ طبقات کے تضادات بڑھیں گے۔آنے والے وقتوں میں یہ تضادات ریاست اور خاکی بیوروکریسی میں بھی شدید ہو سکتے ہیں اور مُلااور ریاست کے درمیان بھی۔ لیکن یہ سب اس نظام سے براہِ راست مستفید ہونے والے بھی ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے تضادات کو ایک حد تک لے جا کر پیچھے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جدلیاتی طور پر تاریخی عمل کبھی بھی ایک سیدھے خط کی شکل میں پیچھے کی طرف نہیں لوٹتا۔

 
چلیں وقتی طور پر مان لیتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام اور جمہوریت ہی سکہ رائج الوقت ہیں ۔ تو پھر ذرا اسی کا ہی تجزیہ کر لیتے ہیں۔ پھر یہ سوال اتنا ہی صائب ہے کہ ان نظاموں کے اندر رہتے ہوئے بھی ان دو طبقوں کے درمیان موجود فاصلوں کو جس حد تک کم کیا جاسکتا تھا ، پاکستان میں اتنا بھی نہیں ہوپایا۔ اس کے لئے جس تاریخی اورسیاسی پسِ منظر کی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے ہاں اُس پسِ منظر کا فقدان رہا ہے ۔ پاکستان میں مطلوبہ سیاسی کلچر بن پایا ہے اور نہ ہی ہم نے اپنی ان ٹوٹ ثقافت کو قبول کیا ہے۔

ہم نے کبھی یہاں ’’اسلام ‘‘ تو کبھی ’’اسلامی جمہوری‘‘ نظام کے تجربات کئے ہیں۔ پھر ’’سیاسی اسلام‘‘ اپنا ارتقائی سفر طے کرتے کرتے ، آج سعودائزیشن اورسلفی وہابی ازم کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ مختلف جمہوری تجربات بھی کئے گئے لیکن نتیجتاً اشرافیہ ہی کا طبقہ اس سے مستفیض ہوتا رہا۔ لیکن جمہوریت اتنا کچھ بھی نہیں دے پائی جتنا اس نے مغرب کو دیا۔

نام نہاد روشن خیالوں اور لبرلز کا خیال ہے کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جاتا تو یہاں بہتر نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن آج ریاست کے اداروں کے درمیان تضادات اور غربت اور امارت میں بڑھتے فاصلے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ یہ تضادات اور بھی شدت اختیارکریں گے۔
ہمارے ہاں موجود تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں افراد کے گرد گھومتی ہیں۔ افراد ہی تمام نظام کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

آج اس نظام سے مستفید ہونے والے مٹھی بھر افراد ایک طرف اور غریب ، مزدور، محنت کش، کسان اور نوجوان بے روزگاروں کی ایک فوج دوسری طرف کھڑے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں دائیں بازو کی اشرافیہ اپنے تمام سیاسی نعرے بیچ چکی ہے۔ اپنی علیحدہ ثقافتی اسلامی شناخت کا نعر ہ بھی بیچا جاچکا ہے ۔ قومی او ر لسانی تضادات پر بھی سیاست کی جا چکی ہے۔ لیکن موجودہ حالات روزبروز اور بہت تیزی سے ان نعروں کا پول کھول رہے ہیں۔

یہ تضادات صرف پاکستان میں نہیں ابھر رہے بلکہ مشرق و مغرب اب ان کی زد میں ہیں۔ سعودی عرب کا ہندوستان کی طرف جھکاؤ ’’اسلامی امہ ‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھنے والوں کا مذاق اُڑا رہا ہے۔ ہر طرف کرپشن کے نئے نئے سکینڈلز سامنےآرہے ہیں لیکن ان سے جان چھُڑانے کے لئے بھی انہیں بد عنوانوں پر انحصار کرنا کوئی حل نہیں ہے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو کسی حد تک عوامی سیاسی جماعت اور واضح بائیں بازو کے رحجانات کے ساتھ منظرِ عام پر آئی تھی بھی آج عملی طور پر تو دائیں بازو کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کے درمیان اٹک کر رہ گئی ہے ۔ کبھی کبھاربے دلی سے سوشلزم کا نعرہ بھی لگا دیا جاتا ہے لیکن عملاً اس کے پاس کوئی معاشی اور سیاسی پروگرام نہیں ہے۔ت

تمام کی تمام پارٹی سیاسی مفاد پرستوں اور ’’گھس بیٹھئے ‘‘ کا ٹولا بن کر رہ گئی ہے ۔ ہماری معیشت کا ساٹھ فیصد سے زیادہ کا حصہ کالے دھن پر کھڑا ہے۔ جس میں مولویوں اور طالبائزیشن کا بڑا رول ہے۔ نیشنل ایکشن پروگرام متعارف ہو جانے کے باوجود بھی ان ہی کی بیان کردہ ’’ثقافت‘‘ کو ملک میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آج حالت یہ ہے کہ شادی بیاہ پر ڈیک چلانے پر پابندی ہے ۔ ظاہر ہے اس کا جواز یہ پیش کیا جاجاتا ہے کہ یہ فحاشی اور عریانی ہے۔ آج سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سپورٹس پروگرامز کے دوران ’’ڈھول ‘‘ بجانے پر پابندی لگائی ہے۔ پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی پر گرفت کرنے کے ایشو پر حکومت اور فوج کے درمیان تضاد موجود ہے۔ انتہا پسندی کے ایشو کے حل کے لئے حکومت کی پالیسیوں کا حقیقی معنوں میں نام نہاد ’’لبرل ازم ‘‘ اور ’’روشن خیال جمہوریت ‘‘ کی طرف واضح جھکاؤ نہیں ہے۔ حکومت اس بارے میں گومگو کا شکار ہے۔

وہ کھل کر ’’لبرلز اور روشن خیالوں ‘‘ کے ایجنڈے کی طرف آرہی ہے اور نہ ہی کٹر مذہبی ایجنڈے کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔ اس صورتحال کا بھی واضح فائدہ مذہبی طبقہ ہی لے رہا ہے ۔ پاکستان کے ان مسائل کو صرف اور صرف بائیں بازو ہی کی سیاست سے حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ بایاں بازو ہی درحقیقت طبقات کی سیاست کرنے پر یقین رکھتا ہے ۔

لیکن یہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب بایاں بازو اوپر بیان کردہ اپنے مسائل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے اس کیفیت سے باہر نکل آئے ۔ بصورت دیگر معروض اپنے طور پر آگے بڑھتا رہتا ہے اور معروض کا جبر بڑا ہی بے رحم ہوتا ہے جو بلاتفریق سب کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔

One Comment