بیرسٹر حمید باشانی
اگر مجھے یہ تبصرہ نہ بھی لکھنا ہوتا پھر بھی میں رنگ محل دوبارہ ضرور پڑتا۔
طاہر اسلم گورا کا یہ ناول رنگ محل میں نے پہلی بار دو ہزار تیرہ میں پڑھا تھا۔اس وقت یہ ناول پاکستان کے ایک سنجیدہ ادبی جریدے آج میں چھپا تھا۔یہ ناول میں نے دو نشستوں میں ختم کیا تھا۔اور طاہر اسلم گورا کو بنفس نفیس اپنے تاثرات سے اگا ہ کر دیا تھا۔یہ ناول ان محدودے چند ناولوں میں سے ایک تھا جس کو میں نے دوبارہ پڑھنے کے لیے اپنے ایجنڈے پر رکھ دیا تھا۔مگر اب یہ ناول راوی پبلیکشنز نے شائع کیا ہے ۔ اس کی تقریب پذیرائی میں مجھے کچھ کہنے کی دعوت دی گئی، جس کے لیے میں نے یہ ناول ایک بار پھر پڑھا۔
کالم کی تنگ دامانی اس ناول پر روایتی تبصرے کی طوالت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔چنانچہ میں کہانی کے تکنیکی پہلوؤں،پلاٹ اور کرداروں پر کچھ کہنے کے بجائے اس ناول پر صرف اپنے تاثرات بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔مغرب میں جنوب ایشائی تارکین وطن کے تجربات،جذبات، احساسات اور ان کی نفسیاتی الجھنوں کے بارے میں اگرچہ یہ کوئی پہلا ناول نہیں ہے۔
دوسروں کے علاوہ اس موضوع پر عبداللہ حسین کا معرکہ آراء کام موجود ہے۔انہوں نے واپسی کے سفر میں تارکین وطن کے تعصبات، اندیشوں،مصائب اور مغربی ثقافت سے ان کی بیگانگی اور لا تعلقی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔انہوں نے ایک طبقاتی سماج میں غریب، اقلیتوں،طوائفوں اور دوسرے بچھڑے ہوئے طبقات کی حا لت زار کو یہ خاص نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ طاہر اسلم گورا کے ناول کے تقریباً سارے کردار ہی نچلے طبقے سے ہیں۔مگر انہوں نے ان کرداروں کو معاشی اور طبقاتی تناظر میں نہیں بلکہ ان کے سماجی، ثقافتی اور مذہبی تعصبات کے تناظر میں دیکھا ہے، اس پس منظر میں انہوں نے جو سوال اٹھائے ہیں وہ ہمارے دور کے اہم ترین سوال ہیں۔
مغرب میں جنوب ایشیائی اور خصوصا مسلمان تارکین وطن کی آئندہ نسلوں کا مستقبل دراصل ان سوالات اور ان کے ٹھیک ٹھیک جوابات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔طاہر اسلم گورا نے نا صرف یہ سوالات اٹھائے ہیں بلکہ ان کا جواب بھی دیا ہے۔کیا مسلمان تارکین وطن کینیڈا میں اس سماج، یہاں کی ثقافت راویات اور اخلاقی اقدار کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس سماج کے ساتھ ایک طرح کی ناراضگی یا بیگانگی کی صورت میں مستقل طور پر رہ سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا ان کو اپنے اپ کو اس سماج کا حصہ بنانا چاہیے یا نہیں۔
مصنف نقاب یا حجاب کو اس سماج کے خلاف تضاد پیدا کرنے کی ایک شعوری کوشش یا اس کی ثقافتی اقدار کو رد کرنے کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔اگرچہ نقاب و حجاب کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن ہمارے اگرد گرد کبھی کبھی یہ بہت بڑے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آتا ہے، خصوصا جب اس کو ایک سیاسی بیان یا مغربی اقدار کے خلاف نفرت یا حقارت کے ہتھیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اور یہ صرف مغرب تک ہی محدود نہیں بلکہ خود پاکستان میں بھی نقاب اور حجاب نے جس تیزی سے دوپٹے اور چادر کی جگہ لینی شروع کی ہوئی ہے وہ عرب کی ثقافتی سامراجیت اور غلبے کی ایک شکل ہے۔
یہ بنیادی طور پر پاکستان کے لوگوں کی شدید احساس کمتری اور ان کے شناختی بحران کی ایک مثال ہے۔مصنف نے پاکستانیوں کے اس روایتی شناختی بحران کا بھی بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔پاکستان کے لوگ بنیادی طور پر ایسٹ انڈین یا بر صغیر کے لوگ ہیں۔وہ اپنی نئی شناخت کے باوجود مغرب میں ایسٹ انڈین لوگوں سے الگ نہیں سمجھے جاتے۔پھر وہ اپنی شناخت وطن سے زیادہ مذہب کے ذریعے بنانے پر بضد ہیں جس کا اظہار ان کے نقاب و حجاب جیسے رحجانات سے ہوتا ہے۔
نقاب حجاب اور نقاب حجاب پہننے والی عرب لڑکیوں کے بارے میں مغربی سفید فام نوجوانوں کے جنسی تخیل یا تصورات اس اس کے ساتھ جڑی سیاست اور ضروریات پر بھی مصنف سوالات اٹھا کر غور کرنے کا سامان مہیا کیا ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد عام تاثر یہ ابھرتا ہے کہ کتاب میں شہوت یا جنسی تخیلات اور تصورات کو ضرورت سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔اگرچہ مصنف نے اس کو زندگی کی عام سچائیوں کے کھلے اظہار اور جنسی تعلقات کو منافقت، اسرار کے پردوں اور تضادات سے باہر نکالنے کے طور پر استعمال کیا ہے۔اور اس موضوع پر اشاروں کنائیوں سے بات کرنے کے بجائے روایتی ڈگر سے ہٹ کر کھلی اور عام فہم زبان استعمال کی ہے۔
گو کہ اس سے بھی کچھ نرم زبان استعمال کرنے کے باوجود سعادت حسین منٹو کو پاکستانی عدالتوں میں فحاش گوئی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن طاہر اسلم گورا کا ساری نقطہ ہی تو یہی ہے کہ پاکستان میں اپنی بات کہنا یا اپنی رائے کا آزادانہ اظہار ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر کھل کر بات کی ہے جو ابھی تک اردو میں ٹیبو یا ممنوع تصور کیے جاتے ہیں اور یہ دکھایا کہ پاکستان کے شدید سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی نضادات ہی تو یہاں کے لوگوں کا اصل مسئلہ ہیں جو برسہا برس تک اور دور دور تک ان کا پیچھا کرتے ہیں۔
ناول کی زبان شستہ اور طرز اوریجنل ہے اور جدید اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔اس کتاب کو عالمی معیاری ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔
ناول کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا۔