لشکر طیبہ کی اسلامی عدالت اور حکومت کا ایکشن

0,,15855873_303,00

اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے ایسی خبروں پر ایکشن لیتے ہوئے اس بات کی تفتیش شروع کر دی ہے کہ جنگجو تنظیم لشکر طیبہ کے امدادی ادارے جماعت الدعوۃ نے لاہور میں عدلیہ کے متوازی ایک علیحدہ اسلامی عدالت قائم کر رکھی ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ جماعت الدعوۃ کی طرف سے بنائی گئی ایسی مبینہ ’شرعی عدالتوں‘ کی اطلاعات کے بعد حکومتی ادارے سرگرم ہو گئے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کوئی سنجیدہ کاروائی کرتی ہے یا معاملے کو داخل دفتر کرنے کےلیے کاروائی کی جارہی ہے۔

پاکستان کے ایک معتبر اخبار ڈیلی ڈان کی اطلاع کے مطابق لاہور میں اس امدادی ادارے نے پاکستانی عدالتی نظام کے متوازی ’دارالقضاء شریعہ‘ کے نام سے اپنا ہی ایک عدالتی نظام بنایا ہوا ہے، جس سے لوگ اپنے تنازعات کے حل اور فوری انصاف کی خاطر رجوع بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق اس طرح کا کوئی بھی نظام غیر قانونی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی طرف سے اس طرح کا نظام پایا جاتا ہے لیکن لاہور جیسے شہر میں اس طرح کے ثالثی مراکز کے قیام کی اطلاع ایک انوکھی بات تصور کی جا رہی ہے۔

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق جماعت الدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے امدادی ادارے نے عدلیہ کے متوازی کوئی نظام بنایا ہے۔

خبر رساں اداروں سے گفتگو میں مجاہد نے واضح کیا کہ وہ صرف ثالثی کی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات کے خاتمے کی خاطر دونوں پارٹیوں کی مکمل رضامندی کی صورت میں ہی ’دارالقضاء شریعہ‘ اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثالثی کے لیے مذہبی اسکالر شرعی قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔

ڈیلی ڈان نے پہلی مرتبہ اس خبر کو عام کیا تھا۔ بعد ازاں اس معاملے پر مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے نتیجے میں پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس بارے میں تحقیقات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے بتایا کہ حکومت کو اس بارے میں علم نہیں تھا کہ جماعت الدعوۃ نے ایسا کوئی نظام بنا رکھا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ حقائق جاننے کے لیے تفتیشی عمل جاری ہے۔

لاہور میں جائیداد کے بزنس سے وابستہ شہری خالد سعید نے کہا ہے کہ اسے ’دارالقضاء شریعہ‘ کی طرف سے دھمکی موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے اے پی کو بتایا کہ اس ’اسلامی کورٹ‘ کی طرف سے موصول ہونے والے ’سمن آرڈر‘ میں تحریر تھا کہ اگر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو یہ کورٹ اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔ خالد سعید نے اس کورٹ سے موصول ہونے والا سمن آرڈر اے پی کو بھی روانہ کیا ہے۔ تاہم جماعت الدعوۃ کے مطابق اس ادارے کی طرف سے ایسا کوئی سمن روانہ نہیں کیا گیا۔

خالد سعید کے مطابق سمن ملنے کے باوجود وہ اس اسلامک کورٹ میں نہیں گئے کیونکہ ان کے اس تنازعے کا معاملہ ایک مقامی سول کورٹ میں پہلے سے چل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سمن آرڈر پر ایک اسلامی جج کی مہر بھی ثبت ہے۔ خالد سیعد کے مطابق، ’’بعد ازاں مجھے ٹیلی فون کالز موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ اسلامک کورٹ نے میرے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ کالر نے مطالبہ کیا کہ میں دس ملین روپے کورٹ میں جمع کرا دوں‘‘۔

یاد رہے کہ لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کے بیٹےطلحہ اور ان کے داماد لاہور میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور جو زمین انہیں پسند آجائے وہ اسےاپنی قیمت پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جماعت الدعوۃ کا قیام پاکستان کے خفیہ اداروں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا، جس کا مقصد بھارتی کشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تھااور لشکر طیبہ کی جانب سے دہشت گردی کی یہ کاروائیاں کی جارہی ہیں۔

یہ جماعت سنہ 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں میں بھی ملوث تھی۔ پاکستان اس جماعت کو کالعدم قرار دے چکا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی اور یہ جماعت کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

News Desk, DW

Comments are closed.